بشری رشتوں کی قربت اور جسمانی تسکین کو ورچوئل ایجنٹ کے ذریعے پورا کرنے کی نئی سائنسی تحقیق کیا سماجی تعلقات کی کشش اور عشق کے اس لافانی تصور کو بے اثر بنا دے گی‘ جو مشرق و مغرب کے کلاسیکی ادب‘ تصوف اور فلسفہ کے کئی دبستانوں کی اساس ہے جو صدیوں تک دکھوں سے لبریز اس فانی زندگی کو جینے کا جواز مہیا کرتا رہا؟ محققین کی بین الاقوامی ٹیم نے ایک مقالہ میں رومانوی بشریت کے ایسے تصور کو متعارف کرایا جس کے سیاق و سباق میں غیرانسانی ایجنٹ کو انسان جیسی خصوصیات عطا کرکے یہ پرکھنے کی کوشش کی گئی کہ کس طرح انسان کی نفسیاتی ضروریات کو انتھرو پومورفائزڈ (انتھرو یوس (انسان) اور مورف (فارم) سے ماخوذ یہ اصطلاح سب سے پہلے انسان کی جسمانی یا ذہنی خصوصیات کو دیوتاؤں سے منسوب کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی) ایجنٹوں کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے۔
برٹش جرنل آف سوشل سائیکالوجی میں شائع ہونے والی اس دلچسپ تحقیق میں پہلی مرتبہ مجازی رومانوی تعلقات کا یوں جائزہ لیا گیا کہ زیادہ تر رومانوی تعلقات کی تحقیق انسانوں کے سماجی رویوں اور افلاطونی بشریت پر مرکوز رکھی گئی۔ پروفیسر میو کوائیک نے کہا ''ورچوئل ایجنٹ ہماری جدید دنیا میں زیادہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ورچوئل ایجنٹ‘ جسے ورچوئل چیٹ بوٹ بھی کہا جاتا ہے‘ یہ ایک سافٹ ویئر ایپلی کیشن ہے جو انسانوں کو آن لائن مدد فراہم کرنے کے لیے قدرتی زبان کی پروسیسنگ اور سکرپٹ شدہ جوابات کا استعمال کرتی ہے۔ عام طور پر‘ ورچوئل ایجنٹ انسانی محنت کی جگہ لیتے ہیں لیکن جوں جوں یہ ایجنٹ پیچیدہ ہوتے گئے‘ انہیں دوسرے طریقوں سے بھی استعمال میں لایا جانے لگا‘‘۔ بلاشبہ لوگوں کی رومانوی زندگی فطرتِ انسانی کی بنیاد اور سماج کی روح ہے جہاں اب ورچوئل ایجنٹس کی بڑھتی ہوئی شمولیت سماجی رشتوں اور معاشرے کے روحانی وجود کو بے معنی بنا کر مذہبی اصولوں‘ فلسفہ‘ خیر و شر اور اخلاقی اقدار کو غیرمتعلق بنا دے گی؟ انسانی تاریخ کے بیشتر حصہ میں عشق کا مطلب طالب و مطلوب کے مابین دو طرفہ محبت یعنی پیار کرنا اور واپس پیار لینا لیا گیا لیکن آج مصنوعی ایجنٹ کے ذریعے کسی حد تک اس ضرورت کو پورا کرنے پہ قدرت پا لی گئی۔ بلاشبہ رومانٹک ویڈیو گیمز میں ورچوئل کردار تیزی سے انٹرایکٹو ہوتے ہیں‘ یہ گیمز‘ لاکھوں لوگوں کو ورچوئل ایجنٹ کے ساتھ رومانوی تعلقات کو آگے بڑھانے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کرتی ہیں تاہم ان گیمز کی مقبولیت میں تیزی سے اضافے کے باوجود‘ محققین نے ابھی تک ورچوئل رومانس کی باقاعدہ تحقیق شروع نہیں کی‘ لیکن جیسے جیسے ورچوئل ایجنٹ زیادہ پیچیدہ اور متعامل ہوتے جاتے ہیں‘ انسانوں میں عملاً دوسرے انسان کی طرف دیکھنے کے بجائے ان ورچوئل ایجنٹوں کے ساتھ تعلقات کو مثبت جذبات کے تجربات کے طور پہ جاری رکھنے کی یکطرفہ خواہش بڑھ رہی ہے۔ اس تصور کو بہتر طور پر سمجھنے اور دریافت کرنے کے لیے‘ تحقیقی ٹیم نے یہ جانچنے کے لیے تجربہ گاہوں کا مطالعہ کیا کہ کس طرح رومانوی انتھروپومورفزم تعلقات کی صداقت‘ حقیقی دنیا کے تعلقات کی خواہش اور شخصی مزاج کے ساتھ حقیقی دنیا کے باہمی رویے کی پیش گوئی ہوتی ہے۔
پہلے تجربات کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی کہ ورچوئل ایجنٹ کی رومانوی بشریت نے ایک شخص کے حقیقی دنیا کے تعلقات کی خواہش پہ زیادہ مثبت اثر ڈالا کہ ورچوئل ایجنٹ کے ساتھ بنایا گیا تعلق جوابی جذباتی نشیب و فراز‘ نفسیاتی و جسمانی عوارض کے خطرات سے خالی اور مستند تھا۔ دوسرے مطالعے میں انہوں نے پہلے مطالعے کے نتائج کو ایک بڑے نمونے اور مختلف رومانوی ویڈیو گیم کا استعمال کرتے ہوئے جانچا‘ پھر تیسرے مطالعے نے پہلے دو مطالعات کے نتائج کو نقل کرنے کے بعد انکشاف کیا کہ رومانوی ویڈیو گیمز کھیلنے والے انسانی تحقیقی اداکار کے ساتھ بعد میں ہونے والی بات چیت سے پتا چلا کہ وہ حقیقی دنیا کے رویے کی پیشگوئی کرنے میں ناکام رہا۔ ان تین مطالعات میں سامنے آنے والے نتائج سے یہ بات سمجھ آئی کہ جب لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا ورچوئل ایجنٹ کے ساتھ تعلق غیرحقیقی تھا اور یہ اصل بشریت اور نتائج کے درمیان کوئی قابلِ اعتماد براہِ راست ربط نہیں تھا بلکہ انتھروپومورفزم تعلقات کی لذت کو مصنوعی ذرائع سے فیڈ کرتا ہے جو ایک مجازی ایجنٹ اور مثبت مزاج کے ساتھ حقیقی دنیا کے تعلقات کی خواہش کی سچی تسکین نہیں کر سکتا۔ سادہ الفاظ میں‘ کوئیک نے کہا کہ بشریت رشتوں میں صداقت کا جو احساس پیدا کرتی ہے‘ وہ ورچوئل ایجنٹ میں عنقا تھی۔ تاہم ٹیم کی تحقیق ایک انوکھے طریقے کی نشاندہی کرتی ہے جس سے لوگ جدید دنیا میں ورچوئل تعلق تلاش کر سکتے ہیں اور یہی بشریت‘ ورچوئل تعلقات اور رشتے‘ سائنس کے شعبوں میں نئی بصیرت فراہم کریں گے۔ کوئیک نے کہا یہ اس فیلڈ کے لیے مستقبل کی اہم سمت متعین کرتا ہے‘ علاوہ ازیں‘ مستقبل کی تحقیق کے لیے یہ جانچنا بھی فائدہ مند ہوگا کہ شخصیت کی خصوصیات یا دیگر انفرادی اختلافات اس بات پر اثرانداز ہوتے ہیں کہ آیا لوگ کیوں رومانوی بشریت میں مشغول ہوتے ہیں؟ خلاصہ یہ کہ رومانوی تعلقات انسانی فطرت کی بنیاد ہیں اور آج یہ تعلقات ممکنہ طور پر مجازی ایجنٹوں کے ذریعہ پورے کرنے کی کوشش کے ذریعے اپنی ہیئت بدل سکتے ہیں؟ تاہم فی الحال ایسے تجربات کے مضمرات کی بابت سوچنے کی سکیم تیار نہیں کی جا سکی۔
ورچوئل رومانس کو سمجھنے میں مدد کے لیے اس مقالہ میں رومانوی بشریت (یعنی ایک غیر انسانی ایجنٹ کو رومانوی تناظر میں انسان جیسی خصوصیات دینا) کے تصور کو متعارف کرانے کے بعد یہ انکشاف بھی کیا کہ RVGs کھیلنا انسانی کنفیڈریٹ کے ساتھ بعد میں ہونے والے تعامل میں حقیقی دنیا کے رویے کی پیش گوئی کرنے میں ناکام رہا۔بشریت یا زندگی کا تنوع اس قدر پیچیدہ اور متضاد ہے جس میں تال میل اور توازن کی فریکوئنسی تلاش کرنا ناممکنات کے قریب سمجھا جاتا تھا۔ یہ خیالات کے تلون اور جذبات کے زیر و بم میں بہتا انسانی رجحانات کا ایسا فعال دھارا ہے جو متضاد ہونے کے باوجود باہم مربوط ہے اور عقلی عوامل‘ انسانی جبلتوں کے انہی سنگین تقاضوں کو فرد کی مجموعی شخصیت کی بقا اور مفادات کے مطابق روکتے اور رواں رکھتے ہیں۔ چنانچہ بشریت‘ غلطیوں اور اصلاحات‘ظلم اور انصاف‘ کج روی اور اعتدال‘وفا شعاری اور بے وفائی‘عہد و پیماں اور بدعہدی‘خوشی و حزن‘ محبت و نفرت‘ جدائی اور فراق کا سوز گداز‘ فتح کی سرشاری اور ملالِ شکست کے درمیان جھولتی رہتی ہے۔ اسی داخلی کشمکش کے نتیجے میں دیگر عوامل کی تخلیقات کی طرح عشق‘ محبت اور تصوف جیسی رومانوی اصطلاحات وجود میں آئیں جو شخصی طور پہ متنوع تجربات کی کثرت کے باعث اپنے مفاہیم کو لامحدود بنا بیٹھیں یا پھر ذہنی اور جبلی تقاضوں کے تال میل میں فی الحقیقت یہ اصطلاحات کوئی متعین معنی حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔اس لیے ہومر‘ دیوجانس کلبی‘بھگت کبیر‘شمس تبریزی‘ جلال الدین رومی اور علامہ اقبال کی طرح ہر صاحبِ شعور اپنی وارداتِ قلبی‘اندرونی و بیرونی عوامل سے پیدا ہونے والی حالت اور مزاج کے تقاضوں کے مطابق ان کیفیات کو معنی و مفاہیم کے لبادے پہنا کر اپنے کردار کا جواز اور بیانیہ کو دلکش بناتا رہا‘ جس سے تصوف اور فلسفہ کے نت نئے دبستان وجود میں آتے گئے۔عشق جیسی نہایت عام مگر ہمہ گیر اصطلاح سے متعلق یہ وہ سوالات ہیں جو بہت کم لوگ پوچھتے ہیں لیکن ہر شخص ان کا جواب دینا چاہتا ہے۔ اس سب کے باوجود مشرق میں آج بھی عشقِ حقیقی اور مجازی کے مابین تقسیم ہماری اجتماعی خود فریبی کا مشترکہ سرمایہ ہے‘ تاہم مغربی مفکرین عشق کو عمومیت اور سحر کے درمیان ایک عمدہ لکیر کے طور پہ دیکھتے ہیں۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved