وزیراعظم شہباز شریف نے واضح‘ غیر مبہم اور دو ٹوک اعلان کر دیا ہے کہ وہ اگست کے مہینے میں حکومت چھوڑ دیں گے۔ قومی اسمبلی (سندھ و بلوچستان اسمبلیوں سمیت) اپنی مدت پوری کر کے تحلیل ہو جائے گی اور اقتدار نگران حکومت کے سپرد کر دیا جائے گا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کی ذمہ دار ی ہے‘وہ اس کا اعلان کرے گا اور یوں ملک میں نئی نمائندہ حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔انہوں نے البتہ یہ واضح نہیں کیا کہ آئندہ انتخابات اسمبلیوں کی تحلیل کے60 روز کے اندر ہوں گے یا 90 روز کے۔دستور کہتا ہے کہ اگر اسمبلیاں اپنی آئینی مدت سو فیصد پوری کر کے تحلیل ہوں گی تو انتخابات ساٹھ روز کے اندر کرانا ہوں گے‘ لیکن اگر انہیں ایک یا دو یا تین روز پہلے بھی تحلیل کر دیا جائے تو پھر انتخابی عمل کو 90 روز میں مکمل کرنا ہو گا۔دستور بنانے والوں نے یہ تفریق کیوں روا رکھی یہ تو ان ہی کو پتہ ہو گا‘ یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر اسمبلی مدت پوری کر لے تو پھر ہر کام طے شدہ طریقے ‘ طے شدہ رفتار سے پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے‘ اس لیے مدت کم رکھی گئی۔ اگر انہیں مقررہ مدت سے پہلے تحلیل کرنا پڑ جائے تو ناگہانی کا سامنا کرنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہو گا‘اس لیے 30دن کا اضافہ کر دیا گیا۔دستور سازوں کو کہاں معلوم ہو گا کہ اس معاملے کو بھی فرقہ باز مولویوں کی طرح اہل ِ سیاست موشگافیوں کا موضوع بنا لیں گے یعنی ایک‘ دو‘ یا تین دن پہلے بھی اسمبلی تحلیل کر کے نگران حکومت کی روح کو30دن کا ثواب پہنچا گزریں گے۔وزیراعظم نے اس معاملے میں ابہام برقرار رکھا ہے لیکن ان کے کئی وزرا اشارے دے رہے ہیں کہ اسمبلیوں کو چند روز پہلے چلتا کر کے90دن کی مہلت حاصل کر لی جائے گی۔اس کا کوئی فائدہ اس کے سوا پہنچتا نظر نہیں آتا کہ نواز شریف اگر ستمبر کے مہینے میں پاکستان واپس آئیں تو انہیں معاملات کا جائزہ لینے کے لیے چند مزید دن مل جائیں۔ 30 دن ادھر ہوں یا اُدھر‘ انتخابات بہرحال ہو جانا چاہئیں کہ یہی ریاست کا تقاضا ہے‘ اور یہی سیاست کا۔ اکثر سیاستدان یہی بات کرتے نظر آئیں گے لیکن اس کے بعد اگر بحث چھڑے گی تو ہر شے ڈانواں ڈول نظر آنے لگے گی۔
برادرِ عزیز احسن اقبال (مسٹر سی پیک) نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ آئین کے مطابق نئی مردم شماری کے تحت انتخابات ہونے چاہئیں لیکن مردم شماری مکمل ہو کر نہیں دے رہی‘اعتراضات رفع کرتے کرتے تاخیر ہو رہی ہے‘اس کے حتمی نتائج آنے کے بعد حلقہ بندیاں ہوں گی تو انتخابات مؤخر ہو جائیں گے۔ ان کے مطابق تاخیر سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ گزشتہ مردم شماری کی بنیاد پر ہونے والی حلقہ بندی ہی سے استفادہ کر لیا جائے‘لیکن اڑچن یہ آن پڑی ہے کہ اس کے لیے بھی آئین میں ترمیم کرنا پڑ سکتی ہے۔قومی اسمبلی تحلیل نہ ہوئی ہو تو بھی تحریک انصاف کے استعفوں کے بعد اس میں کسی طور (کسی بھی معاملے میں) دوتہائی اکثریت کو اکٹھا نہیں کیا جا سکتا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ اسمبلی کسی آئینی ترمیم کو منظور نہیں کر سکتی‘ اس لیے معاملہ اہل ِ سیاست کو مل کر طے کرنا پڑے گا‘ یا پھر عدالتِ عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹا کر گزارش کی جائے گی کہ نظریۂ ضرورت کے گڑے مردے کو کسی طور نکالیے اور کوئی ایسا حکم صادر کر دیجیے جس سے انتخابات کی لاٹھی سلامت رہے‘ بے یقینی کا سانپ اُسے لپیٹ میں نہ لے سکے۔اس کے ساتھ ہی یہ آوازیں بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ پرانی مردم شماری پر انتخابات منظور نہیں ہوں گے‘سندھ کے دیہی اور شہری حلقوں کے دعویدار اپنی طاقت میں اضافے کے جو خواب دیکھ اور دکھا رہے تھے‘ وہ چکنا چور ہو جائیں گے‘ اور یہی بات ان کو منظور نہیں ہے۔ وہ کسی دوسرے کو اجازت نہیں دے سکتے کہ خواب توڑ ڈالے‘ خوابوں پر وہ اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستانی سیاست نے اور کچھ سیکھا یا سکھایا ہو یا نہ ہو‘ یہ بات از بر کر رکھی ہے کہ کوئی معاملہ کسی طور سلجھنے نہیں دینا۔ کمال الجھائو میں ہے‘ اس لیے اس میں اضافہ کرتے چلے جانا چاہیے۔ مردم شماری کا معاملہ اگر عدالت میں جاتا ہے تو کیا ہو گا اور اگر نہیں جاتا ہے تو کیا ہو گا‘اس حوالے سے جتنے بھی نکتے اور نکتوں سے نکتے نکل سکتے ہوں نکالتے چلے جایئے‘ سو نکتوں کا ایک نکتہ یہی ہے کہ وہ سب رہنما جو انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند ہیں‘ وہ سب سیاسی جماعتیں جو ملک اور قوم کی قسمت کو ہاتھ میں لینے کے لیے بے تاب ہیں‘ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ جائیں اور انتخابات وقت مقررہ پر کرانے کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کرلیں۔ آئینی اور قانونی موشگافیوں سے بعد ازاں نبٹ لیا جائے گا‘ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی؟
پاکستانی سیاست اور معیشت نے ایک دوسرے کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے‘ اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ دونوں کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے کمر دہری ہو رہی ہے۔اخراجات آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں۔ ڈالر کمانے سے کہیں زیادہ خرچ کرنے کے شوق نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ ہمسایہ ملک بھارت تو ہمارا منہ چڑاتا ہی تھا‘ برسوں ہمارا حصہ رہنے والا بنگلہ دیش بھی طعنے دے رہا ہے۔ ہم ایٹمی طاقت بن گئے‘ دنیا کی بہترین فوج کھڑی کرکے دکھا دی لیکن نظم اجتماعی کو استوار نہیں کر سکے۔ اپنے آپ کو کسی قاعدے اور ضابطے کا پابند نہیں بنا سکے۔ دستورِپاکستان اتفاقِ رائے سے بنا تو لیا لیکن اس پر عمل کرنے کے لیے خود کو آمادہ نہیں کر پائے۔ ہر ادارہ منہ زور ہے اور اپنے آپ کو ریاست سمجھتا ہے۔ اہلِ سیاست کے ہاتھ میں اختیار آیا تو وہ حد سے نکل گئے‘ عدلیہ کو آزادی کا زعم ہوا تو ہر شے کو روند ڈالا‘ دفاعی ادارے توانا ہوئے تو کوئی ان کی نظر میں نہ بھایا۔ برسوں سے ہم ''خانہ جنگی‘‘ میں مبتلا ہیں۔ ہاتھ پائوں‘ ناک کان‘ ہونٹ اور زبان‘ دل اور جگر ‘ معدہ اور گردے ایک دوسرے کو دشمن سمجھ رہے ہیں‘ یہ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان میں سے ہر ایک جز ہے‘ کل نہیں۔ کل اجزا سے مل کر بنتا ہے۔ ہاتھ نوالہ نہیں توڑے گا‘ دانت اسے نہیں چبائیں گے‘ معدہ ہضم نہیں کرے گا تو خون کیسے پیدا ہوگا‘ دِل اور جگر کیسے توانا رہیں گے؟ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ عدلیہ انتظامیہ کا کام نہیں کر سکتی‘ تو انتظامیہ مقننہ کی جگہ نہیں لے سکتی۔ پاکستانی ریاست نے بہت وقت ضائع کر لیا‘ ماضی کو دہرا کر مستقبل کو تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ تمام سیاسی جماعتوں‘ رہنمائوں اور قومی اداروں کو فیصلے کا حق عوام کو دینا ہو گا‘وہ جس کے ہاتھ میں چاہیں‘ ہاتھ دے دیں۔ ریاست کو عوام سے اور عوام کو ریاست سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ الگ نہیں رکھا جا سکتا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved