حکومت معاشی ناؤ کو ڈوبنے سے بچانے پر شاداں ہے۔ اسے خوش ہونا چاہئے کیونکہ دوسری صورت میں ملک دیوالیہ ہو جاتا‘ اور ہم جہاں کھڑے ہیں اس سے بہت پیچھے چلے جاتے۔ عام شہری کے جو مسائل ہیں ان میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہوتا۔تاہم ناؤ کو محفوظ طریقے سے کنارے پر لے جانا ہی اصل کامیابی کہلاتا ہے۔ مستقبل قریب میں یہ ناؤ کنارے لگتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ حکومت نے جو معاشی بندوبست کیا ہے وہ حالیہ ڈیفالٹ کے خطرات کو سامنے رکھ کر کیا ہے۔ اس ضمن میں حکومت کی معاشی پالیسی کی حمایت کی جا سکتی ہے لیکن اس معاشی پالیسی پر عوام مطمئن نہیں کیونکہ آئی ایم ایف معاہدے اور برادر ممالک کے تعاون کے باوجود عوام کے مسائل میں کمی نہیں آئی۔ ایسے حالات میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کو انتخابات میں ممکنہ طور پر دو طرح کے چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے‘ ایک یہ کہ دہشت گردی کے واقعات رونما ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ شرپسند عناصر بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کا معاشی مستقبل گوادر بندر گاہ اور سی پیک سے جڑا ہے اس لئے بلوچستان میں شرانگیزی پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں ژوب کے گیریژن میں دہشت گردوں کے ایک گروپ نے 13جولائی جمعرات کو علی الصبح حملہ کیا‘ دہشت گرد تنصیبات میں گھسنا چاہتے تھے‘ تاہم ڈیوٹی پر موجود جوانوں نے انہیں روک لیا‘ فائرنگ کا تبادلہ ہونا شروع ہوا جس میں پاک فوج کے نوجوان شہید ہوئے جبکہ جوابی فائرنگ اور کلیئرنس آپریشن میں پانچ دہشت گرد بھی مارے گئے۔ ژوب گیریژن پر حملے سے قبل ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں سکیورٹی فورسز پر حملہ میں تین جوان شہید ہوئے۔ رواں ماہ کے شروع میں بلوچستان کے علاقے شیرانی میں پولیس اور ایف سی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا‘ جس میں چار اہلکار شہید ہوئے اور جوابی کارروائی میں ایک دہشت گرد مارا گیا۔ جون میں بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاک ایران سرحد کے قریب دو حملے ہوئے جن میں پولیس اور ایف سی کے تین اہلکار شہید ہوئے۔ پولیس اور ایف سی اہلکاروں پر پے در پے حملوں کے بعد جون کے آخر میں ترجمان پاک فوج میجر جنرل احمد شریف نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ رواں سال شرپسندوں کے خلاف تقریباً 14ہزار انٹیلی جنس آپریشنز کئے گئے‘ جس میں 200 کے قریب شدت پسندوں کو قرار واقعی سزا دی گئی۔ کوئٹہ گیریژن پر حملے کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر کوئٹہ پہنچے اور کہا کہ مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کو کارروائیوں کیلئے آزادی اور محفوظ مقامات کی دستیابی پر انتہائی تشویش ہے جبکہ وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ افغانستان ہمسائے کا حق ادا کر رہا ہے نہ دوحہ معاہدے کی پاسداری۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات پر آرمی چیف اور وزیردفاع کے اظہارِ تشویش سے چار روز قبل افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ کسی کو بھی پاکستان کیلئے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دیں گے۔ افغانستان سے اس طرح کی یقین دہانی پہلے بھی کئی بار کرائی جا چکی ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان کی سرزمین پاکستان پر حملوں کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔ بلوچستان کے پشتون اکثریتی آبادی والے علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا ہے حالانکہ اس سے قبل یہ علاقے دہشت گردی سے کم متاثر ہوئے تھے۔ اب خیبرپختونخوا کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بھی ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ یہ تشویشناک اَمر ہے کیونکہ سی پیک کا مغربی روٹ بلوچستان کے پشتون علاقوں سے گزر تا ہے۔
دہشت گردی کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بالخصوص سرمایہ کاری کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں‘ جیسا کہ ماضی میں ہمارے ساتھ ہو چکا کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان آنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ اب حکومت اور پاک فوج نے مشترکہ طور پر اقتصادی بحالی کیلئے متعدد منصوبوں کا آغاز کیا ہے تو دہشت گردی نے پھر سے سر اٹھا لیا ہے۔ چین نے بھی سی پیک اور نان سی پیک منصوبوں کے لیے نجی سکیورٹی کمپنیوں پر عدم اعتمادکا اظہارکیا ہے‘ حکومت کو سکیورٹی کمپنیوں کا نظام بہتر بنانے کے چیلنجز کا سامنا ہے‘ ہم پُرامید ہیں کہ سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل دہشت گردوں کے منصوبوں کا سدباب کرے گی تاکہ سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول میسر آ سکے‘ تاہم الیکشن سے پہلے دہشت گردوں کا دوبارہ سرگرم ہونا حکومتی جماعتوں کیلئے کسی امتحان سے کم نہیں۔
حکومتی جماعتوں کیلئے دوسرا بڑا چیلنج معیشت کا ہو گا۔ حکومت نے دیرپا معاشی منصوبہ بندی کی ہے‘ جس کے ثمرات فوری حاصل ہونے والے نہیں۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دیرپا منصوبہ بندی ہی مسائل کا حل ہے۔ کاروباری طبقے نے بھی اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے ‘تاہم عام شہری کے مسائل اس سے مختلف ہیں۔ وہ فوری ریلیف چاہتے ہیں‘ انہیں دو وقت کی روٹی اور روزگار سے غرض ہے۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اتحادی جماعتیں انتخابی مہم میں عوام کے سامنے کیا پیش کرتی ہیں؟ کیا ڈیڑھ سال کے بعد بھی سابق حکومت پر ملبہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی؟ کیا عوام کی اکثریت اس عذر کو تسلیم کر لے گی؟ نومئی کے واقعات کی وجہ سے حکومتی جماعتوں کو اگرچہ پی ٹی آئی کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن یہ بات ملحوظِ خاطر رہنی چاہئے کہ عوامی مسائل کو حل کئے بغیر کوئی بھی حکومت زیادہ دیر تک اقتدار کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔
حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت پوری ہونے کے قریب ہے مگر انتخابات کے وقت پہ ہونے کا امکان بظاہر کم ہے۔ ہماری دانست میں حکومت وقت پہ جائے گی مگر نئی حکومت وقت پہ نہیں آ ئے گی‘ مقتدرہ ایک نئے تجربے کے چکر میں ہے اور ایسی حکومت لانا چاہتی ہے جو ڈمی اور بظاہر عبوری ہو مگر طویل وقفہ تک چل سکے‘ اس کے ذریعے مقتدرہ اقتدار میں رہنا چاہے گی۔ یہ تجربہ اگر ہوا تو سابقہ تمام تجربوں سے بدتر ہو گا اور مقتدرہ اپنی حمایت تمام جماعتوں میں کھو دے گی۔عدلیہ کی مدد بھی اس بار نہیں ہو گی کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سب کی غلط فہمیاں دور کر دیں گے۔ الیکشن نہ کرانے کے دو تین بہانے ہو سکتے ہیں‘ پہلا یہ کہ نئی مردم شماری‘حلقہ بندیاں اور سیلاب کو جواز بنا کر نگران سیٹ اَپ کو طول دیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 12 اگست 2018ء کو پانچ سالہ حکومت کا آغاز ہوا‘ اسمبلی کی آئینی مدت 12اگست 2023ء کو مکمل ہو رہی ہے‘ 2008ء کے بعد یہ تیسری اسمبلی ہے جو جمہوری نظام کے تحت اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے۔ جمہوری نظام کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ خوش آئند ہے‘ تاہم حکومت اسمبلی کی مدت پوری کرنے کے بجائے چند روز پہلے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا عندیہ دے چکی ہے کیونکہ اگر اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہوتی ہے تو 60روز میں الیکشن کرانا آئینی تقاضا ہے‘اگر اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں تو مزید 30 روز کی گنجائش مل جاتی ہے۔ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت عام انتخابات میں تاخیر کی خواہاں ہے۔ لیکن اتحادی جماعتوں کا اس پر بھی اتفاق رائے نہیں ۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے برملا کہہ دیا ہے کہ حکومت کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی بجائے آئینی مدت پوری کرنی چاہئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اسمبلیوں کی مدت پر اپنا مؤقف پیش کر دیا ہے تاہم طویل عرصہ کیلئے نگران سیٹ اَپ کے حوالے سے جو ابہام پایا جا تاہے اس کا خاتمہ بھی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ طویل نگران سیٹ اَپ سے سیاسی جماعتوں کو کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی محافظ ہونے کی دعویدار ہیں‘ انہیں سوچنا ہو گا کہ طویل نگران سیٹ اَپ کا فائدہ کن قوتوں کو ہو گا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved