خوفناک حادثہ شاید ایک فٹ سے بھی کم فاصلے پر ہمارے سامنے تھا۔ ایک جھٹکے کیساتھ احمد نے گاڑی نشیب میں اس کچے راستے کی طرف موڑدی جو پلیا پار کرتے ہی بائیں ہاتھ پر تھا۔سڑک کیساتھ ہی نشیب میں نیم ڈھلان پر گاڑی ٹائروں اور مسافروں کی چیخوں کیساتھ اُتری ۔اتنی تیز ر فتاری میں گاڑی ایک دم نشیب میں اتار دینے کو آپ خود سوچ بلکہ دیکھ بھی سکتے ہوں گے۔تیز جھٹکوں‘اور دھماکوں کیساتھ ہم اُترائی پر اترے۔ میں آج بھی حیران ہوں کہ گاڑی الٹنے سے کیسے بچ گئی ۔لیکن الٹنے سے بچنے کے باوجود اب وہ بالکل بے قابو ہوچکی تھی ۔ڈھلان سے اترتے ہی وہ ناہموار پتھریلا‘ریتیلا راستہ تھا جو نہ جانے کہاں جاتا تھا۔چکراتی ‘گھومتی‘ کبھی دو پہیوں ‘کبھی چار پہیوں پر دوڑتی ہوئی گاڑی نے کم بیش 100 میٹر کا فاصلہ طے کیا ۔گاڑی کے مسافروں کو لگتا تھا کہ یہ کبھی رُکے گی ہی نہیں اور یہ لمحہ کبھی گزرے گا ہی نہیں۔اب گاڑی ایک وحشی‘ بے لگام گھوڑے کی طرح تھی جسے بس اندھا دھند بھاگنا تھا۔لوہے کا یہ گھوڑاپتھریلے راستے سے دائیں طرف ہٹ کرچھ سات انچ اونچی اینٹوں کی ایک منڈیر پر چڑھا۔ سامنے ایک چھ سات فٹ اونچا پتلا سا کمزور لوہے کا کھمبا تھا جو لائٹ کیلئے لگایا جاتا ہے۔گاڑی اس سے ٹکرائی اور اسے زمین پر بچھا کر اس پر سے گزر گئی۔یہ جگہ ریتیلی تھی جس نے گاڑی کی رفتار کم کردی لیکن رفتار کم ہوتے ہی وہ اس طرح ایک ہی جگہ گھومنے لگی جیسے کوئی پاگل گھوڑا اپنی دم پکڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔کچھ دیر یہ اسی طرح گھومتی رہی لیکن یہ کچھ دیر تو اب کہہ رہا ہوں‘اُس وقت تو یہ لامتناہی وقت تھا۔سڑک سے اترنے سے اب تک شاید چار پانچ سیکنڈلگے ہوں گے لیکن یہ صدیوں جیسے چند سیکنڈ تھے۔
بالآخر گاڑی رک گئی ۔ہم اترے ۔ ایک دوسرے کا حال پوچھا۔ الحمد للہ کسی کو خراش تک نہ آئی تھی ۔گاڑی رُک گئی تھی لیکن جسم کا لرزہ نہیں رک رہا تھا۔ اسی حال میں ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ سب خیریت سے ہیں ۔یہ کتنی حیرت انگیز بات تھی کہ ہم سب سر سے پاؤں تک مکمل محفوظ تھے۔ذرا حوا س بحال ہوئے تو پانی پیا اور گرد و پیش کا جائزہ لیا ۔قریب ایک چھوٹی سی ویران عمارت نظر آئی ۔اندازہ ہوا کہ یہ کسی پٹرول پمپ کیلئے بنائی جانیوالی جگہ ہے جس میں بس ابتدائی کام کرکے چھوڑ دیا گیا تھا۔سڑک ڈیڑھ دو سو میٹر دور تھی۔ دس پندرہ فٹ بلند سڑک پراب دور دور اس گاڑی کا نام و نشان نہیں تھاجس نے ہمیں اس حال میں پہنچایا تھا۔ہم پانچ لوگ ایک ویرانے میں کھڑے تھے۔ ویرانی کیا ہوتی ہے؟ویرانے کی دہشت کیا ہوتی ہے؟بے بسی کیسی خوفناک چیز ہے اوراعصاب جھنجھنا چکے ہوں تو کس طرح ہاتھ پاؤں لرزنے سے نہیں رکتے‘یہ ہمیں اس سفر میں ٹھیک اندازہ ہوا۔ موت ہمیں ابھی ابھی چھو کر گزری تھی اور ہم بمشکل سوچنے سمجھنے کے قابل ہوئے تھے۔ گاڑی کے چاروں ٹائر پھٹ چکے تھے۔لوہے کے کھمبے نے نچلی شیٹ کو بہت نقصان پہنچایا تھا‘لیکن حیرت انگیز طو ر پر انجن بالکل ٹھیک تھا۔عطیہ بہن کی سب کو فکر تھی جو دوسری بار ایک ٹریفک حادثے سے دوچار ہوئی تھیں۔ عمارت میں دو چار کرسیاں پڑی تھیں‘انہیں وہاں بٹھایا گیا۔
اب ہمارے سامنے کئی سوال تھے۔فوری طور پر کیا کیا جائے ‘ کیسے گھر پہنچا جائے؟طائف کے میزبانوں کو کیسے بتایا جائے کہ ہم کس صورتحال میں ہیں اور اب نہیں پہنچ سکتے۔اس ویرانے میں جہاں موبائل سگنل بھی نہیں آرہے‘کسی کو مدد کے لیے کیسے بلایا جائے؟امین بھائی اور احمدعربی دان اور مقامی تھے اس لیے وہ مدد ‘اور کسی ٹائر شاپ کی تلاش میں نکلے ۔جو بظاہر قریب میں کسی جگہ ممکن نہیں لگتی تھی ۔اب ہمیں بس انتظا رکرنا تھا۔طویل انتظار۔اور کیا شعر ہے محشر بدایونی کا انتظار پر
اس انتظار سے بھی ہم گزر چکے اب تو
جس انتظار میں انسان مر بھی جاتا ہے
میں نے سڑک تک جاکر گردوپیش کا جائزہ لیا ۔سناٹا‘ویران سڑک‘بے آباد صحرا‘تیز چلتی گرم لُو‘تپتی چٹانیں بنجر پہاڑ۔خاردار جھاڑیاں اور صحرائی گرگٹ۔بیابانی لُو چلتی تھی تو کنکر اڑ کر چہرہ جھلساتے تھے۔یہ کم و بیش ہجرت کا راستہ تھا۔ ہم سے ایک منٹ دھوپ میں کھڑا نہیں ہوا جاتا تھااور اس دن دو افراد کبھی اونٹ پر اور کبھی پیدل چل رہے تھے۔دو افراد جنہیں پورے راستے پر دشمن تلا ش کرتے پھر رہے تھے۔اللہ اکبر ! کیا سفر تھا جس نے دنیا بدل ڈالی ۔جس جگہ گاڑی اُتری تھی میں وہاں کھڑا تھا اور میرے رونگٹے کھڑے ہوچکے تھے۔کیا ہوتا اگر پلیا ایک دو فٹ زیادہ لمبی ہوتی؟ یا سامنے والی گاڑی پلیا کے پار نہیں ‘پلیا پر ہوتی ؟کیا ہوتا اگر یہ کچا راستہ نہ ہوتا؟اگر ڈھلان کے بجائے ایک گڑھا ہوتا؟اگر گاڑی اُلٹ جاتی ؟اگر اس جگہ نرم ریت گاڑی کو روک نہ لیتی ؟اگر اس جگہ کوئی عمارت یا پٹرول پمپ ہوتا ؟اگر بے قابو گاڑی کے سامنے کوئی انسان ہوتا؟بیسیوں سوال تھے جن کا بس ایک ہی جواب تھا۔ جب مالک نے بچانا ہوتویہی ہوتا ہے۔ وقت‘ جگہ ‘حالات‘سب یکجان ہو کر بچا لیتے ہیں ۔انسان کی قدرت میں نہ مارنا ہے نہ بچانا۔اللہ کی فوجیں ہیں اور اللہ ہی کے حکم کے تابع ہیں ۔ہمارا بچ جانا معجزے سے کم نہیں تھا۔آج بھی ہم اکٹھے ہوتے ہیں تو ان کیفیات کو یاد کرتے ہیں جس سے اکٹھے گزرے تھے۔
کچھ گھنٹے بعد امین بھائی اور احمد نئے ٹائروں کیساتھ آتے دکھائی دیے۔معلوم ہوا وہ کسی طرح لفٹ لے کر کسی قریبی بستی میں پہنچے‘ وہاں مشکل سے مہنگے ٹائر خریدے جن سے گزارا ہوسکتا تھا۔وہاں سے جلد از جلد واپس آئے ۔ یہ بھی اللہ کی غیر متوقع مدد تھی ۔ہم نے ٹائر تبدیل کیے ۔شیٹ کی ممکنہ مرمت کی۔اب گاڑی چلنے کے قابل ہوگئی تھی ۔سڑک پر آتے آتے مغرب ہوچکی تھی ۔ہم نے فیصلہ کیا کہ چونکہ طائف اب دو تین گھنٹے دور ہے ‘اور مدینہ زیادہ فاصلے پر ہے ‘اس لیے طائف ہی جانا چاہئے۔کچھ دور سگنل آنے پر ہم نے ڈاکٹر حسین پراچہ صاحب کو ساری صورتحال بتائی اور کہا کہ ہم کب طائف پہنچ سکیں گے‘یہ کہنا مشکل ہے۔آپ انتظار نہ کریں۔اب مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ہم تقریب میں شریک ہوں ‘یہ ہنگامی صورتحال تھی۔ ہمارے اعصاب پُرسکون ہونے میں کئی گھنٹے لگے۔ طائف میں داخل ہوتے ہوتے ہمیں نو یا دس بج چکے تھے۔ ایک جگہ رُک کر اپنے گرد آلود کپڑے تبدیل کیے ۔مشاعرہ گاہ میں پہنچے تو مشاعرہ اپنے اختتام پر تھا۔اب یاد نہیں کہ صاحب ِصدر بھی پڑھ چکے تھے یا نہیں ۔شاید نہیں ۔ میں نے مشاعرے میں شرکت کی اور سب احباب کو صورتحال بتائی ۔ ا س خوفناک تفصیل کا انہیں اندازہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ محض اللہ کا کرم ہے کہ آپ بچ گئے ورنہ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ڈاکٹر پراچہ کا شکریہ کہ انہوں نے بھرپور مہمان نوازی کی ۔ہم طائف میں ایک رات رُکے۔ واپسی پرہم پھراُس باغ میں رکے‘ جہاں نبی اکرم ﷺ نے کچھ دیر قیام فرمایا تھا۔اس غلام اور انگوروں کے ان خوشوں پر رشک کیا جنہیں مہمان نوازی کا شرف عطا ہوا تھا۔دل ٹکڑے کردینے والی وہ دعا پھر یاد کی جو اُس سخت دن‘اسی مقام پر نبی رحمت ﷺ نے کی تھی ۔آج بھی یہ دعا پڑھیں تو دل بھر آتا ہے۔ذرا پڑھیں تو سہی ۔
''اے اللہ ! میں تجھ سے اپنی کمزوری اور بے بسی اور لوگوں میں اپنی ناقدری کا شکوہ کرتا ہوں۔یا ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے ۔اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے ؟کسی ایسے بیگانے کے‘ جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے ‘یا کسی دشمن کے جو میرا مالک بن جائے۔ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں ہے لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے ۔میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوںجس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پر دنیا وا ٓخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو۔تیری رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں ہے ‘‘۔(ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved