آئی ایم ایف کی طرف سے 3ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی معاہدے کی منظوری کے بعد ملک میں موجود معاشی بے یقینی اور عدم استحکام کا خاتمہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ صنعت و تجارت کے حوالے سے سخت ہونے کے باوجود تاجر برادری قوم کے وسیع تر مفاد میں آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام کا خیر مقدم کر رہی ہے۔ اس پروگرام کی منظوری کے بعد بیرونی فنانسنگ میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کی معاشی ٹیم کو اب بیرونی اکاؤنٹس کو دور اندیشی اور فعال طریقے سے مینج کرنا چاہیے اور میکرو اکنامک فیصلہ سازی میں ہر قسم کی تاخیر اور التوا سے بچنا چاہیے۔ آئی ایم ایف کی شرائط‘ خاص طور پر بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق شرط‘ مہنگائی میں مزید اضافے کا سبب بن سکتی ہے جس کے نتیجے میں صنعتوں کی پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہوگا لیکن کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ صنعتی پہیہ کسی بھی صورت چلتے رہنا چاہیے۔ نظام کو جمود کا شکار کر دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بزنس کمیونٹی نے پچھلے کچھ عرصہ میں کافی مشکل حالات کا سامنا کیا ہے۔ بڑی صنعتوں کی پیداوار گزشتہ مالی سال 2023ء کے دوران مسلسل تنزلی کا شکار رہی۔ حتیٰ کہ کلیدی برآمدی شعبے ٹیکسٹائل کی پیداوار بھی تنزل کا شکار رہی۔ بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں کمی ہونے کی وجہ سے ان صنعتوں سے وابستہ لاکھوں افراد کو روزگار سے ہاتھ بھی دھونا پڑے۔ پاکستان کے صنعتی شعبے کو لاحق چیلنجز سے آنے والے مہینوں میں ملک کی مجموعی معاشی کارکردگی کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں مئی میں سالانہ بنیادوں پر 14فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ اپریل میں یہ کمی 21فیصد‘ مارچ میں 25فیصد‘ فروری میں 11.6فیصد‘ جنوری میں 7.9 فیصد‘ دسمبر 2022ء میں 3.51 فیصد‘ نومبر میں 5.49فیصد‘ اکتوبر میں 7.7فیصد اور ستمبر میں 2.27 فیصد رہی جبکہ اگست میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 0.30 فیصد کا معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ گزشتہ مالی سال کے پہلے مہینے جولائی میں بھی بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 1.67 فیصد کمی واقع ہوئی تھی۔ جولائی 2022ء تا مئی 2023ء کے درمیان بڑی صنعتوں کی پیداوار میں سالانہ بنیادوں پر 9.78فیصد کمی ریکارڈ ہوئی۔ اس کے مقابلے میں مالی سال 2022ء کے دوران بڑی صنعتوں کی پیداوار میں سالانہ بنیادوں پر 11.7فیصد کا اضافہ ریکارڈ ہوا تھا‘پیداوار کا تخمینہ نئے بنیادی سال 16-2015ء کو استعمال کرتے ہوئے لگایا جاتا ہے۔
ادارۂ شماریات کے مطابق گزشتہ مالی سال کے گیارہویں مہینے یعنی مئی کے دوارن 16شعبوں کی پیداوار میں تنزلی واقع ہوئی اور صرف 4میں معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کی پیداوار میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 25.97فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ سب سے زیادہ منفی نمو یارن میں یعنی 29.89فیصد اور کپڑے میں 17.49فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ تیار ملبوسات کی مئی میں پیداوار 12.86 فیصد بڑھی‘ اس شعبے کی کارکردگی ابتدائی 10 مہینوں کے دوران ماسوائے فروری مثبت ہی رہی۔ خوارک کے شعبے میں گندم اور چاول کی پیداوار میں 0.36فیصد کمی ہوئی‘ تاہم چائے کی پیداوار میں 39.99فیصد‘ خوردنی تیل کی پیداوار میں 24.45فیصد اور ویجی ٹیبل گھی کی پیداوار میں 23.80فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔مئی میں پٹرولیم مصنوعات میں 21.85 فیصد منفی نمو ریکارڈ کی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ پٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی پیداوار میں کمی ہے جبکہ تمام پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار میں ماسوائے جیٹ فیول‘ مٹی کے تیل‘ جیوٹ اور بلیچنگ تیل سست روی دیکھی گئی۔ اسی طرح آٹو موبیل سیکٹر میں تقریباً 48فیصد کی تنزلی دیکھی گئی‘ ڈیزل انجنز کے علاوہ تقریباً تمام قسم کی گاڑیوں کی پیداوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ لوہے اور سٹیل کی پیداوار بھی مارچ میں 5.83 فیصد گھٹ گئی‘ جس کی بنیادی وجہ بِلٹس کی پیداوار میں 15.09 فیصد کمی ہونا ہے جبکہ غیر دھاتی معدنیات کی پیداوار میں 0.53 فیصد کا معمولی اضافہ دیکھا گیا‘ تاہم کیمیکل مصنوعات کی نمو مئی میں پچھلے سال کے مقابلے میں 15.44 فیصد کم ہوئی۔مئی میں سالانہ بنیادوں پر ادویات کی پیداوار میں 38.61 فیصد‘ ربر مصنوعات میں 5.81 فیصد اور کھاد میں 13.31 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔اگر آئی ایم ایف معاہدے پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل ہوا تواگلے چھ ماہ میں منفی اعدادوشمار مثبت اشاریوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔آئی ایم ایف نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کے لیے 3ارب ڈالر قرض کا نیا پروگرام ملکی معیشت میں استحکام اور ادائیگیوں میں توازن کی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہو گالیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل ہو۔ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے اس خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان یہ پروگرام بھی مکمل نہیں کر پائے گا۔ شاید اس لیے آئی ایم ایف ہر معاملے کی سخت مانیٹرنگ کر رہا ہے۔
عمومی طور پر قرض کی قسط جاری ہونے کے کچھ ماہ بعد آئی ایم ایف مانیٹرنگ کا عمل شروع کرتا ہے لیکن پاکستان کے کیس میں ایسا دکھائی نہیں دے رہا۔ قرض کی قسط جاری کرنے کے اگلے ہی روز ایم ڈی آئی ایم ایف سے وزیراعظم کی تفصیلی گفتگو ہونا اور معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کرنے کے لیے دوبارہ زور دینا بلاوجہ نہیں ہے۔ ایم ڈی نے وزیراعظم کو بتایا کہ بورڈ کو میں نے ذاتی گارنٹی دی ہے۔ بورڈ کو پاکستان پر عدم اعتماد تھا۔ ماضی میں جس طرح معاہدے کو توڑا گیا‘ اس سے اعتماد کا فقدان ہو چکا تھا۔ امید ہے کہ اس مرتبہ پاکستان مکمل تعاون کرے گا۔ اسی گفتگو کے ردِعمل میں سٹیٹ بینک نے اگلی مانیٹری پالیسی کا شیڈول جاری کیا ہے جس کے مطابق مانیٹری پالیسی کا اگلا اجلاس 31 جولائی کو ہوگا۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف نے شرحِ سود مزید بڑھانے کے لیے کہا ہے اور اگلے اجلاس میں شرح سود مزید ایک فیصد بڑھائی جا سکتی ہے۔ زراعت اور رئیل سٹیٹ سیکٹر پر نئے ٹیکسز کے حوالے سے آئی ایم ایف اور ایف بی آر کے درمیان دوبارہ رابطہ ہوا ہے اور جلد ہی ایک اور منی بجٹ سامنے آ سکتا ہے۔ اگر ایکسچینج ریٹ کی بات کی جائے تو روپے پر دباؤ کافی بڑھا ہے۔بینک مبینہ طور پرفیوچر ٹریڈنگ کر رہے ہیں۔ وزراتِ خزانہ نے بینکوں کو ڈالرز خود مینج کرنے کے لیے کہا تھا جس کے بعد بینک ایکسپورٹرز سے بیس روپے زیادہ ریٹ پر ڈالرز خرید کرامپورٹرز کو بیچ رہے ہیں۔ وہی سلسلہ دوبارہ شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو مفتاح اسماعیل صاحب کے دور میں ہوا تھا۔ بینکوں نے پہلے ڈالر ریٹ گرا کر اور پھر اٹھا کر اربوں روپیہ کمایا تھا۔ اب فیوچر ٹریڈنگ کے نام پر ایک مرتبہ پھر مارکیٹ خراب کی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ صاحب اس کا نوٹس لیں۔ صرف ایک دن میں اوپن مارکیٹ میں پاؤنڈ کی قیمت میں دس روپے اضافہ ہوا ہے اور گرے مارکیٹ میں ڈالر تین سو روپے میں بک رہا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے پر عمل درآمد ضروری ہے لیکن ان کی خواہش پر خود کشی نہیں کی جا سکتی۔
وزیراعظم صاحب نے اس ضمن میں بہت باریک بات کی ہے‘ انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے لیے یہ کوئی فخر یہ لمحہ نہیں ہے بلکہ لمحۂ فکریہ ہے۔ وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے اس کے ساتھ مختلف حوالے بھی دیے ہیں لیکن میرے لیے یہ لمحۂ فکریہ کسی اور حوالے سے بھی ہے۔ جس وقت پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لے رہا تھا اسی وقت ہمارا ہمسایہ ملک بھارت چاند پر اپنا تیسرا خلائی مشن چندریان تھری بھیج رہا تھا۔ اس خلائی مشن کی لاگت 75 ملین ڈالر ہے۔ اگر یہ مشن کامیاب ہو جاتا ہے توامریکہ‘ روس اور چین کے بعد بھارت دنیا کا چوتھا ملک بن جائے گا جو کامیابی سے چاند پر لینڈ کرے گا۔ اور چاند کے قطب جنوبی پر پہنچنے والا پہلا ملک بھارت ہو گا۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ بھارت اور پاکستان میں کیا فرق ہے؟ بھارت نے آخری مرتبہ 1991ء میں آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا۔ وہ بھی ایک سٹینڈ بائے ارینجمنٹ تھا‘ جو 1993ء کو ختم ہوگیا تھا۔ اس کے بعد سے آج تک اس نے آئی ایم ایف سے مدد نہیں مانگی جبکہ پاکستان مارچ 2024ء میں اس پروگرام کے خاتمے کے بعد دوبارہ آئی ایم ایف پروگرام میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت کی ترقی اس وقت شروع ہوئی جب وہ آئی ایم ایف پروگرام سے نکلا اور موجودہ مقام تک آتے ہوئے اسے تقریباً 30 سال لگے ہیں۔ اگر پاکستان اگلے پانچ سال بعد آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے اور بھارت کی رفتار سے معاشی ترقی کے سفر کا آغاز کرتا ہے تو پاکستان کو بھارت کے برابر آنے کے لیے کم از کم 35سے 40 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ہم بھارت سے اس قدر پیچھے رہ گئے ہیں کہ شاید دوڑ سے ہی نکل گئے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved