سچ ہر حال میں سچ رہتا ہے۔ یہ اپنی اصلیت بدلتا اس لیے نہیں کہ بدل ہی نہیں سکتا۔ سچ کیا ہے؟ زمینی حقیقت۔ ہر زمینی حقیقت ہمارے لیے ایسے سچ کا درجہ رکھتی ہے جس سے چشم پوشی نہیں برتی جا سکتی۔ ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ جو بھی حکمتِ عملی تیار کرے‘ اس کے لیے زمینی حقیقتوں کو کسی بھی درجے میں نظر انداز نہ کرے۔ ہر حکمتِ عملی صرف اس وقت کامیاب رہتی ہے جب انسان تمام متعلقہ زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھتے ہوئے سوچے اور منصوبہ سازی کرے۔ ہمیں زندگی بھر حقائق کا سامنا رہتا ہے۔ بعض حقیقتیں بالکل واضح ہوکر ہمارے سامنے آتی ہیں جبکہ بعض کو ہمیں سمجھنا ہوتا ہے‘ پردوں میں ہونے پر بھی پہچاننا پڑتا ہے۔ آپ کا ذہن چاہے کچھ بھی سوچ رہا ہو‘ دل چاہے کچھ بھی محسوس کر رہا ہو‘ سچ اول و آخر سچ رہتا ہے اور اسے تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ سچ ہی اس قابل ہوتا ہے کہ قبول کیا جائے‘ گلے لگایا جائے اور یہ کہ سچ کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں صرف خرابیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر پھر بھی ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ سچ سے دامن چھڑانے ہی میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ سچ کو ماننے اور قبول کرنے میں آخر اس قدر لیت و لعل کیوں؟ جب ہم سبھی جانتے ہیں کہ سچ کو اپنانے ہی سے معاملات کی درستی ممکن ہو پاتی ہے تو پھر اسے قبول کرنے میں ہچکچاہٹ اور تذبذب کیوں؟ اس مرحلے میں انسان اٹک کر کیوں رہ جاتا ہے؟ سچ کو تسلیم کرنے اور حرزِ جاں بنانے سے گریز کی روش کے بارے میں انسان بہت کچھ کہہ سکتا ہے مگر یہ طے ہے کہ جو کچھ بھی وہ کہے گا وہ صرف اور صرف بہانہ تراشنے کے درجے میں ہوگا‘ اس سے زیادہ یا ہٹ کر کچھ بھی نہیں۔
انسان کا ہمیشہ ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ کسی بھی سچ کو ابتدائی مرحلے میں قبول نہیں کرتا۔ جرمن فلسفی آرتھر شاپنہار نے کہا ہے ''ہر سچ کو تین مراحل سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ پہلے مرحلے میں اس کا خوب تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ سبھی یہ کہتے ہیں کہ سچ ایسا کیسے ہو سکتا ہے یا یہ بات سچ کیسے ہو سکتی ہے۔ دوسرا مرحلہ مخالفت اور مزاحمت کا ہوتا ہے یعنی پوری کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی بھی اس سچ کو قبول نہ کرے‘ اسے اپناکر اپنے فکر و عمل کو بہتر بنانے کی راہ پر گامزن نہ ہو۔ اس مرحلے میں سچ کے ہاتھوں یعنی اسے نہ ماننے سے معاملات بگڑتے ہیں اور تیسرے مرحلے میں سچ کو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ ہر دور کے انسان نے یہی کیا ہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے‘‘۔
جب کسی سچ کو قبول کر لیا جاتا ہے تب وہی سچ ان سب کے لیے انتہائی پسندیدہ معاملہ بن جاتا ہے جو اسے قبول نہ کرنے کے معاملے میں کسی بھی حد سے گزرنے پر بضد پائے گئے ہوں۔ ہر دور کے انسان نے سچ کے معاملے میں ایسی ہی غیر متوازن اور جذباتی طرزِ فکر و عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ عملی زندگی میں سچ کو تین مراحل سے گزرتے ہوئے دیکھنا کسی بھی درجے میں کوئی بہت مشکل یا ناممکن بات نہیں۔ کچھ بھی نیا کہیے‘ لوگ فوراً قبول نہیں کریں گے۔ نئی بات لوگوں سے ہضم نہیں ہو سکتی۔ نئی بات یعنی نیا سچ۔ ہر نیا سچ انتہائی اجنیت کے ساتھ دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ لوگ ایسی طرزِ فکر و عمل اختیار کرتے ہیں گویا کسی نے کسی اور سیارے سے آکر کوئی بات کہی ہے۔
کسی بھی سچ کو قبول کرنے سے انکار یا گریز کا بنیادی سبب اصلاً تو مفادات کا متاثر ہونا ہوتا ہے۔ اگر مفاد یا مفادات پر کچھ خاص ضرب نہ پڑتی ہو تو سچ کو آسانی سے قبول کرنے میں زیادہ قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ معاملات معاشرتی ہوں یا معاشی‘ انسان سچ کو آسانی سے قبول کرنے میں بالعموم زیادہ دلچسپی نہیں لیتا۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ سورج کی طرح روشن سچ بھی سامنے آجائے تو اسے جھٹلاتے ہیں اور اس کے وجود ہی سے انکار پر تُل جاتے ہیں۔ یہ ضد بلا سبب یا بلا جواز نہیں ہوتی۔ ہر انسان کسی بھی سچ کو سب سے پہلے اپنے مفادات کی کسوٹی پر جانچتا‘ پرکھتا ہے۔ اگر سچ کے ہاتھوں فوری نقصان کا سامنا ہو تو انسان اسے قبول کرنے میں برائے نام بھی دلچسپی نہیں لیتا۔ اگر اسے اس بات کا یقین ہو کہ آگے چل کر اس سچ کو قبول کرنا ہی پڑے گا تب بھی وہ ابتدائی مرحلے میں اس سے چشم پوشی برتنے ہی کی روش پر گامزن رہتا ہے تاکہ جہاں تک ہو سکے‘ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرے۔ یہ معاملہ کم و بیش ہر انسان کا ہے۔ لوگ بالکل سامنے کی سچائی کو بھی قبول نہیں کر پاتے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے ماننے یا نہ ماننے سے سچائی پر کوئی بھی اثر مرتب نہیں ہوگا‘ وہ جو کچھ ہے وہی رہے گی۔
کسی بھی سچ کو ماننا یعنی قبول کرکے اپنے معاملات میں اسے سمونا‘ پرونا کسی بھی انسان کے لیے اسی وقت انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے جب اس حوالے سے تربیت نہ کی گئی ہو۔ جنہیں بچپن ہی سے سچ کو قبول کرنا‘ اپنے معاملات میں سمونا سکھایا گیا ہو وہ بیشتر معاملات میں متوازن طرزِ فکر و عمل اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سچ اگر موافق نہ ہو تب بھی اتنا ہی نقصان پہنچاتا ہے جتنا پہنچا سکتا ہے اور ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سچ کے ہاتھوں جو نقصان پہنچنا ہوتا ہے وہ فوری پہنچے یا بعد میں‘ پہنچ کر ہی رہتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرنے کی ہمت بھلا کس میں پائی جا سکتی ہے کہ کسی بھی سچ کے ہاتھوں پہنچنے والا نقصان بالآخر ہمارے مفاد ہی کا معاملہ ہوتا ہے؟ یہ قدرت کا نظام ہے۔ اگر ہم نے کوئی قصور نہ کیا ہو اور کسی معاملے میں نقصان کا سامنا کرنا پڑے تو وہ نقصان آزمائش کے درجے میں ہوتا ہے اور اس کے عوض قدرت ہی کی طرف سے کچھ نہ کچھ ہماری تقدیر میں لکھا ہی ہوتا ہے۔
بچوں کی تربیت میں سچ کو پہچاننے اور اسے تسلیم و قبول کرنے کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ جب چھوٹی عمر سے سکھایا جاتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے بلکہ سچ بولنا اور قبول بھی کرنا چاہیے تب زندگی کی سمت درست ہوتی ہے۔ بچے بہت کچھ بہت تیزی سے قبول کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں انہیں سچ کو قبول کرنے کی طرف مائل کیا جائے تو وہ بڑے ہوکر اپنے بیشتر اہم معاشی اور معاشرتی معاملات میں صرف سچ کو قبول کرتے ہیں‘ جھوٹ کی طرف نہیں جاتے۔ بات بات پر جھوٹ بولنے والوں اور سچ بولنے سے مکمل احتراز کرنے والوں کے معاملات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بزرگوں نے انہیں سچ کو قبول کرنے کی تربیت ہی فراہم نہیں کی ہوتی۔ ہر سچ اپنی اصل میں کچھ نہ کچھ دے کر جانے والا ہوتا ہے۔ ہر سچ معاملات کی درستی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے مگر یہ کردار اسی وقت ادا ہو پاتا ہے جب اس سچ کو شرحِ صدر کے ساتھ قبول کیا جائے‘ زندگی میں سمویا جائے۔ ہم بالعموم کسی بھی سچ کو آسانی سے قبول یوں نہیں کرتے کہ دل ڈرتا رہتا ہے‘ نقصان سے بچنے کی کوشش میں ہم مزید نقصان کی راہ ہموار کر بیٹھتے ہیں۔ یہ سب کچھ تربیت کی کمی اور ماحول کی خرابی کے نتیجے میں رونما ہوتا ہے۔ اچھے گھرانے بچوں کو سچ کی قبولیت کے معاملے میں ابتدائی مرحلے ہی سے بتاتے آرہے ہوتے ہیں۔ سچ بولنے اور کسی کے بولے ہوئے سچ کو قبول کرنے کی ذہنیت اسی وقت پروان چڑھتی ہے جب بچوں کو بتایا جاتا رہے کہ سچ اپنے آپ میں ہمارا حامی ہوتا ہے نہ مخالف‘ وہ تو بس سچ ہی ہوتا ہے۔ ہمارے قبول نہ کرنے سے سچ کہیں چلا نہیں جاتا بلکہ وہیں کا وہیں رہتا ہے جہاں اسے ہونا چاہیے۔ ایسے میں دانش کا تقاضا یہ ہے کہ سچ کو قبول کرکے معاملات کو خرابی سے بچایا جائے۔
یہ نکتہ بچوں کو خصوصی طور پر ذہن نشین کرانا چاہیے کہ سچ کے ہاتھوں پہنچنے والا نقصان اسے قبول نہ کرنے کی صورت میں پہنچنے والے نقصان سے کہیں کم ہوتا ہے۔ اور پچھتاوا؟ اس کی قیمت کا تو کوئی اندازہ لگا ہی نہیں سکتا۔ زندگی سے پیار ہے اور اس کے تقاضوں کو نبھانے سے شغف ہے تو سچ کو قبول کرتے رہیے۔ اگر یہ فن سیکھنا پڑے تو سیکھنے میں بھی کچھ ہرج نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved