وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ ہمیں تو بالکل پتا ہی نہیں چلا کہ جوانی کدھر گئی‘ خوابوں کے دن اتنے مختصر کیوں تھے۔ زندگی کے کئی بوجھ آہستہ آہستہ کندھوں پر ایسے سوار ہونا شروع ہوجاتے ہیں تاثر ملتا ہے کہ صرف ہم ہی اُنہیں منزل مقصود تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ فلسفے تو بہت بعد میں سمجھ آنا شروع ہوئے کہ دنیا کے مسائل اگر اٹھائے پھروگے تو وقت کے صحرا میں گم ہوجائو گے۔ اپنی سُدھ بُدھ پہلے ہی کم تھی‘ باقی کسر وقت کے تیز رفتارجھکڑ نے پوری کردی۔ کہتے ہیں کہ دنیا کو سمجھنے سے پہلے اپنا کھوج لگائیں۔ اس پر بہت غور کیا تو پتا چلا کہ ہم کچھ بھی نہیں‘ بس دہر کی تیز آندھیوں میں اُڑتے کچھ ذرات جو ادھر اُدھر بھٹک کر کہیں گر پڑتے ہیں‘ اور وہاں کچھ دیر زندگی کا نقش بن جاتا ہے۔ مگر وہ ریت کا ذرہ گہر بھی ہو سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ کوئی جوہری اس کی پہچان کرے۔ تراشے ہوئے گرد آلود پتھر کے ٹکرے کو جلا بخش کربازار عالم میں قیمتی بنادے۔
ہم جس خطے میں واقع ہیں‘ مرکزی ایشیا جو کبھی ترکستان تھا‘ افغانستان‘ ایران اور وادیٔ سندھ وہ قدیمی علاقے جن کے ہم تو نہیں‘ ہمارے اکابرین جدی پشتی وارث بنا گئے ہیں۔ یہ خطے ایسے جوہریوں سے ابھی تک محروم ہیں۔ یہاں سنگ تراش بھی کسی ڈھنگ کے پیدا نہیں ہوئے۔ اگر موازنہ کرنا ہوتو بدھ مت کے عروج کے زمانے کی اسلام آباد کی پہاڑیوں کی دوسری جانب جولیاں خانقاہ کی دیواروں کی تعمیر کو دیکھ لیں۔ میں نے ایسی دیوار بعد کے زمانوں میں کہیں بنی نہیں دیکھی۔ اپنی ویرانیوں کا حال یہاں سے شروع کرتا ہوں۔ایک زمانہ تھا میرے دوست امریکہ‘ بھارت اور سری لنکا سے آتے تو میں اُنہیں جولیاں جو ایک چھوٹی سے پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے‘ لے جاتا۔ امریکہ سے ایک دوست آیا ہوا تھا۔ وہ جمعہ کا دن تھا اور ہم وہاں‘ دوپہر کے بعد سرما کے دن تھے‘ ہم مختلف حصوں کو دیکھ رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر لوگ بڑی تعداد میں جمع تھے‘ اور کافی شور آرہا تھا۔ ایک گائیڈ سے اس جم غفیر کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ مرغوں کی لڑائی ہورہی ہے۔ اس بات کو کئی عشرے گزر گئے اور ہم بھی نہ جانے کیا سے کیا ہوگئے۔ مگر ایک زمانے کے اجڑے ہوئے کھنڈرات سے مرغوں کی لڑائی کا وہ واقعہ دل سے کبھی محو نہیں ہوا۔ کیا وہ تہذیب تھی‘ کیا ہمارے مشغلے تھے۔
تاریخ تو اس خطے کی بہت پرانی ہے۔ کم از کم ان تمام ملکوں میں‘ جن کا ذکر کیا ہے‘ مرغوں کی لڑائی کا تسلسل کبھی ٹوٹا نہیں۔ ''آگ کا دریا‘‘ ناول میں قراۃ العین حیدر نے کیا زبردست نقشہ ہمارے علاقوں کے ثقافتی اور علمی ماحول کا کھینچا ہے۔ حالات خراب ہوئے‘ معاشرے بگڑ گئے‘ جب سونے کی چڑیا کی تلاش میں گھڑ سوار لشکروں کی صورت یکے بعد دیگرے دور کے صحراوں اور پہاڑوں سے اتر کر ہمارے دریائوں سے سیراب ہونے والی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع ہو گئے۔ ہم اتنے اسیر ہوئے ہیں کہ وہ سب ہمارے نجات دہندہ ہیں۔ ایک دھڑا آیا۔ وہ کمزور ہواتو دوسرا کہیں سے سونے کی چڑیا کو دبوچنے آ گیا۔ ہم نے تاریخ کو بھی من گھڑت قصوں کی زینت بنا دیا۔ یہاں آپ کو ایک مستند حوالہ دیتا ہوں۔'' تاریخِ فرشتہ‘‘ یہ مولانا محمد قاسم ہندو شاہ فرشتہ نے لکھی ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کا نام ہندو شاہ کیوں تھا۔ مترجم یہ کہہ کر فارغ ہوگیا ہے کہ اس کے باپ کے نام کے ساتھ بھی ہندو شاہ تھا۔ مرغوں کی لڑائی کے قصے پڑھنے کا شوق ہو یا تاریخ کے اصل مواخذ کو دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتو یہ کتاب اس خطے کے لیے ایک اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔جو واقعات اور جس وضاحت اور تفصیل سے اکٹھے کیے گئے ہیں‘ شاید ہی کہیں اور ہوں۔ اس سے پہلے منہاج سراج جوزجانی کی ''طبقاتِ ناصری‘‘بھی اپنی مثال آپ ہے۔یہ کتاب 1260 میں مکمل ہوئی تھی۔ جن پندرہ بیس کتابوں سے قاسم فرشتہ نے فیض حاصل کیا تھا‘ یہ کتاب اُن میں شامل ہے۔ آپ کو گھیر کر کتابوں کی طرف اس لیے لایا ہوں کہ ہمارے خطے میں سونے کی چڑیا کو قبضے میں لانے کی روایت ابھی تک قائم ہے۔ چھوٹے بڑے‘ اصیل‘ دیسی او ر ولایتی مرغوں کی لڑائی جاری ہے اور ہم عام لوگ ہیں کہ تماشا دیکھنے میں مگن‘ لمحوں کی قید میں بند اور غلامی کے خوگر۔ ہم کون سا غدار ہیں ؟
اپنی بات بالکل نہیں کررہے‘اور نہ بات کرنے کے حالات ہیں۔ جب راوی سب چین ہی چین لکھتا ہے تو ہمیں جنگل کی خلوت میں بے چین ہونے کی کیا ضرورت۔ ایک سوسال پہلے افغانستان‘ ایران اور خطۂ عرب میں بالکل آج جیسے حالات تھے۔ ہمارے ہاں بھی پہلی عالمی جنگ کے بعد آزادی کے لیے لوگ بے چین تھے۔ کئی تحریکیں چل رہی تھیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کا سورج غروب ہوچکا تھا اور ہم یہاں خلافت کی بحالی کی تحریک چلا رہے تھے۔ کمال اتاترک ایک نئے خواب کے ساتھ ترکیہ کو از سرِ نو ترتیب دے رہے تھے۔ ویسے جدیدیت کا علم انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں وہاں کئی صورتوں میں شروع ہوا۔ ایران میں اُس صدی کے اوائل سے آئینی حکومت قائم تھی۔ انتخابات ہوتے تھے‘ سیاسی جماعتیں تھیں اور مجلس کی صورت پارلیمان بھی اپنا وجود رکھتی تھی۔ افغانستان میں امیر امان اللہ جدت پسندی کا پرچار کررہے تھے۔ ہمارے ہاں بھی ہر طبقے میں جدت پسندی کی سوچ غالب تھی۔ جامعات بن رہی تھیں‘ کالج کھل رہے تھے‘ خواتین کے حقوق کی باتیں ہوتی تھیں‘ رسالے نکلتے تھے اور کئی مذہبی‘ سماجی اور سیاسی تحریکیں زوروں پر تھیں۔ سب نئے زمانوں کے خواب آنکھوں میں سجائے مغربی سامراجیت کے خاتمے اور حق خودارادیت کی جد و جہد میں مصروف تھے۔ پوری ایک صدی کی تاریخ کا احاطہ تو ممکن نہیں مگر آج جو افغانستان‘ایران اور پاکستان کے حالات ہیں وہ دیکھ کر خود کو خس و خاشاک کی طرح پاتے ہیں۔ صحرا کی ریت کے ذرے کی طرح طوفانوں اور آندھیوں کی زد میں ہیں۔ اُس وقت طاقتور شہسواروں کے تازیانوں کو لپکتے دیکھ کر ڈر کے مارے تماشائیوں کی صف میں کھڑے ہو جاتے۔ تب کم از کم کچھ خواب تھے‘ کچھ بیدار کارواں تحریکوں کی صورت نظر آتے تھے۔ امید کی روشنی کی کرنیں ہر صبح ایک نئی تر و تازگی کے ساتھ پھوٹتی تھیں۔
ترکی تو آگے نکل گیا‘ اگرچہ وہاں بھی شہسواروں کی روایت قائم ہے۔ کچھ جغرافیہ‘ کچھ تاریخ اور کچھ حالات کا جبر کھینچ کر ترقی کی راہ پر لے آیا ہے۔ عربوں کی برجوں اور سریا سیمنٹ والی ترقی کیلئے ابھی تک دل سے کوئی واہ واہ کی آواز نہیں اٹھی۔افغانستان میں مقامی اور علاقائی مرغوں کی لڑائیاں نصف صدی سے جاری ہیں۔ درمیان میں دو ولایتی مرغے بھی آئے اور تیس سال تک لڑتے ر ہے۔ بچوں کیلئے تعلیم کے دروازے اب بند ہیں۔لاکھوں افغان دنیا میں بکھرے اپنے حالات پر نوحہ کناں ہیں۔وہی ردِعمل جو امان اللہ خان کے خلاف ہوا تھا کہ وہ تعلیم سب کے لیے عام کر رہے ہیں اور نئی سوچ کے زاویے پیش کر رہے تھے۔ امریکی انخلا کے بعد وہاں دیکھ رہے ہیں۔
ہمارے اپنے حالات وہ نہیں جو حکمران اور ہرکارے آپ کو روزانہ سکرینوں پر سج دھج کرپیش کرتے ہیں۔ اپنے د گرد وپیش کا جائزہ لے لیں۔ دور نہیں اپنے گلی محلے‘ شہر کے بازار‘ نزدیک کے دیہات کے حالات یاکسی سرکاری دفتر کا ایک چکر ہی لگا کر دیکھ لیں کہ کس ڈھٹائی سے کیا کیا باتیں یہ کرتے ہیں۔ کوئی امید نظر آتی ہے نہ اب ایسی خواہش ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میں کتنے لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر کہیں اور آباد ہو چکے۔ کیا سوچ کی بلندیاں ہیں وزیراعظم صاحب کی کہ لوگ باہر جائیں گے تو زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھیں گے۔ سرکار جب مرغوں کی لڑائیاں جاری رہیں تو پیچھے رہ کون جائے گا ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved