اللہ تبارک وتعالیٰ زمان و مکان کے خالق ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی نے بعض مکانوں کو دیگر پر اور زمانے کے بعض ایام کو دوسرے ایام پر فوقیت عطا کی ہے۔ کتبِ احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ روئے زمین پر مساجد سب سے مقدس مقام ہیں اور زمین پر موجود بازار اللہ تعالیٰ کے نزیدک ناپسندیدہ ترین جگہیں ہیں۔ مساجد میں بکثرت جانا چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت حاصل ہو جبکہ بازاروں میں بلاضرورت جانا مناسب نہیں ہے۔ مساجد میں سے بھی جو مقام اور شان مسجد الحرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس کو حاصل ہے، وہ کسی دوسری مسجد کو حاصل نہیں ہے۔ اِسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے وقت کو 12 مہینوں میں تقسیم کیا اور اِن میں سے 4 مہینوں کو کائنات کی تخلیق کے دِن ہی سے حرمت والے مہینے قرار دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 36 میں ارشاد فرماتے ہیں ''بیشک شمار مہینوں کا اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں‘ اللہ کی کتاب میں‘ جس دن اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمینوں کو‘ اُن میں سے چار (مہینے) حرمت والے ہیں‘‘۔
حرمت والے مہینے رجب، ذیقعد، ذوالحج اور محرم الحرام ہیں۔ اِن مہینوں میں کی جانے والی عبادات اور نیکی کے کام کا اجر و ثواب بھی دیگر مہینوں کے مقابلے میں زیادہ ہے جبکہ اِن مہینوں میں کیے جانے والے گناہوں کا وبال بھی دیگر مہینوں میں کی جانے والی نافرمانیوں اور گناہوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ محرم الحرا م اِس اعتبار سے حرمت والے مہینوں میں سے ممتاز حیثیت کا حامل ہے کہ اِس مہینے میں رکھے جانے والے روزوں کا اجر و ثواب رمضان المبارک کے علاوہ باقی تمام سال کے روزوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
محرم الحرام کا مہینہ کئی عظیم شخصیات کی یادوں کو بھی تازہ کرتا ہے جن میں سرفہرست حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے ابلاغ کے لیے بھرپور انداز سے جدوجہدکی۔ آپ علیہ السلام نے اپنے عہد میں فرعون کی سرداری، ہامان کے منصب، قارون کے سرمائے اور سامری کے فتنے کی پروا کیے بغیر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحیدکا ابلاغ پوری استقامت کے ساتھ کیا۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور نصرت کے ساتھ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام فرعون کے پاس اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کا پیغام لے کرگئے تو اُس نے غرور اور تکبر کا مظاہرہ کیا؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آلِ فرعون پر مختلف طرح کے عذابوں کو مسلط کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 133 میں ارشاد فرماتے ہیں ''چنانچہ ہم نے بھیجا اُن پر طوفان اور ٹڈی دَل اور جوئیں اور مینڈک اور خون (جو) نشانیاں تھیں الگ الگ‘ پھر (بھی) انہوں نے تکبر کیا اور تھے وہ مجرم لوگ‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذابوں کو آتا دیکھ کر فرعون وقتی طور پر رجوع کے راستے کو اختیار کرتا لیکن جب اللہ تبارک وتعالیٰ کا عذاب ٹل جاتا تو دوبارہ بغاوت اور سرکشی پر آمادہ و تیار ہو جاتا۔ سورۃ الاعراف ہی کی آیات 134 اور 135 میں اِس حقیقت کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے ''(فرعون و آلِ فرعون) کہتے: اے موسیٰ! دعا کر ہمارے لیے اپنے رب سے، اس واسطے سے جو اُس نے عہد کر رکھا ہے تیرے ہاں! البتہ اگر تو دور کر دے ہم سے (یہ) عذاب (تو) یقینا ہم ضرور ایمان لے آئیں گے آپ پر اور یقینا ضرور ہم بھیجیں گے تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو۔ پھر جب ہم دور کر دیتے اُن سے عذاب کو ایک وقت تک (کہ) وہ پہنچنے والے ہوتے اُس کو (تو) اچانک وہ عہد توڑ دیتے‘‘۔
فرعون کے گھمنڈ اور سرکشی کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُس کو ساتھیوں سمیت غرقِ آب کردیا۔ جس دن بنی اسرائیل کے لوگ فرعون کے ظلم سے آزاد ہوئے‘ وہ 10محرم الحرام کا دن تھا۔ مدینہ طیبہ تشریف آوری کے موقع پر نبی کریمﷺ نے یہود کو دسویں محرم کا روزہ رکھتے دیکھا تو آپﷺ نے اہلِ ایمان کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کی تلقین کی۔ اِس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ''رسول اللہﷺ جس وقت مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورا کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور فرمایا: یہ کیسا روزہ ہے، تو انہوں نے کہا: یہ نیک دن ہے، اس دن میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی تھی اور اس دن موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر تو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ میرا تم سے زیادہ تعلق ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن کا روزہ خود بھی رکھا اور دوسروں کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی۔ نبی کریمﷺ نے عاشورے کے روزے کو ایک برس کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا۔ اِس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح مسلم میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریمﷺ سے یوم عاشورا (محرم کی دس تاریخ) کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا: میں اللہ عزوجل سے امید رکھتا ہوں کہ وہ یوم عاشورا کے روزے کو اس سے پہلے کے سال (ماضی) کے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یوم عاشور کے حوالے سے عرض کی کہ اس دن کی عیسائی اور یہودی تعظیم کرتے ہیں تو اہلِ اسلام کو اس حوالے سے کیا طرزِ عمل اختیارکرنا چاہیے؟ اس حوالے سے حدیث شریف میں آتا ہے:
صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں: جب نبی مکرمﷺ نے یوم عاشورا کا روزہ خود بھی رکھا اوردوسروں کو بھی اس کا حکم دیا تو صحابہ کرام کہنے لگے: یہودی اورعیسائی تو اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تو رسول اکرمﷺ نے فرمایا: آئندہ برس ہم ان شاء اللہ نو محرم کا (بھی) روزہ رکھیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آئندہ برس آنے سے قبل ہی رسول اکرمﷺ کا وصال ہو گیا۔
آئندہ برس نبی کریمﷺ حیات نہ رہے جس کی وجہ سے آپﷺ کے مقصود کے حوالے سے علمائے اسلام کے درمیان اختلاف ہوا۔ بعض علما نے یہ تصور کیا کہ نبی کریمﷺ نے دس کے ساتھ نو تاریخ کے روزے کو رکھنے کا عزم فرمایا تھا جبکہ بعض علما کا یہ مؤقف تھا کہ نبی کریمﷺ نے نو تاریخ کے روزے کو مشروع قرار دے کر دسویں کے روزے کو منسوخ کر دیا تھا۔ علمائے امت کی بڑی تعداد نو اور دس کے روزے کو ملانے کی قائل رہی جبکہ علما کی نمایاں تعداد دوسرے موقف کی بھی قائل رہی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ساتھ یہ مہینہ ہمیں حضرت فاروق اعظمؓ کی بھی یاد دِلاتا ہے کہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے وقف کیے رکھی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے پیغام کا ابلاغ پوری زندگی شدومد سے کرتے رہے۔ آپؓ نبی کریمﷺ کے قریبی ترین رفقاء میں شامل تھے اور آپؓ کی صاحبزادی سیدہ حفصہؓ کو ام المومنین ہونے کاشرف بھی حاصل ہوا۔ نبی کریمﷺ کی رحلت تک آپؓ ہر موقع پر حضر ت رسول اللہﷺ کے فرمان مبارک پر عمل پیرا ہونے کے لیے مستعد رہے۔ حضرت رسول اللہﷺ کی رحلت کے بعد آپؓ سیدنا صدیق اکبرؓ کے مشیرِ خاص کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتے رہے اور بعد ازاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپؓ کو خلافت بھی عطا فرما دی۔ آپؓ کے عہد مبارک میں رومیوں اور ایرانیوں کی قوت پارہ پارہ ہوئی۔
حضر ت فاروق اعظمؓ نے عدل و انصاف کے وہ اصول قائم کیے جو رہتی دنیا تک کے لیے ایک یادگار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؓ کی خلافت کے آخری ایام میں مجوسی غلام فیروز ابولولو نے 27 ذی الحجہ کو فجر کی نماز کے دوران آپؓ پر ایک قاتلانہ حملے کیا۔ آپؓ ان زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور مؤرخین کی بڑی تعداد کے مطابق: آپؓ یکم محرم الحرام کو اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ حضرت فاروق اعظمؓ کی زندگی اہلِ اسلام کے لیے ایک یادگار کی حیثیت رکھتی ہے اور محرم الحرام آپؓ کی عظیم شخصیت کی یاد کو زندہ و تابندہ کر دیتا ہے۔
حضرت فاروق اعظمؓ کے ساتھ ساتھ یہ مہینہ سیدنا حسینؓ کی یاد بھی دلاتا ہے۔ سیدنا حسینؓ نبی کریمﷺ کے محبوب نواسے ہیں اور آپﷺ نے سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ کو نوجوانانِ جنت کا سردار قرار دیا۔ آپﷺ سیدنا حسینؓ کے ساتھ والہانہ محبت کیا کرتے تھے اور سیدنا حسنؓ و حسینؓ کئی مرتبہ حالتِ نماز میں آپؓ کی کمر مبارک پر چڑھ جاتے تو نبی کریمﷺ اپنے سجدے کو طول دے دیتے تاکہ پیارے نواسوں کی دلجوئی ہو سکے۔ سیدنا حسینؓ کی تربیت سیدنا علی المرتضیٰؓ اور سیدہ فاطمہؓ جیسے عظیم والدین کی زیر نگرانی ہوئی۔ للہیت اور زہد و تقویٰ جیسے تمام اوصاف آپؓ کی شخصیت کا اہم حصہ تھے۔ آپؓ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور قربت کے حصول کے لیے زندگی کے آخری ایام تک مسلسل کوشاں رہے‘ یہاں تک کہ آپؓ اس دنیائے فانی سے اس انداز میں رخصت ہوئے کہ آپؓ نے شہادت کی خلعت فاخرہ کو زیب تن کیا ہوا تھا۔ سیدنا حسینؓ کی شہادت کی کسک آج بھی ہر مسلمان کے دل میں پیوست ہے اور ہر مسلمان سیدنا حسینؓ کی عقیدت، محبت اور احترام کو اپنے دل میں اترتا ہوا محسوس کرتا ہے۔
محرم الحرام کے ایام ان عظیم شخصیات کی یاد دِلاتے ہیں اور ان کے نام لیوائوں کو اس بات کی دعوتِ فکر بھی دیتے ہیں کہ ہم ان عظیم شخصیات سے اپنی نسبت کو جوڑنے والے ہیں تو کیا ہمارا طرزِعمل بھی ان کے کردار و عمل سے مطابقت رکھتا ہے؟ اگر ہم ان کے نقش قدم پہ حقیقی معنوں میں چلنے والے ہیں تو پھر ہمیں ان کے نام لیوا ہونے پر یقیناً اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے لیکن اگر ہمارا طرزِ عمل اُن کے کردار و عمل سے مطابقت نہیں رکھتا تو ہمیں اپنے رویوں پہ نظرثانی کرنی چاہیے اور اپنے ممدوحین اور ان عظیم ہستیوں کے نقوشِ قدم پر چلنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ان عظیم ہستیوں کے نقشِ قدم پہ چلنے کی توفیق دے، آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved