تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     26-09-2013

ملتان سے خواجہ فرید کی روہی تک

ستمبر کی ہلکی گرمی میں سفر کا آغاز ہوا۔ سفر کے راستے لاہور کے پر رونق، سہولیات سے مزین شہر کی کشادہ سڑکوں سے شروع ہوئے اور جنوبی پنجاب کی پسماندہ بستیوں تک پھیل گئے جہاں سڑکیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ شہر بس نام کے تھے، سہولیات یا تو نہ ہونے کے برابر یا پھر معیار غیر تسلی بخش تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی پنجاب کے مختلف شہروں کے درمیان موازنہ ہونے لگا۔ خان پور، لیاقت پور، احمد پور شرقیہ، صادق آباد، فیروزہ، ظاہر پیر چھوٹے چھوٹے شہر اور قصبے ہیں۔ غربت‘ پسماندگی اور ناخواندگی کی شرح زیادہ ہے، مگر انہی چھوٹے شہروں سے پڑھ لکھ کر ذہین‘ قابل اور باصلاحیت افراد زندگی کے ہر شعبے میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہاں سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے برس ہا برس سے حکومتی ایوانوں میں موجود ہیں مگر ان شہروں کی صورت حال میں خاطرخواہ تبدیلی نہیں ہوئی۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی دور کرنے کے نام پر ووٹ تو لیے جاتے رہے مگر ان ووٹوں کا قرض ادا نہ ہوا۔ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا ایشو بھی ان لیڈروں کے لیے اہمیت کا حامل ہے جن کی مدھم پڑتی سیاسی زندگی کو پھر سے سیاست کی لائم لائٹ میں لانے کا شوق ہے۔ ورنہ عوامی مسائل کا درد ہوتا تو صوبے کا شوشا چھوڑے بغیر بھی شہروں کی حالت بہتر ہوسکتی تھی۔ مگر بات وہی کہ… ؎ ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا ورنہ جو دکھ ہمیں تھے بہت لادوا نہ تھے ملتان نے بہرحال بہت ترقی کی ہے، سڑکوں اور شاپنگ سنٹرز، گارمنٹس کے برانڈز اور مشہور فوڈ چین کی عالیشان دکانوں کے حوالے سے دیکھیں تو ملتان کو جنوبی پنجاب میں وہی حیثیت حاصل ہے جو میلان شہر کو اٹلی میں ہے۔ فیشن، ثقافت، ادب اور کاروبار کا مرکز خانیوال اور مظفر گڑھ سمیت قریبی شہروں کے باذوق افراد خریداری کے لیے ملتان ہی کا رخ کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے شہروں کے درمیان ملتان ایک بااثر اور دولت مند وڈیرے جیسا ہے اور اس کے اردگرد پسماندہ شہر اس وڈیرے کے مزارع جیسے ہیں۔ یہ تمام شہر میٹھی زبان سرائیکی بولنے والے کشادہ دل باسیوں کے ہیں جہاں جا کر کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا بلکہ یہ ایسے میزبان ہیں جو اپنے مہمانوں کا دامن محبتوں سے بھر دیتے ہیں۔ ملتان سے بہاولپور، خان پور اور رحیم یار خان کا سفر شروع ہوا تو یادوں کی گلیاں خود بخود راستہ دینے لگیں۔ والد صاحب کی پوسٹنگ کے سلسلہ میں ایک عرصہ تک خان پور اور رحیم یار خان میں مقیم رہے۔ میرا پہلا سکول، کالج، بچپن کے دوست سبھی یہاں ہیں۔ زندگی کے بارے میں خوب صورت خواب، دنیا کو بدل دینے کے خواب، سبھی اسی شہر میں دیکھے۔ یہاں کی چولستانی گرم ہوائوں میں بھی ایک رومانس ہے۔ صحرائے چولستان کے وسط میں سرسبز نگینے کی طرح آباد اسلامیہ یونیورسٹی کا بغداد کیمپس‘ انگریزی ادب کی کلاسیں، کیٹس کی نظموں اور فیض کے مصرعوں کی سی نرماہٹ زندگی میں موجود تھی۔ تاریخی، ثقافتی اور ادبی حوالوں سے دیکھیں تو جنوبی پنجاب کی زمین بڑی زرخیز ہے۔ ملتان کو تو اولیا کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ سائوتھ ایشیاء کا سب سے قدیم شہر ہے۔ قدم قدم پر تاریخی ورثے ہیں۔ یہ بہائوالدین زکریاؒ، شاہ رکن عالمؒ، حضرت شمسؒ تبریز کی دھرتی ہے اور چولستان تو ہے ہی خواجہ غلام فریدؒ کی روہی۔ خان پور سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر مٹھن کوٹ میں اس دھرتی کے عظیم صوفی شاعر کا مزار ہے۔ یہاں کے ان پڑھ دیہاتیوں کو بھی خواجہ غلام فریدؒ کے کلام کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور یاد ہے۔ غلام فریدؒ لوگوں کے دلوں میں بستا ہے۔ بڑی دکانوں سے لے کر چائے کے کھوکھوں تک میں خواجہ غلام فریدؒ کے عقید مندوں نے ، ان کی فریم کی ہوئی تصویر دیوار پر ضرور سجا رکھی ہے۔ روہی ان کی شاعری میں ایک اہم اور پُرمعنی استعارہ ہے۔ روہی کی ریتلی لہروں میں خواجہ فریدؒ کو کبھی مجازی محبوب کا عکس دکھائی دیتا ہے اور کبھی روہی کا ایک ایک زرہ محبوب حقیقی کے تصور میں ڈھل جاتا ہے۔ پٹھانے خان نے خواجہ غلام فریدؒ کی شاعری کو اپنی آواز کا جادو دے کر امر کردیا ہے۔ کون ہوگا جو خواجہ فریدؒ کی اس کافی سے آشنا نہ ہو: میڈا عشق وی توں‘ میڈا یار وی توں میڈا دین وی توں‘ ایمان وی توں میڈا قلب وی توں‘ جند جان وی توں میڈا ذکر وی توں‘ میڈا فکر وی توں میڈا ذوق وی توں‘ وجدان وی توں خواجہ غلام فریدؒ کی یہ طویل کافی بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا ہر مصرع قاری کے گرد ایک فضا بناتا چلا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ خواجہ غلام فرید ؒکے عقیدت مندوں میں ہندو، عیسائی اور کھتری بھی ہوا کرتے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کا بھی آپ کی مجلس میں شامل ہونا اب شاید حیرت کا باعث ہو، مگر حقیقت یہی ہے کہ ہماری دھرتی کے صوفیاء نے ہمیشہ انسان سے پیار کیا اور اپنے اخلاق‘ اپنے میٹھی زبان سے ہر مذہب کے لوگوں کے لیے امن اور سلامتی کا پیغام دیا۔ یہی اسلام کا پیغام ہے۔ آج مسجدوں سے لے کر گرجا گھروں تک موت کا بازار گرم ہے۔ پشاور چرچ میں ہونے والے بھیانک سانحے نے دل دکھی کر دیا ہے کہ پاکستان جو اسلام کے ماننے والوں کی دھرتی ہے، جو صوفیا کرام کی سرزمین ہے، حضرت داتا گنج بخشؒ، حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ، خواجہ غلام فریدؒ، شاہ بھٹائیؒ،شہباز قلندرؒ کی دھرتی ہے، وہاں محبت امن اور سکون کو روز موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ وہاں روز انسانیت دم توڑتی ہے۔ وہاں ننھے بچے اور پھول جیسی بچیاں درندوں کے ہاتھوں میں کچلی جاتی ہیں اور وحشت کا کھیل ختم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ خدا ہمارے حال پر رحم کرے۔ خدا کرے کے اہل اختیار اس حوالے سے اہم فیصلے کرسکیں۔ تاکہ خواجہ فریدؒ کی روہی سے اٹھنے والی امن کی آواز جہاں بھر میں پھیل جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved