سوشل میڈیا پر کسی دل جلے نے لکھا: بجلی تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پچاس روپے فی یونٹ والی بجلی کی پرواز سے لوگ جلتے نہیں بلکہ مرتے ہیں۔ بجلی کے قیمت میں ہوشربا اضافہ مرے پہ سو درے کے مترادف ہے۔ ایک طرف لوڈشیڈنگ کا عذاب ہے کہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے اور اب ناقابلِ برداشت قیمت۔ آپ اگر ملک کے پوش علا قوں میں رہتے ہیں تو ہرگز یہ نہ سمجھئے کہ باقی ملک میں پانچ سے دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی۔ قصبوں‘ دیہات اور چھوٹی تحصیلوں یا شہروں کے نواحی علاقوں میں جا کر دیکھ لیں۔ ہر روز بارہ‘ بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ شاید غریبوں کی قسمت میں مستقل طور پر لکھ دی گئی ہے۔ بجلی کے لیے ایسے ایسے معاہدے کیے گئے کہ پوری قوم کو مقروض بنا دیا مگر پھر بھی عوام بجلی سے محروم ہیں۔ آخر یہ بجلی کدھر گئی ہے؟ اسے استعمال کیوں نہیں کیا جا رہا؟
نومبر 1989ء میں بجلی کی پیداوار 2313 میگاواٹ تک تھی‘ پھر یہ مسلسل بڑھتی رہی اور پچیس ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی۔ ایک انگریزی جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق2018ء ملک میں بجلی کی مجموعی پیداواری گنجائش 23 ہزار 677 میگاواٹ جبکہ مجموعی طلب 26 ہزار 471 میگاواٹ تھی۔ مسلم لیگ نواز کے پچھلے دور کے اختتام پر ملک میں 2 ہزار 975 میگاواٹ بجلی کی قلت تھی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 2018ء میں جب اقتدار نگران حکومت کے سپرد کیا گیا تو چند دن بعد ہی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے موجودہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ اب ان کی حکومت ختم ہو گئی ہے‘ لہٰذا اب اگر لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو اس کے ذمہ دار وہ نہیں ہوں گے۔ تب بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے عارضی طور پر پاور پروڈیوسرز سے مہنگے معاہدے کیے گئے تھے جس سے بظاہر لوڈشیڈنگ ختم ہو گئی تھی مگر الیکشن کے بعد دوبارہ لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی؛ تاہم 2022ء کے اختتام پر ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 27 ہزار 748 میگاواٹ تھی جبکہ انتہائی طلب 24 ہزار 564 میگاواٹ۔ اس طرح ملک میں 3 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی طلب سے زیادہ ہے۔ اس لیے جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جب ہم آئے تو ہم نے لوڈ شیڈنگ ختم کی‘ ملک سے اندھیرے ختم کیے‘ تو حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت‘ جسے نااہل قرار دیا جاتا ہے‘ جب ختم ہوئی تو اس وقت فی یونٹ قیمت سولہ روپے مقرر تھی لیکن جیسے ہی تجربہ کاروں کی حکومت آتی ہے‘ جو بجلی کو پانچ سے سات روپے فی یونٹ تک لے جانے کا دعویٰ کرتے تھے‘ وہ محض سوا سال میں بجلی کی قیمت فی یونٹ چالیس سے پچاس روپے تک پہنچا دیتے ہیں۔ اگر اس تیز رفتار بڑھوتری کو ہی ترقی کہا جاتا ہے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ رجیم چینج کے بعد سے آٹے‘ چینی‘ گھی ادویات اور اب بجلی کی بلند پرواز قیمتوں نے ہر جانب ترقی کا جال بچھا دیا ہے۔
گزشتہ ماہ جب بجلی کا ستاون ہزار روپے کا بل موصول ہوا تو پہلے تو اسے دیکھنے کے بعد آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا، پھر ہاتھ‘ پائوں کانپنے لگے کہ یہ بل کس طرح ادا کروں گا۔ کچھ دیر بعد حواس بحال ہوئے تو یہ سوچ کر دل سے حکومت اور اربابِ اختیار کے لیے دعائے خیر نکلنے لگی کہ اگر ہمارے ان محسنوں نے‘ جنہیں ہم طویل لوڈ شیڈنگ پر خواہ مخواہ کوستے رہتے ہیں‘ ہمارے گھروں کو چوبیس گھنٹے لگاتار بجلی مہیا کی ہوتی تو ہم جیسے سفید پوش ڈیڑھ‘ دو لاکھ روپے کا بجلی کا بل کہاں سے ادا کر پاتے؟ ماہِ جون کے بھیجے گئے بجلی کے بھاری بلوں کے تازیانے پر ہی ہر فرد چیخ و پکار کر رہا تھا‘ لوگ خود کشیاں کر رہے تھے کہ قوم کو اب ایک مرتبہ پھر سے خوش خبری سنا دی گئی ہے کہ بجلی کے نرخوں میں 4.90 روپے فی یونٹ مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ایک چینل کی خبر کے مطابق رواں ماہ جب پچھلے ماہ کے بقایا جات کے ساتھ بل وصول ہو گا اور بجلی کی فی یونٹ قیمت پچاس روپے سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ 16 جولائی کو ''روزنامہ دنیا‘‘ کے پہلے صفحے پر شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق ''ماہانہ 100یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کا بل تقریباً 500 روپے تک بڑھے گا۔ 100 یونٹ کے استعمال پر اب 1836 روپے تک بل آئے گا۔ 200 یونٹ کے استعمال پر ایک ہزار روپے تک اضافہ ہو گا اور نیا بل 4700 روپے تک ہو گا۔ 300 یونٹ کے استعمال پر بل میں 2 ہزار روپے تک اضافہ ہوگا اور 8 ہزار روپے تک بل ہوگا۔ (واضح رہے کہ بھارت میں دہلی اور پنجاب میں 300 یونٹ تک بجلی ہر صارف کو مفت فراہم کی جاتی ہے) 400 یونٹ کے استعمال پر بل میں 2300 روپے تک اضافہ ہوگا اور نیا بل 12 ہزار 300 روپے تک ہوگا۔ 500 یونٹ کے استعمال پر بل میں 3 ہزار روپے تک اضافہ ہو گا اور نیا بل 16 ہزار روپے تک ہو گا۔ 700 یونٹ بجلی استعمال کرنے پر بل میں 4 ہزار روپے تک اضافہ ہو گا اور نیا بل28 ہزار روپے تک ہو گا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ٹیکس، سرچارجز، کیپسٹی پیمنٹ اور ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ بل میں الگ سے شامل ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ جو اضافے کا موازنہ ہے‘ یہ موجودہ سرکار کی پچھلی قیمتوں سے ہی ہے۔ اگر پی ٹی آئی کی ''نااہل حکومت‘‘ سے موازنہ کریں تو پندرہ ماہ میں بجلی کی قیمت میں تین گنا تک اضافہ ہو چکا ہے۔ نظرِ بد دور‘ کہاں نااہل حکومت‘ جس کے دور میں بجلی کا یونٹ سولہ روپے تک تھا اور کہاں یہ قابل اور تجربہ کار‘ جن کے سوا سال میں بجلی پچاس روپے فی یونٹ پہ پہنچ گئی۔ اس قدر پیار بھرا تحفہ اور کیا ہو گا۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایت پر بجلی کے یہ بل ہر تین ماہ بعد اسی طرح بڑھائے جائیں گے جس طرح آج سے بیس سال پہلے ہمارے ایک ''شیر صفت حکمران‘‘ نے بڑھائے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ یکم اپریل 1991ء کی ایک دوپہر تھی جب یکایک بجلی کی قیمتوں میں 12 فیصد اضافہ کیا گیا، چند ماہ بعد جنوری 1992ء میں دوبارہ 50۔2 فیصد اضافہ کیا گیا، پھر اگلے ہی ماہ فروری میں دوبارہ 2.50 فیصد اضافہ ہوا۔ اپریل92 ء میں دوبارہ 2.50 فیصد اضافہ ہوا۔ ستمبر میں 16 فیصد اور مارچ 93ء میں پھر 2.50 فیصد اضافہ۔ یعنی اپریل 92ء سے مارچ 93ء تک محض ایک سال کے عرصے میں بجلی کی قیمت میں پچاس فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا تھا۔ پھر حکومت تو تبدیل ہو گئی مگر پالیسی یکساں رہی۔ نئی حکومت نے بھی ''میثاقِ جمہوریت کے اتحادیوں‘‘ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نومبر 94ء میں 24.3 فیصد اور جولائی95ء میں 21.5 فیصد اضافہ کیا۔ اگر بجلی کے نرخوں میں اضافے کے چارٹ پر ایک نظر ڈالیں تو قوم کے سبھی غم خواروں کے چہرے سامنے آ جاتے ہیں۔
1993-94ء میں واپڈا نے ایک رپورٹ تیار کی تھی جسے منظرِ عام پر نہیں آنے دیا گیا۔ اس کے مطابق اُس سال 42 ارب 4 کروڑ 50 لاکھ یونٹ بجلی پیدا کی گئی اور 32 ارب 13کروڑ 10 لاکھ یونٹس فروخت ہوئے۔ محض ایک سال میں 9 ارب91 کروڑ 40 لاکھ یونٹ بجلی چوری ہوئی۔ فروری 23ء میں قائمہ کمیٹی برائے توانائی میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں جو بجلی چوری کی گئی‘ اس کی قیمت 380 ارب روپے بنتی ہے‘ 200 ارب کی بجلی کنڈوں اور 180 ارب کی میٹروں سے چوری ہوئی۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ 2.5 فیصد تک لائن لاسز کی سرکاری طور پر ویسے ہی رعایت ہے، بجلی چوری اس کے علاوہ ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بڑھتے نرخوں کے سبب آئندہ سال 520 ارب سے زائد کی بجلی چوری کا خدشہ ہے۔ ابھی تین سال پہلے خیبر سے لے کراچی تک پیداواری یونٹس، ملیں اور کارخانے تین تین شفٹوں میں کام کر رہے تھے‘ لوڈ شیڈنگ بھی برائے نام تھی۔ کووڈ جیسی وبا نے دنیا بھر کی معیشت کوتہس نہس کر کے رکھ دیا تھا لیکن نااہل حکومت اس کے باوجود بجلی کے بل پر ہر صارف کوسبسڈی دیتی رہی۔ آج بجلی پچاس روپے فی یونٹ تک جا پہنچی ہے جبکہ شدید گرمی میں گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کا عذاب اس کے علاوہ ہے۔ اس میں قصوروار کون ہے؟اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا لوڈشیڈنگ کی وجہ بجلی کی کمی ہے یا جان بوجھ کر بجلی کے لیے تڑپایا جا رہا ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved