جماعت سازی کا کھیل جاری ہے۔ سنا ہے اب پرویز خٹک صاحب بھی نئی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں۔ کیا ان جیسا تجربہ کار سیاست دان یہ نہیں جانتا کہ سیاسی جماعت کیا ہوتی ہے؟
ہمارا سیاسی کلچر بھی عجیب ہے۔ ایک طرف یہ دعویٰ کہ سیاسی شعور گھر گھر پھیل چکا۔ دوسری طرف سیاسی شعور سے دوری کا یہ عالم کہ وہی فرسودہ ہتھکنڈے اور وہی آزمودہ حربے جو سیاست کو یرغما ل بنانے کے لیے برسوں سے جاری ہیں۔ یا تو یہ دعویٰ مشکوک ہے یا سیاسی جماعتیں بنوانے والوں کو اس شعور کے پھیلنے کی خبر نہیں مل سکی؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ کل جو سیاسی شعور پھیلانے کے دعوے دارتھے‘ آج وہی نئی سیاسی جماعت بھی بنا رہے ہیں۔ جو کل کیا جا رہا تھا‘ یا تو وہ ایک ڈرامہ تھا یا جو آج کیا جا رہا ہے یہ ایک کھیل ہے؟
سیاسی جماعت کا قیام کھیل تماشا نہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ نئی جماعت کی ضرورت کیا ہے؟ کیا آپ کسی نئے سیاسی نظریے کے علم بردار ہیں‘ سیاست میں جس کی نمائندگی نہیں ہے؟ کیا سیاست میں کوئی ایسا خلا ہے جسے آپ پُر کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کے گرد چاہنے والوں کا اتنا بڑا ہجوم جمع ہو چکا جو آپ کو مسیحا سمجھتا اور یہ چاہتا ہے کہ آپ قوم کی راہ نمائی فرمائیں؟ آخر کوئی وجہ تو ہونی چاہیے‘ ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی۔ مجھے اس سے بحث نہیں کہ وہ وجہ درست ہے یا غلط‘ ہر کام کی بہرحال کوئی وجہ ہوتی ہے۔
1980ء کی دہائی میں ایم کیو ایم قائم ہوئی۔ جس وجہ سے بنی‘ وہ غلط تھی لیکن وجہ تو تھی۔ مہاجر برادری کو یہ خیال ہوا کہ سیاست میں ان کی نمائندگی نہیں ہو رہی۔ سندھ کی شہری آبادی قیادت سے محروم اور استحصال کا شکار ہے۔ اس نعرے کو مقبولیت ملی اور مہاجر عصبیت نے ایک سیاسی جماعت کو جنم دیا۔ آج تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ اس عصبیت کو کس نے متحرک کیا؟ اس کا مقصد فی الواقع مہاجروں کو حقوق دلانا تھا یا کچھ اور؟ یہ تجزیہ ہوتا رہے گا لیکن بظاہر ایم کیو ایم نے سندھ کی سیاست میں موجود ایک خلا کو پُر کر دیا۔
تحریک انصاف کے قیام کے لیے بھی ایک جواز پیش کیا گیا جسے قبولیت ملی۔ روایتی سیاست کے خلاف ہر معاشرے میں ایک طبقہ موجود رہا ہے۔ اہلِ سیاست سے لوگ کبھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوتے۔ یہ عدم اطمینان انہیں اس پر ابھارتا رہتا ہے کہ ان کی نمائندگی کے لیے کوئی سیاسی جماعت ہونی چاہیے۔ روایتی سیاست پر ایک بڑا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ یہ سٹیٹس کو کو مضبوط کرتی ہے ا ور روایتی سیاست دان ایک مفاداتی گروہ کی نمائندگی کرتا ہے جسے عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ روایتی سیاست عام طور پر دو جماعتوں کے گرد گھومتی ہے‘ اس لیے ایک تیسری قوت کا نعرہ کم و بیش ہر معاشرے میں بلند ہوتا رہتا ہے۔
پاکستان میں بھی یہ نعرہ ہمیشہ سنائی دیتا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اسی نعرے پر بنی تھی۔ مذہبی جماعتیں بھی یہی کہہ کر لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی آئی ہیں۔ یادش بخیر تحریکِ استقلال بھی تیسری قوت بن کر سامنے آئی تھی۔ اصغر خان‘ ایک وقت آیا کہ اپنے عہد کے سب سے مقبول سیاست دان دکھائی دینے لگے۔ طاہر القادری صاحب کو بھی یہی 'خلا‘ سیاست کی وادیٔ پُرخار میں لایا تھا۔ تحریکِ انصاف بھی اسی بنیاد پر قائم ہوئی۔ کہنا یہ ہے کہ تیسری قوت کی ضرورت معاشرے میں محسوس کی جاتی رہی ہے جو ایک سیاسی جماعت کے قیام کو جواز فراہم کر سکتی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ تیسری قوت ہمیشہ ایک سراب ثابت ہوئی۔ سیاست میں کامیابی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے زمینی حقائق سے مطابقت پیدا کرنا۔ جیسے ہی ایک سیاسی جماعت یہ مطابقت پیدا کرتی ہے‘ وہ روایت کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس پر اقتدار کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ اب وہ عرفِ عام میں تیسری قوت نہیں رہتی۔ سیاسی نابالغ طویل عرصہ سراب کو دریا سمجھتے رہتے ہیں۔ سیاست کے ماہرین کو مگر پہلے ہی دن سے اس انجام کی خبر ہوتی ہے۔ وہ اگر اس قافلے کے ہم سفر بنتے ہیں تو یہ جان کر کہ تیسری قوت نے ایک دن انہی کے ہاتھوں میں دم توڑنا ہے۔ ان لوگوں میں پرویز خٹک صاحب جیسے لوگ سرِ فہرست ہیں۔
پرویز خٹک جانتے ہیں کہ سیاسی جماعت کیا ہوتی ہے۔ وہ اس ملک میں ان لوگوں میں سے ہیں جو روایتی سیاست کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ تحریکِ انصاف ایک روایتی سیاسی جماعت بنے گی اور معاملات کو فطری طور پر ان کے ہاتھ ہی میں آنا ہے۔ وہی ایک دن کے پی کے وزیراعلیٰ بنیں گے۔ تحریکِ انصاف کے بارے میں ان کا تجزیہ درست تھا مگر عمران خان صاحب کو سمجھنے میں ان کو غلطی لگی۔ ان کو ندازہ نہ ہو سکا کہ خان صاحب کی نرگسیت کس سطح کی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اس سسٹم میں طاقت کا منبع وزیراعظم کے بعد وزیراعلیٰ ہوتا ہے۔ انہوں نے پنجاب اور کے پی میں یہ منصب اپنے پاس رکھنا تھا۔ اس کے لیے لازم تھا کہ عثمان بزدار اور محمود خان جیسا کوئی آدمی ہی اس منصب پر بٹھایا جائے۔ یوں خٹک صاحب کسمساتے رہ گئے اور وزارتِ اعلیٰ ان کے ہاتھ نہ آ سکی۔ انہوں نے یہ کب سوچا ہوگا کہ یہ نرگسیت خان صاحب کو اپنے ہی محسنوں سے متصادم کرا دے گی۔
آج ان کے پاس دو راستے ہیں۔ سیاسی جماعت کے نام پر اپنے سیاسی اثرات کو مجتمع کریں اور مسلم لیگ جیسی کسی بڑی سیاسی جماعت سے اقتدار میں حصہ وصول کریں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو جائیں۔ مسلم لیگ کے لیے مگر یہ مشکل ہوگی کہ اپنی جماعت یا پھر جمعیت علمائے اسلام کو نظر انداز کرکے وزارتِ اعلیٰ ان کی جھولی میں ڈال دے۔ خٹک صاحب کا خیال ہوگا کہ طاقت کا ترازوکچھ ایسے بگڑ سکتا ہے کہ توازن ان کے وزن سے قائم ہو اور وہ (ن) لیگ کی مجبوری بن جائیں جس طرح پرویز الٰہی تحریکِ انصاف کی مجبوری بنے تھے۔ پلڑے کا غیرفیصلہ کن انداز میں لہرانا ہی اس نظام کے اصل خالقوں کے مفاد میں ہے اور خٹک صاحب سے بڑ ھ کرکون ہے جو ان کا مزاج شناس ہو گا۔
پاکستان میں کچھ نہیں بدلا۔ سب سیاسی پہلے جیسے ہیں اور انقلابی بھی۔ ریاست بھی اور عوام بھی۔ سیاسی شعور کے نام پر جس ہیجان کو فروغ دیا گیا‘ اس کی کوکھ سے نئی سیاسی جماعتیں جنم لے رہی ہیں۔ کل ہیجان نے اسی روایتی سیاست سے جنم لیا تھا۔ ماضی میں جو لوگوں کو روایتی سیاسی جماعتوں کے بینر تلے جمع کرتے تھے‘ انہوں نے غیرروایتی سیاست کے عنوان سے انہی کو ایک نئے فورم پر جمع کر دیا۔ اب وہ پھر روایتی سیاست کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
سیاست آج بھی روایتی سیاست دانوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ سیاست کو ہمیشہ اسی طرح رہنا ہے۔ کلٹ کیلئے سیاست میں مستقل جگہ نہیں ہوتی۔ جنہوں نے کلٹ بنایا تھا‘ وہ حسبِ روایت اب اس کی شکست و ریخت کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ کل 'تعمیر‘ کا عمل کسی اخلاقی ضابطے کا پابند تھا نہ آج 'تخریب‘ کا۔ اس پر مستزاد عالم قوتوں کی دلچسپیاں ہیں کہ ہم گلوبل ویلیج میں زندہ ہیں۔
یہ جہانگیر ترین ہوں یا پرویز خٹک‘ سب اقتدار کی سیاست کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ملک کو کسی نئی سیاسی جماعت کی ضرورت نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved