بلوچستان کا پاکستان میں الحاق کب اور کیسے ہوا‘ بلوچستان کو صوبے کا درجہ کب دیا گیا‘ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کا بلوچستان کی سیاست میں کیا کردار تھا‘ خان آف قلات کے بھائی آغا عبدالکریم کو بلوچ مزاحمت کاروں کا پیش رو کیوں کہا جاتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب جانے بغیر بلوچستان میں موجود شدت پسندوں‘ علیحدگی پسندوں اور مزاحمت کاروں کے مؤقف کو سمجھنا آسان نہیں۔ بلوچستان کا معاملہ محض چین پاکستان اقتصادی راہداری تک محدود نہیں ہے بلکہ کچھ عناصر کو آزادی کے وقت ہی بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق ناگوار گزرا تھا‘ تاہم جب ریاست قلات کا الحاق پاکستان میں ہونے لگا تو مخالف قوتیں کھل کر سامنے آ گئیں یہاں تک کہ خان آف قلات کے بھائی آغا عبدالکریم نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ وہ ریاست قلات کے پاکستان میں الحاق کے شدید مخالف تھے مگر ان کی مزاحمتی مہم شکست سے دوچار ہوئی اور وہ افغانستان جا بسے کیونکہ اس وقت افغانستان پاکستان مخالف قوتوں کی بھرپور حمایت کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوامِ متحدہ میں شمولیت پر مخالف کی تھی۔
1957ء میں ملک کی قد آور شخصیات سیاسی پلیٹ فارم کی چھتری تلے جمع ہونا شروع ہوئیں تو ڈھاکہ میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مولانا عبدالحمید بھاشانی اس پارٹی کے بانی تھے جبکہ انہیں خان عبدالغفار خان‘ خان عبدالولی خان‘ غوث بخش بزنجو‘ عبدالصمد خان اچکزئی‘ میاں محمود علی قصوری‘ جی ایم سید اور میاں افتخار الدین جیسی قدآور شخصیات کی حمایت حاصل تھی مگر اس سیاسی سیٹ اَپ کے ایک سال بعد یعنی 1958ء میں ایوب خان کے دور میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ 1967ء میں خان عبدالولی خان نے اختلافات کے باعث اپنا الگ نظریاتی گروپ بنا لیا۔ 1970 میں پاکستان کے پہلے انتخابات ہوئے تو نیشنل عوامی پارٹی کو بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد کے صوبائی انتخابات میں اکثریت حاصل ہوئی۔ یہ پارٹی صوبائی خود مختاری اور آزاد پختونستان کی حامی تھی۔ انتخابات میں اکثریت کے باوجود جب صدر یحییٰ خان نے عوامی نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے بنگالیوں کے خلاف ایکشن لیا تو نیشنل عوامی پارٹی پر بھی پابندی لگا دی۔ یوں معاملات عوامی نمائندوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد 1970ء میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا جس میں بلوچ ریاستیں قلات‘ مکران‘ لسبیلہ اور خاران بھی شامل تھیں۔ اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر حیات شیر پاؤ کا قتل اور نیشنل عوامی پارٹی کے درجنوں قائدین کی حیدر آباد سازش کیس میں گرفتاری و سزاؤں کے بعد حالات میں تلخی پیدا ہو گئی کیونکہ یہ لوگ اس وقت صفِ اول کے سیاسی لیڈر تھے۔ لاکھوں لوگ ان کے فالورز تھے اور بلوچستان میں اس پارٹی کے گہرے اثرات تھے۔ بلوچ اعلیٰ قیادت جیلوں میں چلی گئی تو پیچھے رہ جانے والے نوجوانوں نے اسلحہ اٹھا لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد 1977ء میں جنرل ضیاء الحق دوسری انتہا پر کھڑے تھے۔ نتیجتاً آزاد بلوچستان کی تحریک دوبارہ اٹھنا شروع ہو گئی۔ 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا سانحہ پیش آیا مگر بعد کے سیاسی حالات شاہد ہیں کہ پشتونوں اور بلوچ قیادت کا شیرازہ بکھر گیا۔ ایک پارٹی سے کئی پارٹیاں وجود میں آ گئیں۔ بلوچوں اور پشتونوں کی علیحدہ علیحدہ نمائندہ جماعتیں بن گئیں۔ بلوچ علیحدگی پسندوں اور مزاحمت کی اگرچہ طویل تاریخ ہے‘ تاہم اکبر بگٹی کے خلاف کارروائیوں کے بعد اس میں شدت آئی تھی۔ پرویز مشرف کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت قائم ہوئی تو بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کی سنجیدہ کوشش کی گئی اور انہیں شریکِ اقتدار کیا گیا لیکن شاید ان میں احساسِ محرومی کا تاثر بہت گہرا تھا جسے ختم نہ کیا جا سکا۔ اس تاریخی پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ماضی میں پشتونوں اور بلوچوں کا مضبوط سیاسی گٹھ جوڑ رہا ہے۔ اب بھی پشتون اکثریتی علاقوں میں پشتون نمائندہ سیاسی جماعتیں برتری حاصل کرتی ہیں‘ تاہم بلوچ اور پشتون مزاحمت کاروں کا گٹھ جوڑ پہلی بار دیکھنے کو ملا ہے۔ مبینہ طور پر افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ٹی ٹی پی کے حوالے سے تحریک انصاف کی سابق حکومت اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے جو پالیسی اپنائی تھی‘ یہ اسی کا کیا دھرا ہے۔
پاکستان طالبان اور افغان طالبان‘ اچھے طالبان اور برے طالبان دراصل ہمارے اعلیٰ دماغوں کی اختراعات ہیں۔ طالبان نے مگر کبھی اپنے آپ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں سمجھا اور مُلا عمر کو ہی اپنا امیر مانتے تھے اور اب بھی افغان عبوری حکومت کے امیر کو ہی سب اپنا امیر مانتے ہیں۔ ہم تنظیمی اعتبار سے نہیں بلکہ نظریاتی ہم آہنگی کی حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ پاکستان حکومت کا تاہم افغان حکومت سے گلہ کسی صورت درست نہیں کیونکہ افغانستان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو اس وقت کے وزیراعظم اعلانیہ واپس لائے تھے۔ یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ یہ بے چارے اپنے خاندانوں سے دور اور در بدر ہیں‘ اس لیے ان چالیس پچاس ہزار لوگوں کو واپس لا رہے ہیں۔ سرکاری طور پہ مانے جانے والے پچاس ہزار کی اصل تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے۔ اب یہ لوگ ملک کے ہر حصے میں ہیں اور ان کے ساتھ شروع میں ایک معاہدہ بھی ہوا تھا جسے وہ توڑ چکے ہیں اور یہ اطلاعات بھی ہیں کہ نو مئی کو کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو اور افغان طالبان اپنے حامی کے ساتھ کھڑے تھے۔
افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں جب بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں‘ ہم اس کا الزام افغانستان پر لگاتے ہیں اور کسی حد تک سمجھ لیتے ہیں کہ افغان طالبان شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ان توقعات کی وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستان نے ہر مشکل گھڑی میں افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان نے افغانستان سے امریکی انخلا میں مذاکرات کی کامیابی تک سہولت کاری فراہم کی اور جب انخلا مکمل ہو گیا تو افغانستان کو مالی مشکلات سے بچانے کیلئے ہر ممکن تعاون کیا۔ پاکستان کی میزبانی میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس کا واحد ایجنڈا افغانستان کے ساتھ تعاون تھا۔ اس بنا پر ہم توقع رکھتے ہیں کہ افغان حکومت ان عناصر کی سرکوبی کیلئے کوشش کرے گی جو وہاں رہ کرپاکستان میں انتشار پھیلانے کیلئے کوشاں ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے پڑوسیوں سے متعلق بیان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے جس میں انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ افغانستان ہمسائے کے حقوق ادا کر رہا ہے نہ دوحہ معاہدے کی پاسداری۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مگر اس کے جواب میں کہا کہ دوحہ معاہدہ امریکہ سے ہوا تھا اور یہ کہ پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف ثبوت فراہم کرے۔ طالبان کے ترجمان کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے افغان حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں سے لاعلم ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے‘ یہ تجاہلِ عارفانہ ہے کیونکہ طالبان کی طرف سے ژوب چھاؤنی میں خود کش دھماکے کے حملہ آور حجت اللہ ریحان کی افغانستان کے علاقے میدان وردک میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور نمازِ جنازہ کی وڈیو بھی جاری کی گئی۔ کیا افغان طالبان ان سارے معاملات سے لاعلم تھے؟ ہرگز نہیں‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی اقدام اٹھانا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہمیں چاہیے کہ افغان طالبان سے توقع لگانے کے بجائے اس گٹھ جوڑ کو توڑیں جو بلوچستان میں تشکیل پا چکا ہے اور ریاست کی رِٹ کو چیلنج کر رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved