بھارتی پنجاب میں آج کل جدھر نظر اٹھا کر دیکھیں‘ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سیلابی پانی انسانوں اور جانوروں کو نگل رہا ہے۔ مشرقی پنجاب کے عوام بالخصوص خواتین اور بچے بھوک اور پیاس سے بلکتے ہوئے‘ اپنے گھروں اور چوباروں کی چھتوں پر ہر وقت آسمان کی جانب یہ آس لگائے دیکھتے رہتے ہیں کہ شاید ابھی مودی سرکار کا کوئی ہیلی کاپٹر یا جہاز نمودار ہو اور ان کی چھت پر پانی اور روٹی کا کوئی تھیلا پھینک دے۔ لیکن ابھی تک انہیں مقامی سطح کے علاوہ کہیں سے بھی کوئی مدد نہیں مل رہی۔ دوسری جانب سکھ تارکین وطن نے اپنے لاوارث بھائیوں اور بہنوں کی مدد کیلئے ڈالرز کی بھرمار کر دی ہے۔ گوردواروں کے سیوک تیز لہروں سے لڑتے ہوئے ٹریکٹرز اور ٹرالیاں لے کر کچے‘ پکے دیہات اور سیلابی علاقوں میں گھر گھر کھانے پینے کی اشیا اور وبائی امراض کی ادویات پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ بھارتی پنجاب کے پندرہ اضلاع اس وقت سیلابی پانی کی زد میں ہیں اور ہر جانب پھنکارتی لہروں کی آوازیں لاکھوں شہریوں کو محصور بنائے ہوئے ہیں۔ سکھ تارکین وطن سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ ہونے والی وڈیوز میں اپنے دیس پنجاب میں فصلیں‘ گھر بار‘ گلیاں‘ چوبارے‘ بازار اور پلازے پانی میں ڈوبے ہوئے دیکھ کر تڑپ رہے ہیں۔ ان کا غصہ اُس وقت دوچند ہو گیا جب انہیں پتا چلا کہ مودی سرکار نے ہنگامی صورتحال کے پیشِ نظر اور پنجاب کو تباہی سے بچانے کے لیے اندرا گاندھی اور نروانہ نہریں کھولنے سے انکار کر دیا۔ گودی میڈیا اور آر ایس ایس ٹولے نے پنجاب کو جان بوجھ کر سیلاب میں ڈبونے کے حوالے سے یہ مفروضہ گھڑا کہ اگر پنجاب کے اس سیلابی ریلے کو اندرا گاندھی نہر میں چھوڑا جاتا تو راجستھان کی نہریں سیلابی پانی کی مٹی اورسلٹ سے بھر جاتیں۔
اس حوالے سے کوئی دو آرا نہیں کہ پنجاب کی ساٹھ فیصد سکھ آبادی ہندوتوا کی آنکھ میں کانٹوں کی طرح کھٹکتی ہے اور جب سے عالمی سطح پر بھارت کو خالصتان تحریک کے سبب ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ سارا غصہ مشرقی پنجاب کے سکھوں پر نکل رہا ہے۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو بھارت چاند اور مریخ تک پہنچنے کی کوششیں کر رہا ہے‘ اسے گلوبل وارمنگ یا شدید بارشوں کی خبر نہیں تھی؟ کیا اسے علم نہیں تھا کہ ہماچل پردیش اور پنجاب میں شدید بارشیں شروع ہونے والی ہیں؟ کیا مودی سرکار‘ جو امریکہ کا سٹرٹیجک پارٹنر ہونے پر اچھلتی جا رہی ہے‘ نہروں کی صفائی اور دیگر انتظامات وقت سے قبل مکمل نہیں کر سکتی تھی؟ صرف پنجاب ہی نہیں‘ دہلی میں سیلاب کے لیے عام آدمی پارٹی (عاپ) نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہتھنی کنڈ سے اتر پردیش اور ہریانہ کی طرف پانی چھوڑا گیا ہوتا تو بھارتی دارالحکومت میں سیلاب کی صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے سومناتھ بھارتی نے الزام لگایا کہ ہریانہ کے ہتھنی کنڈ بیراج سے دریائے جمنا کے ذریعے سارا پانی دہلی میں چھوڑا جا رہا ہے۔ اگر ہتھنی کنڈ سے اتر پردیش اور ہریانہ کی طرف بھی پانی چھوڑا جاتا تو دہلی میں سیلاب کی صورتحال پیدا نہ ہوتی، لیکن جان بوجھ کر صرف دریائے جمنا میں پانی چھوڑا گیا، حالانکہ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے وزیر داخلہ کو خط لکھ کر جمنا میں کم پانی چھوڑنے کی درخواست بھی کی تھی لیکن ان کی درخواست کو نظر انداز کر دیا گیا اور دہلی میں سیلاب کی وجہ صرف یہ ہے کہ دہلی کے لوگ بار بار کجریوال کو منتخب کرتے ہیں۔
امریکہ و کینیڈا میں مقیم بھارتی تارکین وطن سمیت تمام حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا مشرقی پنجاب اتنا ہی لاوارث اور تنہا ہو چکا ہے کہ کسی کو اس کی پروا ہی نہیں؟ اس سیلاب کی ہولناک تباہ کاریوں سے بھارتی پنجاب کے سکھ یہ جان چکے ہیں کہ آر ایس ایس ان سے بھی دیگر اقلیتوں کی طرح ہی بغض اور نفرت رکھتی ہے۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ راجستھان سرکار مرکزی حکومت کو یہ کہنے کی جرأت کرتی کہ وہ نہروں کو گندگی سے بچانے کیلئے انہیں بند رکھے گی اور اگر پنجاب ڈوبتا ہے تو ڈوب جائے۔ بھارت کے ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم نے بھی اس پالیسی پر اعتراض اٹھایا ہے کہ راجستھان کی نہروں کو بچانا اور پنجاب کو ڈبو دینا دفاعی لحاظ سے بھی ایک غلط پالیسی ہے کیونکہ چین و پاکستان‘ ہر دو ممالک سے بھارت کے شمال مغربی سرحدوں پر کشیدگی ہے۔ اگر بھارت میں جنگ چھڑ جاتی تو کیا اس صورت میں بھی نہریں اسی طرح بند رکھی جاتیں؟ سیلاب سے محفوظ بنانے کیلئے وہاں کی سرکار کے تعمیر کردہ بند اس قدر عارضی‘ کچے اور کمزور نکلے کہ جیسے ہی مون سون شروع ہوا تو موسلا دھاربارشوں‘ ہماچل پردیش سے آنے والے پانی اور دریائے راوی، بیاس اور ستلج میں پانی کے تیز بہائو سے تمام حفاظتی بند ایک ایک کر کے ریت کی دیواروں کی طرح بکھرنا شروع ہو گئے۔ گودی میڈیا پر تو وہی کچھ بتایا جا رہا ہے جو مودی سرکار چاہتی ہے مگر وہ شاید یہ بھول گئے کہ اس وقت سوشل میڈیا کی طاقت ان سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی پنجاب کا ہرکسان اب سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھانے لگا ہے کہ راجستھان کی اندرا گاندھی نہر میں اگر ہریکے بیراج سے پانی چھوڑ دیا جاتا تو اس سے کسی کا کیا بگڑنا تھا۔ جب مشرقی پنجاب کے ہر گھر سے راجستھان نہر کھولنے کی دہائیاں اٹھ رہی تھیں تو مودی سرکار کا بیان آیا کہ راجستھان اور ہریانہ سرکاروں نے نروانہ اور اندرا گاندھی نہریں اس لیے بند کرا دی ہیں کہ سیلابی سلٹ اور گار کی وجہ سے ان کا نہری نظام خراب ہو جانا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مون سون شروع ہونے سے چند روز پہلے ہی بھاکڑہ بیاس مینجمنٹ بورڈ کے اجلاس میں مشرقی پنجاب کی جانب سے یہ مطالبہ رکھا گیا کہ اگر پنجا ب کے متوقع سیلاب کا 31 ہزارکیوسک پانی نہری نظام میں لے لیا جائے تو پنجاب بڑی تباہی سے بچ جائے گا لیکن راجستھان سرکار نے نجانے کس کے اشارے پر ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ بھارتی پنجاب جب چھتوں تک پانی میں ڈوبا ہوا تھا‘ ایسے وقت میں راجستھان سرکار نے بھاکڑہ ڈیم سے بیس ہزار کیوسک پانی پنجاب میں چھوڑ دیا۔ آج کپور تھلہ،ترن تارن، فیروزپور، جالندھر، روپ نگر، موگا، لدھیانہ، فتح گڑھ، صاحبزادہ اجیت سنگھ نگر، سنگرور اور پٹیالہ کی تباہی کا اندازہ اس سے کیجئے کہ لوگوں کے بڑے بڑے اور عالیشان گھر چھتوں تک پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لاکھوں متاثرین نے اس وقت اپنے گھروں کی چھتوں پر پناہ لی ہوئی ہے اور اب تک سوائے چند سکھ رفاہی تنظیموں کے‘ مودی سرکار کی جانب سے کسی نے اپنی شکل دکھانے کی تکلیف بھی گوارا نہیں کی۔
یہ تباہی اپنی جگہ‘ مشرقی پنجاب کی بدقسمتی دیکھئے کہ ہماچل پردیش میں سیلاب جو تباہ کاری مچا چکا ہے‘ اس پانی کا رخ بھی یہ کہہ کر پنجاب کی جانب موڑا جا رہا ہے کہ یہ سیلاب پنجاب کے راستے پاکستان میں پھینک دیا جائے گا۔ یہاں پاکستان کی بھارتی پنجاب کیلئے دی جانے والی بے مثال قربانی یقینا مدتوں یاد رکھی جائے گی کہ مشرقی پنجاب کو مکمل ڈوبنے سے بچانے کیلئے پاکستان نے ہیڈ سلیمانکی بیراج کے تمام دروازے کھول کر وہ قربانی دی جس کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو انڈین پنجاب کا مالوہ تباہی سے دوچار ہو جاتا۔ ادھر دہلی یہ گلہ کر رہا ہے کہ جب جمنا بیراج کے تمام پانچ گیٹ وے کھولنے کی ہدایت کی گئی تو بعض گیٹس زنگ کی وجہ سے جام ہو گئے۔ ان کی بروقت مرمت نہیں کرائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے سکھ سوشل میڈیا پر یہ سوال کر رہے ہیں کہ مودی ٹولہ 596 بلین ڈالر کے فارن ریزروز پر بھنگڑے ڈالنے کے بجائے اگر سیلابی پانی گزر جانے کے بعد چند کروڑ یا چند ارب روپوں سے اندرا گاندھی نہر کی صفائی کرا دیتا اور بیراج وغیرہ کے گیٹس مرمت کرا دیتا تو کیا بھارت کا خزانہ ختم ہو جانا تھا؟
بھارت کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے انکشاف کیا ہے کہ ہماچل پردیش میں 118 میں سے تقریباً 70 ہائیڈرو پروجیکٹس لینڈ سلائیڈنگ زون میں ہیں۔ جب یہ پروجیکٹس لگائے جا رہے تھے تو ماحولیات کے ماہرین اور متاثرہ آبادی نے ان کی سخت مخالفت کی تھی لیکن اس وقت سرکار نے اسے نظر انداز کر دیا لیکن اب یہ سارے پروجیکٹس سیلاب میں ڈوبے ہوئے یا لینڈ سلائیڈنگ میں دبے ہوئے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved