1972 میں ریلیز ہونے والی بالی وُڈ مووی ''امر پریم‘‘ کیلئے کشور کمار کے گائے ہوئے گیت کا مکھڑا ہے : ''کچھ تو لوگ کہیں گے، لوگوں کا کام ہے کہنا‘‘۔ بالکل درست! لوگوں کا کام کہنا ہی ہے مگر لوگوں میں تو ہم آپ بھی شامل ہیں۔ ہم معاشرے سے ہٹ کر‘ کٹ کر تو واقع نہیں ہوئے۔ جو کچھ بھی یہاں ہو رہا ہے ہم بھی اُس کا حصہ ہیں۔ کوئی ہمارے بارے میں رائے دیتا ہے اور ہم کسی کے بارے میں رائے دیتے ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ لوگ کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہیں گے۔ ہمیں طے کرنا ہے کہ لوگوں کے کہے کے مطابق جینا ہے یا اپنی مرضی کے مطابق۔ لوگ بہت سے معاملات میں اپنی رائے اِس طور دیتے ہیں گویا حرفِ آخر بیان کر رہے ہوں۔ آپ بھی تو کبھی کبھی کوئی رائے اِس طور دیتے ہوں گے گویا فیصلہ صادر فرمارہے ہوں۔
کیا رائے دینا بُری بات ہے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں بھی ہوسکتا ہے اور نفی میں بھی! کسی بھی معاملے میں دی جانے والی رائے بہت سے عوامل کو ذہن نشین رکھتے ہوئے دینا ہوتی ہے۔ اگر سوچے سمجھے بغیر کوئی رائے دی جائے تو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کسی کتاب پر تبصرہ کرنے کا حق اُسے ہے جس نے وہ کتاب اچھی طرح پڑھی ہو، مندرجات کے اہم نکات پر غور کیا ہو، کتاب کے مجموعی تاثر کے بارے میں جانتا ہو، لوگوں کے ردِعمل سے بھی واقف ہو اور کتاب کے مثبت اثرات کا دم بھرنے والوں کی رائے سے بھی آگاہ ہو۔ اگر کسی کتاب کو پڑھے بغیر سرسری نوعیت کی رائے دی جائے گی تو لوگ ایک نظر ڈال کر اندازہ لگالیں گے کہ اُنہیں بے وقوف بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ کسی ایسے تبصرے کا بھی ہے جس میں سوچے سمجھے بغیر فیصلہ کن انداز سے رائے دی گئی ہو۔ اُسی تبصرے کو کامیاب مانا جاتا ہے جو معاملے کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد کیا جاتا ہے۔
آپ کے بارے میں سب سے زیادہ اگر کوئی جانتا ہے تو وہ خود آپ ہیں۔ جب آپ کے بارے میں آپ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تو پھر فیصلہ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہونا چاہیے؟ آپ کے پاس۔ کیا یہ اختیار کسی اور دیا جاسکتا ہے؟ چند مخصوص حالات میں ایسا ہوسکتا ہے مگر تب بھی یہ کوئی پسندیدہ امر نہیں۔ حق یہ ہے کہ کسی بھی انسان کو اپنے تمام فیصلے خود کرنے چاہئیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ کے حالات سے یکسر ناواقف ہوتے ہوئے بھی کوئی اپنی رائے یا تبصرے کے ذریعے آپ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے اور آپ اُسے ایسا کرنے دیں؟ ایسا ہوتا ہے۔ جن میں بھرپور اعتماد کی واضح کمی ہوتی ہے وہ اپنے تمام فیصلے خود کرنے سے کتراتے رہتے ہیں۔ اُن کی نظر میں دوسروں کی رائے کی خاصی وقعت ہوتی ہے‘ خواہ وہ منفی ہی ہو! لوگوں کی عمومی رائے منفی تاثر کی حامل ہوتی ہے۔ منفی سوچنا آسان ہے۔ اِس کے لیے کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ مثبت سوچ محنت طلب مرحلہ ہے کیونکہ کسی مسئلے کا حل تلاش کرنے کی سوچ مشکل سے پنپتی ہے۔ انسان کے لیے ناکامی کے بارے میں سوچنا بہت آسان ہے کیونکہ اِس کے لیے امکانات کی تلاش میں نہیں نکلنا پڑتا۔ کامیابی کے لیے سوچنا بہت دشوار ہے کیونکہ امکانات تلاش کرنا پڑتے ہیں، اپنی لیاقت اور لگن کو ذہن نشین رکھتے ہوئے لائحۂ عمل ترتیب دینا پڑتا ہے۔ اس کام سے لوگ بھاگتے ہیں۔
دوسروں کی رائے آسانی سے قبول کرنے کی ذہنیت انسان کو رفتہ رفتہ کام کرنے کی بھرپور لگن سے محروم کرتی چلی جاتی ہے۔ جب انسان اپنے بارے میں دوسروں کی رائے کو زیادہ وقعت دیتا ہے تب اپنی سوچ میں کمی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں مورال کا گرنا لازمی امر ہے۔ جب مورال گرتا ہے تو انسان زیادہ محنت کرنے سے کتراتا اور گھبراتا ہے۔ ایسی حالت میں زندگی اپنی طے شدہ اور معقول ڈگر سے ہٹ کر ناکامی کی طرف بڑھتی جاتی ہے۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کو یہ بات پسند ہے کہ آپ کی زندگی دوسروں کی آرا کی روشنی میں گزرے؟ کیا دوسروں کی آرا کے سانچے میں اپنی زندگی کو ڈھالنا، اُن کی طے کردہ ترجیحات کے مطابق جینا کسی بھی درجے میں بہترین طرزِ فکر و عمل ہے؟ اہلِ دانش کی رائے یہ ہے کہ انسان کو بیسیوں لوگوں کی آرا سننی چاہئیں مگر کرنا وہی چاہیے جس پر اپنا دل ٹُھکتا ہو۔
کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ کسی کی رائے آپ پر اس حد تک اثر انداز ہو کہ آپ میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی متاثر ہونے لگے؟ یا آپ یہ چاہیں گے کہ آپ کی زندگی کے اہم ترین فیصلے دوسروں کی آرا کی روشنی میں ہوں؟ یقینا نہیں۔ آپ بھلا کیوں یہ بات پسند کریں گے کہ کوئی آپ پر اِس طور اثر انداز ہو کہ اپنی زندگی پر آپ کا اختیار برائے نام بچے یا اُتنا بھی نہ رہے؟ اب ذرا اپنے حالات کا جائزہ لیجیے۔ کیا آپ کے بہت سے معاملات دوسروں کی آرا کے شکنجے میں کَسے ہوئے نہیں؟ بیشتر کا یہ حال ہے کہ دوسروں کی رائے جانے اور مانے بغیر سکون کا سانس نہیں لیتے۔ اہم تری معاملات میں بھی وہ یہ دیکھنے کے منتظر رہتے ہیں کہ دوسرے کیا کہتے ہیں۔ کسی کے بیان کردہ تاثر کو قبول کرنے کی ایک حد ہوتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ گھوڑے پر بیٹھے ہوئے اچھے نہیں لگیں گے تو پھر آپ کبھی گھڑ سوار دستے کے رکن نہیں بن سکیں گے!
ہم میں سے بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں دوسروں کی رائے کے ذریعے اپنے آپ کو جانچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دوسروں کی رائے کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ موافق بھی اور ناموافق بھی۔ دوسرے جو کچھ بھی کہیں گے اپنے رجحان اور سیاق و سباق کی حدود میں رہتے ہوئے کہیں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی آپ کے بارے میں کوئی ناموافق رائے دے بیٹھے جبکہ اُس کی ایسا کرنے کی نیت بالکل نہ ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کبھی کوئی آپ کے لیے بالکل موافق رائے دے جبکہ اُس کا بھی ایسا کرنے کا ارادہ نہ ہو! ہم عمومی سطح پر اپنے آپ کو دوسروں کی رائے کے آئینے میں دیکھتے رہتے ہیں۔ دوسروں کی بات بھی سننی چاہیے مگر اِس طور نہیں کہ اپنی آواز دب کر رہ جائے۔ ہمیں اپنے بارے میں جو کچھ بھی سوچنا ہے اپنے حالات و واقعات اور سیاق و سباق کی حدود میں رہتے ہوئے سوچنا ہے۔
1999 میں ریلیز ہونے والی بالی وُڈ کی ایک مشہور مووی ''ٹین تِھنگز آئی ہیٹ اباؤٹ یو‘‘ (10 Things I Hate About You) کا بہت خوبصورت جملہ ہے ''کبھی کسی کو اس بات کا موقع مت دیجیے کہ آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کرے کہ آپ جو کچھ چاہتے ہیں اُس کے مستحق نہیں‘‘۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟ دولت، شہرت، راحت؟ سبھی کچھ! جو کچھ آپ چاہتے ہیں اُس کے بارے میں شرحِ صدر ناگزیر ہے یعنی آپ کا دل مطمئن ہونا چاہیے۔ اگر آپ اپنی کسی خواہش کے حوالے سے احساسِ جرم کے حامل ہوں تو اُس کی تکمیل کبھی نہیں کرسکتے۔ بہت سوں کا معاملہ یہ ہے کہ جب بھی کسی کے بارے میں کوئی رائے دیتے ہیں تو کوشش یہ ہوتی ہے کہ اُس کے ذہن کو الجھادیں، اُسے کامیابی کی راہ پر بڑھنے سے روک دیں۔ کبھی کبھی یہ کوشش لاشعور یا تحت الشعور کی سطح پر بھی ہوتی ہے۔ دوسروں کے بارے میں منفی رائے دینے والوں کو خود بھی یہ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور جو کچھ کہہ رہے ہیں اُس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ آپ جو کچھ چاہتے ہیں اُس کے بارے میں شرحِ صدر ناگزیر ہے یعنی آپ کے دل اور ذہن میں کہیں کوئی اٹکاؤ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کو اپنی خواہشات کا تعین سوچ سمجھ کر کرنا ہے تاکہ بعد میں ذہن کسی بھی حوالے سے نہ الجھے۔ جب ایک بار مکمل اخلاصِ نیت اور دیانت سے خواہشات طے کرلیں تو پھر کسی کی رائے کی کوئی وقعت نہیں۔ کسی سے مشاورت کرنے میں کچھ حرج نہیں مگر ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی مشاورت کی آڑ میں آپ کو بدگمان کرنے لگے، آپ کے اعتماد کو متزلزل کرنے پر تُل جائے۔ ایسے میں بہتر یہ ہے کہ اپنی خواہشات اور ترجیحات کے مطابق کام کرتے رہیے، ڈٹے رہیے اور دوسروں کی کسی بھی رائے کی زیادہ پروا مت کیجیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved