خبروں کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے آٹھ اگست کو قومی اسمبلی کی تحلیل پر اتفاق کر لیا ہے۔ قومی اسمبلی کی آئینی مدت 12اگست رات 12بجے تک ہے‘ اگر آٹھ اگست کو اسمبلی تحلیل نہیں ہوتی تو اس صورت میں اسمبلی 12اگست کو رات 12بجے از خود تحلیل تصور ہوگی۔ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں بھی اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے بعد اگست کے وسط میں تحلیل ہونے جا رہی ہیں۔ اس کے بعد مرکز اور ان دونوں صوبوں میں نگران سیٹ اَپ حکومتی اختیار سنبھال لے گا اور ان اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے نگران حکومتیں مرکز اور صوبوں میں ایک ساتھ انتخابات کروائیں گی۔ انتخابات کی تاریخ اور شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کرے گا۔ ابھی تک الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں کوئی اعلان نہیں کیا مگر سیاسی پارٹیوں کو اپنے اپنے انتخابی نشانات الاٹ کروانے کے لیے درخواستیں دائر کروانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت نے جب وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اقتدار سنبھالا تھا تو سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین کی طرف سے شہباز شریف کی حکومت پر فوری انتخابات کیلئے سخت دباؤ تھا۔ اس کیلئے سابق وزیراعظم نے ملک گیر جلسے کیے‘ دو دفعہ اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اور جنوری 2023ء میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل بھی کر دیا‘ مگر فوری مِڈٹرم انتخابات کا مقصد حاصل نہ کر سکے۔ اس کے مقابلے میں حکومت نے اس عزم کا اعلان کیا کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اورآئندہ انتخابات وقت پر ہوں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے جو کہا تھا‘ کر دکھایا ہے۔ اس طرح بروقت انتخابات کا انعقاد ان کی پندرہ‘ سولہ ماہ کی حکومت کی ایک کامیابی ہے‘ اگرچہ اس عرصے کے دوران عوام کو کمر توڑ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا‘ معیشت کا پہیہ تقریباً رُکا رہا‘ زرِمبادلہ کے محفوظ ذخائر خطرناک حد تک نیچے چلے گئے‘ برآمدات میں کمی ہوئی اور ترسیلاتِ زر میں تقریباً ایک تہائی کمی واقع ہوئی۔ عوام کو آسمان سے باتیں کرتی اشیائے خورونوش کی قیمتوں اور دوسری طرف بڑی تعداد میں فیکٹریاں اور کارخانے بند ہونے سے بے روزگاری کا سامنا ہے۔ سب سے تشویشناک بات آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر تھی۔ اس کی وجہ سے پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ اوپر سے سابق وزیراعظم نے پہلے دن سے حکومت کو فوری انتخابات پر مجبور کرنے اور اس پر آمادہ نہ ہونے کی صورت میں اسے مفلوج کرنے کیلئے مسلسل احتجاج کی پالیسی اپنا رکھی تھی جس سے پیدا ہونے والا عدم استحکام معیشت پر مضر اثرات مرتب کر رہا تھا۔ اس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں بھی بڑی حد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔
گزشتہ پندرہ ‘ سولہ ماہ کے دوران پاکستان کو جن غیرمعمولی حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ ملک کے اندر اور باہر غیرمعمولی حالات کی پیداوار ہیں اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان پر قابو پانے کیلئے شہباز شریف نے بحیثیت وزیراعظم حوصلے اور ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب قومی معیشت کو سہارے کی ضرورت تھی‘ ملک کے دوسرے سب سے بڑے صوبے سندھ اور اس کے ساتھ بلوچستان اور باقی صوبوں کو تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ دیگر عالمی مالیاتی اداروں نے اپنی اپنی رپورٹس میں اس کا برملا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی ایک وجہ 2022ء کا تباہ کن سیلاب ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ملک کو 30ارب ڈالر کا نقصان ہوا‘ مگر اس قدرتی آفت میں حکومت نے جس طرح محنت سے کام کیا وہ قابلِ ستائش ہے۔
شہباز شریف کئی سال تک پنجاب کے چیف منسٹر رہے۔ اس دوران انہوں نے صوبے اور خصوصاً لاہور میں ترقیاتی کام ریکارڈ مدت میں اور خود اپنی نگرانی میں مکمل کروا کر نہ صرف پاکستان میں بلکہ ملک سے باہر بھی ایک مستعد‘ محنتی ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ چینی جو خود ریکارڈ وقت میں ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے میں شہرت رکھتے ہیں‘ شہباز شریف کی ان صلاحیتوں کے قائل ہو گئے۔ پنجاب‘ جو کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا‘ اسے مسلم لیگ (ن) کے گڑھ میں تبدیل کرنے کا سہرا شہباز شریف ہی کے سر جاتا ہے۔ پرانی سڑکوں کو چوڑا کرکے نئی سڑکوں کی تعمیر‘ انڈر پاسز اور میٹرو بس کے بعد اورنج لائن ریلوے سروس متعارف کروا کر شہباز شریف نے لاہور کا نقشہ بدل دیا۔ اس دوران پنجاب سے باہر ملک کے دیگر صوبوں کے معاملات سے آگاہی حاصل کرکے شہباز شریف نے ایک صوبائی رہنما سے ایک قومی رہنما کی ارتقائی منزلیں بھی طے کرنا شروع کر دی تھیں اور کئی اہم قومی ذمہ داریوں کے سلسلے میں انہیں دیگر ممالک کی حکومتوں سے بھی ملاقاتیں کرنے کا موقع ملا جس سے انہیں بین الاقوامی سطح پر کام کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہوا‘ لیکن عوام کو پھر بھی یقین نہیں تھا کہ شہباز شریف وزیراعظم کی حیثیت سے بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔
2018ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی میں شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف چنا گیا۔ اس دور میں شہباز شریف کی اہم کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو متحد رکھا۔ جیلیں‘ نواز شریف اور مریم نواز کی گرفتاری اور دیگر نامساعد حالات ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں اور وہ عمران خان کی انتقامی کارروائیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے۔ اس کے باوجود اکثر لوگوں کو ان کے ایک صوبائی وزیراعلیٰ کی طرح ایک کامیاب وزیراعظم ثابت ہونے پر تحفظات تھے۔ اپریل 2022ء میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں شہباز شریف اس لیے وزیراعظم منتخب ہوئے کیونکہ وہ سابق حکمران جماعت کے بعد قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کے صدر اور قائد حزب اختلاف تھے۔ وزارتِ عظمیٰ کے ابتدائی دنوں میں انہیں جس طرح چیئرمین تحریک انصاف کی تضحیک کا نشانہ بننا پڑا وہ بھی سب کے سامنے ہے‘ لیکن جلد ہی انہوں نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی ایک محنتی رہنما کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو منوالیا۔ اندرون ملک ان کی بڑی کامیابی تیرہ جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحاد کو یکجا رکھنا ہے۔ انہوں نے ٹیم ورک کی ایک مثال قائم کی اور ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ مشکلات پر قابو پانے کا کریڈٹ ٹیم ورک کو جاتا ہے۔
پاکستان جیسے ملک پر حکومت کرنا آسان کام نہیں۔ یہاں ہر ایک کو راضی رکھنا تقریباً ناممکن ہے ‘لیکن وزیراعظم کی حیثیت سے شہباز شریف نے صوبوں کو وفاق سے شکایت کا کم از کم موقع دیا‘ حالانکہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا ان کی مخالف سیاسی جماعت کے زیر کنٹرول تھا۔تاہم میرے نزدیک شہباز شریف کی بڑی کامیابی بین الاقوامی برادری خصوصاً دوست ملکوں میں پاکستان کے وقار اور اعتماد کو بحال کرنا ہے۔ یہ کامیابی بھی انہیں ٹیم ورک کی بدولت حاصل ہوئی۔ اس کے بغیر نہ پاکستان FATFکی گرے لسٹ سے نکل سکتا تھا اور نہ ہی آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہو سکتا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved