ایسی شخصیات جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رعب، دبدبہ اور شخصی وجاہت عطا فرمائی ہو اور لوگ اُن کے طرزِ عمل کو دیکھ کر اپنے لیے راہوں کو متعین کرتے ہوں ہر عہد میں خال خال ہی ہوتے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کا شمار ایسی ہی شخصیات میں ہوتا ہے جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رعب، دبدبہ، ہیبت، قوت، بہادری اور جرأت جیسے اوصاف سے نواز رکھا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ قبولِ اسلام سے قبل بھی اپنے ان اوصاف کی وجہ سے اہلِ عرب کے ہاں ممتاز تھے۔ سیدنا عمر فاروقؓ نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد ابتدائی طور پر اسلام کے بارے میں معاندانہ جذبات رکھتے تھے اور آپ کا خیال تھا کہ اسلام کی دعوت کی وجہ سے اہلِ عرب‘ اہلِ مکہ اور قریش تقسیم ہو جائیں گے۔ اس وقت سیدنا عمر فاروقؓ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ نبی کریمﷺ کی دعاؤں کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ اُن کو اپنے دین کی تائید اور نصرت کے لیے منتخب فرما چکے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کیے کہ وہی عمر‘ جو اسلام کے سخت معاندین میں شمار ہوتے تھے‘ حلقہ بگوش اسلام ہو کر اسلام کے بہت بڑے موید بن گئے۔ سیدنا عمر فاروقؓ کے قبولِ اسلام کی وجہ سے اسلام کو بہت زیادہ تقویت ملی اور وہ مسلمان جو اپنے گھر میں چھپ چھپ کر نمازوں کو ادا کرنے والے تھے‘ اُن کو بیت اللہ میں جا کر نماز ادا کرنے کا موقع میسر آیا۔ حضرت عمر فاروقؓ اسلام قبول کرنے کے بعد پوری قوت اور استقامت کے ساتھ دین کی خدمت کے لیے وقف ہو گئے اور جب بھی آپؓ کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کا کوئی حکم ملتا تو فوراً سے پیشتر اس کو پورا کرنے کے لیے کمربستہ ہو جاتے۔
حضرت عمر فاروقؓ کا قبولِ اسلام کفار کے لیے بہت زیادہ تکلیف کا باعث تھا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عمر فاروقؓ کی مخالفت میں کسی قسم کی کسر نہ اُٹھا رکھی۔ حضرت عمر فاروقؓ لوگوں کی مخالفت سے مرعوب ہوئے بغیر نبی کریمﷺ اور اسلام کے ساتھ پختگی سے وابستہ رہے۔ جب سرزمین مکہ کو اہلِ اسلام کے لیے تنگ کر دیا گیا تو جہاں دیگر مسلمانوں نے سرزمین مکہ کو خیرباد کہہ کے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی‘ حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اسلام کی سربلندی کے لیے اپنے دیس کو خیرباد کہہ دیا۔ مدینہ طیبہ میں آپؓ حضرت رسول اللہﷺ کی ہمراہی میں اسلام کی خدمت میں مصروف و مشغول رہے اور ہر قسم کے نشیب و فراز میں بھرپور طریقے سے اللہ کے دین کی نصرت کے فریضے کو انجام دیتے رہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کو اس بات سے بہت زیادہ دلچسپی تھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُن سے راضی ہو جائیں اور اس کے بعد حضرت رسول اللہﷺ کی محبت اور شفقت اُن کو حاصل ہو جائے۔ اسی جذبے کے تحت آپؓ نبی کریمﷺ کی قربت کے بھی خواہاں رہا کرتے تھے۔ انہی جذبات کی وجہ سے آپؓ کی دختر سیدہ حفصہؓ کو اُم المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حضرت عمر فاروقؓ نبی کریمﷺ کے حکم کی تعمیل کے لیے ہر وقت مستعد رہا کرتے تھے۔ آپؓ نبی کریمﷺ کے چہرۂ مبارک کو دیکھ کر آپﷺ کی منشا اور حکم کو بھانپنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ سے وابستگی اور محبت کی وجہ سے آپؓ نبی کریمﷺ کے قریبی رفقا میں شمار ہوتے تھے اور حضراتِ صحابہ کرامؓ سیدنا صدیق اکبرؓ کے بعد سیدنا عمر فاروقؓ کو انتہائی بلند مقام دیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ ہی سے جب ہمیں صحابہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابوبکرؓ کو قرار دیتے، پھر عمرؓ بن خطاب کو پھر حضرت عثمانؓ بن عفان کو‘‘۔
اسی طرح سیدنا عمرؓ کا شمار اُن دس صحابہ کرام میں بھی ہوتا ہے جن کو نام لے کر نبی کریمﷺ نے جنت کی بشارت دی۔ اس حوالے سے سنن ابوداؤد اور جامع ترمذی میں روایت ہے کہ حضرت سعید بن زیدؓ کہتے ہیں کہ میں نو اشخاص کے سلسلے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ یہ لوگ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں کے سلسلے میں گواہی دوں تو بھی گنہگار نہیں ہوں گا۔ آپ سے کہا گیا: یہ کیسے ہے؟ (ذرا اس کی وضاحت کیجئے) تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حرا پہاڑ پر تھے‘ تو آپﷺ نے فرمایا: ''ٹھہرا رہ اے حرا! تیرے اوپر ایک نبی، یا صدیق، یا شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں‘‘، عرض کیا گیا: وہ کون لوگ ہیں جنہیں آپﷺ نے صدیق یا شہید فرمایا ہے؟ (انہوں نے کہا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد، ابوعبیدہ اور عبدالرحمٰن بن عوف ہیں رضی اللہ عنہم۔ پوچھا گیا: دسویں شخص کون ہیں؟ تو حضرت سعید بن زیدؓ نے کہا: وہ میں ہوں۔
نبی کریمﷺ ایک مرتبہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی ہمراہی میں اُحد پہاڑ کے اوپر سے گزر رہے تھے تو اُحد پہاڑ نے لرزنا شروع کر دیا۔ نبی کریمﷺ نے اپنے قدم مبارک کو پہاڑ پر مارا اور اپنا اور اپنے رفقاء کا تعارف کرایا تو پہاڑ تھم گیا۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ جب نبی کریمﷺ، ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر اُحد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اُٹھا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: احد! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید (کھڑے) ہیں‘‘۔
حضرت عمر فاروقؓ پوری زندگی خدمتِ دین کے لیے وقف رہے اور زندگی کے آخری ایام تک نبی کریمﷺ کی ہمراہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشاں رہے۔ آپؓ کو نبی کریمﷺ سے بڑی والہانہ محبت تھی۔ نبی کریمﷺکے وصالِ پُرملال کی خبر آپؓ کے لیے ناقابلِ برداشت تھی؛ چنانچہ آپؓ نے نبی کریمﷺ کی رحلت پر حبِ نبی سے مغلوب ہو کر وقتی طور پر اس خبر کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ حضرت سیدنا صدیقؓ نے قرآن مجید کی آیات کے ذریعے یہ بات سمجھائی کہ نبی کریمﷺ دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں۔ آپﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سیدنا صدیق اکبرؓ نبی کریمﷺ کے خلیفہ بنے تو سیدنا حضرت عمر فاروقؓ اُن کے مشیرِ خاص کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ سیدنا صدیقؓ کی رحلت کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدنا فاروق اعظمؓ کو خلعت خلافت سے نوازا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں اسلام کی بہت زیادہ خدمت کی اور روم اور ایران کی عالمی قوتوں کو پارہ پارہ کر دیا۔ کسریٰ کے آتش کدے کو بجھا دیا، کلیسا کی ہیبت کو مٹا دیا اور دنیا کے بڑے حصے پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے جھنڈوں کو لہرا دیا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے عد ل، انصاف اور رعایا کی خبرگیری کے حوالے سے ایسا کردار ادا کیا کہ آج مسلمان مؤرخین کے ساتھ ساتھ غیر مسلم مؤرخین بھی آپؓ کے اس طرزِ عمل کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
حضرت عمر فاروقؓ عدل، انصاف، جرأت، بہادری، للہیت اور تقویٰ کے ساتھ نظام حکومت کو چلاتے رہے اور آپؓ کی یہ خواہش تھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو شہادت کا منصب عطا کرے اور آپ مدینہ طیبہ میں مدفون ہوں۔ بظاہر اس خواہش کا پورا ہونا مشکل نظر آ رہا تھا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت عمر فاروقؓ کی دعا کو قبول و منظور فرمایا اور 27 ذوالحج 23ھ کو فجر کی نماز کے دوران ابو لؤلو فیروز نامی ایک مجوسی نے آپؓ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ زخموں کی تاب نہ لا کر‘ مؤرخین کی ایک بڑی تعداد کے مطابق‘ آپؓ یکم محرم الحرام 24ھ کو دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی خواہش تھی کہ اُن کو نبی کریمﷺ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ نے آپؓ کی اس خواہش کو بھی قبول و منظور فرمایا اور آپؓ نبی کریمﷺ کے پہلو میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ قیامت کی صبح تک کے لیے محو استراحت ہو گئے۔
سیدنا عمر فاروقؓ کی سیرت و کردار اہلِ اسلام کے لیے ایک روشن باب ہے اور آج بھی ریاست کے نظم و نسق کو بہترین انداز میں چلانے کے لیے اگر کسی حکمران کو آئیڈل قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ حضرت عمر فاروقؓ کی ذاتِ گرامی ہے۔ انہوں نے کتاب و سنت کی روشنی میں حکومت کرکے اس بات کو واضح کر دیا کہ اسلام کا سیاسی نظام انسانوں کی تشنگی کو دور کرنے کے لیے کافی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی محبت اور عقیدت آپ کے کارہائے نمایاں کی وجہ سے ہر مسلمان کے دل میں سرائیت کر چکی ہے اور آج بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد اپنے گھر پیدا ہونے والے بچوں کا نام حضرت عمرؓ کے نام پر رکھ کر فخر محسوس کرتی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے جن اعلیٰ اقدار اور اصولوں کے تحت زندگی کو گزارا‘ یقینا وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہیں اور تاریخ کے اس روشن حصے سے رہنمائی حاصل کرکے اپنے سماج کی تاریکیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا یقینا اہلِ اسلام کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سیدنا عمر فاروقؓ کی لحد پر ہر لحظہ رحمتوں کا نزول فرمائے اور ہم سب کو حضرت عمر فاروقؓ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved