تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     20-07-2023

مزاحمت یا تصادم؟

مزاحمت پیپلز پارٹی نے کی‘ (ن) لیگ نے کی‘ عوامی لیگ نے کی اور تحریکِ انصاف نے بھی۔ ان مزاحمتوں کے نتائج مگر ایک جیسے نہیں رہے۔
یہ دو طرح کی مزاحمتیں ہیں۔ ان میں نقطۂ نظر کا فرق ہے اور حکمتِ عملی کا بھی۔ درست تر الفاظ میں‘ اصل فرق سیاسی بلوغت اور عدم بلوغت کا ہے۔ میرے تجزیے کی بنیاد وہ معلومات ہیں جو ظاہرو باہر ہیں۔ سیاست مگر وہی نہیں ہے جو دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ واقعات کے پس پردہ بھی ایک دنیا ہوتی ہے۔ یہ قیاس اور استنباط کی دنیا ہے۔ اس لیے میں دانستہ اس دنیا کی خبروں پر پنے تجزیے کی بنیاد نہیں رکھ رہا۔
بھٹو صاحب کی شخصی سیاست اسٹیبلشمنٹ کیساتھ رفاقت سے شروع ہوئی۔ ان کا خمیر مگر عوامی سیاست سے اُٹھا تھا۔ یہ رفاقت اس لیے قائم نہ رہ سکی۔ پیپلز پارٹی بنی تو وہ نظریاتی اور سیاسی اعتبار سے مزاحمت کی علامت تھی۔ بائیں بازو کی سیاست اُس دور میں مزاحمت کی سیاست تھی۔ بھٹو صاحب اسی کے علمبردار تھے‘ وہ مگر یہ بات جانتے تھے کہ مزاحمت کا مطلب‘ مقتدر قوتوں کے ساتھ تصادم نہیں ہوتا۔ تصادم انقلابی جدوجہد کا ایک مرحلہ ہے‘ جمہوری جدو جہد کا نہیں۔ بھٹو صاحب کے خیالات انقلابی تھے مگر سیاست جمہوری تھی۔ انہیں معلوم تھاکہ اس سیاست میں مزاحمت کی حدود کیا ہیں۔ بھٹو صاحب کے ساتھ لیکن ایک مسئلہ تھا۔ وہ فسطائی ذہن رکھتے تھے۔ یہ نرگسیت کا ایک مظہر ہے۔ ان کا یہی طبعی میلان تھا جس نے جنرل ضیاالحق صاحب کیساتھ ایک تصادم کی بنیاد رکھ دی۔بے نظیر بھٹو صاحبہ جس سیاسی ورثے کی امین بنیں‘ وہ نظریاتی بھی تھا اور سیاسی بھی۔ وہ لیکن یہ بات جان چکی تھیں کہ نظریاتی سیاست کا دور ختم ہو چکا۔ کھلی منڈی کی سرمایہ دارانہ معیشت ہی اب دنیا کا مقدر ہے۔ انہوں نے غیر اعلانیہ طور پر اُس نظریاتی سیاست سے دوری اختیار کر لی‘ پیپلز پارٹی کا کارکن جس سے رومانوی وابستگی رکھتا تھا۔ 'سوشلزم ہماری معیشت ہے‘ کا نعرہ اب پارٹی جلسوں میں نہیں لگتا تھا۔ تاہم انہوں نے عام کارکن کو کبھی اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ پارٹی کے نظریاتی ورثے سے دستبردار ہو چکی ہیں۔
بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی سیاست سے ایک بات سیکھی۔ انہوں نے یہ جان لیا کہ پاکستان میں اگر اقتدار کی سیاست کرنی ہے تو تین قوتوں سے کبھی متصادم نہیں ہونا: امریکہ‘ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی اسٹیبلشمنٹ۔ انہوں نے تینوں سے بنا کر رکھی۔ امریکہ انہیں اقتدار کی سیاست میں واپس لایا۔ جنرل اسلم بیگ کو انہوں نے تمغۂ جمہوریت سے نوازا اور اس کے ساتھ‘ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی ضروریات کا پورا خیال رکھا۔ یوں 'عورت کی حکمرانی‘ کے مسئلے نے انہیں کبھی پریشان نہیں کیا۔ اس سیاست کی بنا پر وہ دو دفعہ ملک کی وزیراعظم بنیں۔ بے نظیر بھٹو کاخمیر بھی مگر وہی تھا جو بھٹو صاحب کا تھا۔ ایک وقت آیا کہ وہ خود کو تصادم سے نہ روک سکیں۔ قدرت نے انہیں ایک بار تو بچا لیا لیکن قدرت کے اپنے کچھ اصول ہیں جن سے وہ رُوگردانی نہیں کرتی۔ حالات انہیں لیاقت باغ کے مقتل تک لے آئے۔ نواز شریف صاحب سیاسی تھے اور نہ انقلابی۔ ایک صنعت کار گھرانے سے ان کا تعلق تھا جس کے کاروبار کو بھٹو صاحب کی سیاست کھا گئی جب انہوں نے صنعتوں کو قومیانے کا فیصلہ کیا۔ بھٹوکی مخالفت‘ انہیں طبقاتی ورثے کے طور پر ملی۔ ایک سبب اور بھی تھا۔ پاکستان کے کم و بیش نوے فیصد روایتی مذہبی خاندان‘ بھٹو صاحب کے مخالف تھے۔ یہ سب 'پاکستان قومی اتحاد‘ کے ساتھ تھے۔ 1977ء کی انتخابی مہم میں کاروباری طبقے نے اپنے وسائل کے ساتھ پی این اے کا ساتھ دیا۔ ضیا الحق صاحب نے اقتدار پر قبضہ کیا تو 'اینٹی بھٹو‘ طبقہ ان کا حامی تھا۔ اس میں قومی اتحاد کی جماعتیں شامل تھیں اور کاروباری طبقہ بھی۔
ضیاالحق صاحب کو بھٹو صاحب کے مقابلے میں عوامی تائید کی ضرورت تھی۔ انہوں نے بھٹو مخالف جماعتوں اور طبقات کو جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔ کسی کو مجلس شوریٰ میں لائے اور کسی کو اقتدار میں براہِ راست شریک کیا۔ نواز شریف صاحب کی صورت میں انہیں ایک چہرہ مل گیا جو بھٹو مخالف قوتوں کو جمع کر سکتا اور عوام میں بھی پذیرائی حاصل کر سکتا تھا۔ نواز شریف صاحب نے یہ کر دکھایا۔ پہلے اسلامی جمہوری اتحاد کی مدد کے ساتھ اور پھر ذاتی جد وجہد سے۔ انہوں نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاست کا خاتمہ کر دیا۔ نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ مذہبی جماعتوں کی سیاست بھی اپنے انجام کو پہنچی۔ اعتزاز احسن اور یاسمین راشد صاحبہ جیسے لوگوں کو سیاست سے دیس نکالا مل گیا۔ نواز شریف صاحب سے ان کی شدید دشمنی کا ایک بڑا سبب یہی زخم ہے۔نواز شریف صاحب کی سیاست جب اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی تو انہیں اُن قوتوں کی مزاحمت کا سامنا ہوا جو اقتدار پر قبضہ جمائے ہوئے تھیں۔ اس نے انہیں مزاحمتی سیاست کا راستہ دکھایا۔ وہ ایوانِ اقتدار سے جیل جا پہنچے۔ انہوں نے بھی مزاحمتی سیاست کی مگر انہیں اندازہ تھا کہ مزاحمت اگر تصادم میں بدل جائے تو انجام بھٹو جیسا ہوتا ہے۔ مقتدر قوتوں نے انہیں اقتدار‘ معاشی وسائل‘ سیاسی ساکھ سمیت ہر شے سے محروم کرنا چاہا۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کی طرح‘ مزاحمت کی مگر تصادم سے گریز کیا۔ وہ مزاحمتی سیاست کو مزید آگے بڑھا سکتے تھے مگر دو وجوہات مانع رہیں۔ ایک تو مسلم لیگ کے خمیر میں مزاحمت نہیں ہے۔ اسے ان کا شخصی کمال سمجھنا چاہیے کہ شدید برے حالات میں بھی‘ لوگ ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ دوسرا یہ کہ خود ان کو گھر سے ایک دوسرے بیانیے نے جنم لیا جو مزاحمتی نہیں تھا۔ یہ بیانیہ غالب رہا۔ مزاحمت‘ تصادم سے بچ گئی اور ایک بار پھر اقتدار کی سیاست نواز شریف صاحب کے گرد گھومنے لگی۔ اقتدار کی سیاست باقی رہی‘ مزاحمت ختم ہو گئی۔
عوامی لیگ نے مزاحمت کی سیاست کی مگر وہ تصادم میں بدل گئی۔ شیخ مجیب الرحمن نے بنگالی قوم میں ہیجان پیدا کیا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس کو استعمال کرتے ہوئے‘ ریاست کو دباؤ میں لے آئیں گے۔ دو باتیں ان کے حق میں تھیں۔ ایک تو یہ کہ بنگالی قوم جغرافیائی اعتبار سے ایک وحدت تھی۔ دوسرا یہ کہ ان کے پڑوس میں بھارت موجود تھا۔ تصادم کو بھارت نے پاکستان کے ساتھ حساب چکانے کا ایک موقع جانا۔ اگر بھارتی افواج مشرقی پاکستان میں داخل نہ ہوتیں تو اس مزاحمت کا انجام ناکامی تھا۔
عمران خان صاحب کی مزاحمت‘ کوئی نظریاتی بنیاد رکھتی ہے نہ سیاسی۔ وہ مقتدر قوتوں کا ایک پراجیکٹ تھے۔ عمر ان خان‘ بھٹو صاحب سے بڑھ کر نرگسیت زدہ ہیں۔ انہیں اقتدار ملا تو یہ چاہا کہ ان کو'' قادرِ مطلق‘‘ ہونا چاہیے۔ وہ اپنی خالق قوت سے الجھ پڑے۔ ان کو زعم تھا کہ وہ اردوان بن چکے۔ ایک لمحے کیلئے ان کا وہ وڈیو پیغام ذہن میں تازہ کر لیجئے جو انہوں نے نو مئی کی صبح جاری کیا۔ ان کا تمام سیاسی منصوبہ غلطی ہائے مضامین کا مجموعہ تھا۔ مقتدرہ سے ان کی شکایت بس اتنی تھی کہ میرا سیاسی بوجھ کیوں نہیں اٹھا رہے۔ انہوں نے اپنی مزاحمت کو بہت جلد‘ ریاست کے ساتھ تصادم کے راستے پر ڈال دیا۔ ان کی سیاسی عصبیت ایک علاقے میں جمع تھی نہ پڑوس کی کوئی ریاست ان کے تصادم کی حمایت کر سکتی تھی۔ اس مزاحمت کا وہی انجام ہوا جو ہونا تھا۔نواز شریف صاحب نے اُتنی مزاحمت کی جتنی اقتدار کی سیاست میں ہو سکتی تھی۔ یوں ان کا سیاسی وجود تحلیل ہونے سے محفوظ رہا۔ خان صاحب اس کا ادراک نہ کر سکے۔ انہیں یہ بات سمجھ آئی مگر تاخیرکے ساتھ۔ بعد میں انہوں نے بھی راستہ نکالنے کی پوری کوشش کی۔ آرمی چیف سے بار بار ملاقات کی درخواست کی مگر یہ صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ خان صاحب نے مزاحمت کو تصادم میں بدل دیا۔ انہیں یہ سمجھنے میں دیر لگی کہ تصادم کے نتیجے میں فاتح ایک ہی ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved