تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     27-09-2013

نیا آغاز‘ ملاقات سے

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68ویں سالانہ اجلاس کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کی ملاقات جو اتوار کی صبح متوقع ہے بر صغیر کے لئے اس اجتماع کا ما حصل ہو گی ۔تین ماہ پہلے تیسری بار منصب کا حلف اٹھاتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے نئی دہلی کے ساتھ اسلام آبا د کے تعلقات معمول پر لانے کا عندیہ دیا تھا اور اس کے بعد دونوں لیڈروں کے نمائندگان خصوصی ایک دوسرے سے ملے تھے مگر دونوں ملکوں میں مجموعی مکالمے کی از سر نو بحالی کا خواب اب تک پورا نہیں ہوا ۔ممبئی پر حملہ‘ افضل گورو کی خفیہ پھانسی اور لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیز فائرنگ جس میں پاکستان کے کئی بے گناہ شہری اور فوجی شہید ہوئے‘ جیسے واقعات اس خواب کی تکمیل میں رکاوٹ ہیں‘ مگر سانحہ ممبئی کے بعد پاکستان میں تخریب کاری کا جال بچھانے سے متعلق سابق آرمی چیف وی کے سنگھ کا حالیہ بیان اس ملاقات میں نواز شریف کو نیا گولہ بارود مہیا کر سکتا ہے اور وہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹر دونوں طرف ہیں جو ہمسایہ ملکوں میں تعلقات کی بہتری کے مخا لف ہیں اور حکومتوں کا کام ان پر قابو پانا ہے ۔ بھارت میں حکمراں کانگرسی اتحاد کو اگلے سال عام انتخابات کا سامنا ہے جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی اس کا مقا بلہ کرے گی۔ بی جے پی کٹر ہندو قوم پرست تنظیم ہے‘ اس نے ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندرا مودی کو جو اپنے ملک کے بے گناہ مسلمانوں‘ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور جوانوں کے قتل عام کے سبب امریکہ کے ویزہ سے محروم ہیں‘ ملک کا آئندہ وزیر اعظم نامزد کیا ہے۔ اگر بی جے پی اقتدار میں آئی تو بھی نواز شریف ان (مودی) سے معاملہ کر سکتے ہیں۔ ( 1999ء میں نواز حکومت کے پچھلے دور میں اٹل بہاری واجپائی اسی پارٹی کے وزیر اعظم تھے جو حلف اٹھانے کے بعد مٹھائی کا تھال اٹھائے سمجھوتہ بس میں بیٹھ کر لاہور گئے اور مینار پاکستان پر حاضری دی)۔ پاکستان اور بھارت میں باہمی تجارت کا فروغ خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ دوسرے تمام مسائل اور مصلحتیں اس نصب العین کے سامنے ہیچ ہیں ۔بھارتی صحافی تلوین سنگھ نے لکھا تھا۔ ’’میں بھارت اور پاکستان کے مابین امن لانے پر کاربند اٹل بہاری واجپائی سے زیادہ کسی وزیر اعظم کو نہیں جانتا‘‘۔ وہ بھی مختلف اوقات میں تین دفعہ بھارت کے چیف ایگزیکٹو رہے۔ آج کل صاحبِ فراش ہیں۔ اگر جنرل پرویز مشرف کارگل کا افسوسناک کھیل نہ رچاتے اور نواز شریف کو جلا وطن نہ کرتے تو دونوں ملکوں میں امن کا مکالمہ آج منجمد نہ ہو تا ۔ نیو یارک کے ایک ہوٹل میں ناشتے کی میز پر شریف اور سنگھ کی میٹنگ میں کئی امور پر پیش رفت کا امکان ہے۔ بھارت‘ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں برازیل‘ جاپان اور جرمنی کی طرح ایک نشست کا امیدوار ہے۔ بھارتی سفیر اشوک مکھرجی نے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں جنہیں ویٹو کا ا ختیار ہے‘ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے معاملے میں طاقت کے استعمال کی دھمکی کے سوال پر حالیہ اختلاف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے (اب 193) ارکان عالمی ادارے کے منشور میں اصلاحات کے حامی ہیں ۔پاکستان گو ہمیشہ اصلاحات کے حق میں رہتا ہے مگر شام میں تازہ خونریز بحران میں وہ اپوزیشن کو امن مذاکرات کی میز پر آنے کو کہتا رہا ہے اور روس و چین کے علاوہ دوسرے ملکوں کے موقف کو مانتے ہوئے امریکہ نے دمشق میں فوجی مداخلت مؤخر کی ہے۔ پاکستان‘ جائز مطلوبہ مراعات کے عوض نشست کے لئے بھارت کی تائید کر سکتا ہے ۔ اقوام متحدہ کی اپیل پر جن ملکوں نے افغانستان میں امن فوجیں بھیجی ہیں ان میں بھارت بھی شامل ہے ۔اس کے بلیو ہیلمٹ سپاہیوں پر حملوں میں بہت سے ہندوستانی مارے گئے ہیں۔ اسی دوران افغانستان سے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بھی حملے ہوئے ہیں جن میں درجنوں افراد کام آئے ہیں ۔گویا اندرونی اور بیرونی دہشت گردی کا ہدف بھارت ہی نہیں پاکستان بھی ہے۔ نواز شریف کے موجودہ دور میں اوسطاً ہر روز ایک دھماکہ ہوا جس سے ہزاروں لوگ جن میں پولیس اور فوج کا عملہ بھی شامل ہے‘ جاں بحق ہوئے۔ پاکستان اور بھارت کو دہشت گردی کے خاتمے کی جد و جہد میں اتحاد اور یک جہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اس جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لئے انہیں ہر تعاون کا خیر مقدم کرنا ہو گا۔ صدر اوباما واشنگٹن میں منموہن سنگھ کو دو پہر کا کھانا دے رہے ہیں۔ اس ملاقات کا فائدہ بھی بر صغیر کو ہوگا ۔امریکہ دو ایٹمی ملکوں میں پائیدار امن کی ضرورت پر زور دیتا رہا ہے اور 2014ء میں افغانستان سے انخلا میں دونوں ہمسایہ ملکوں کا تعاون چاہتا ہے۔ امید ہے کہ نواز شریف کے بعد منموہن سنگھ بھی امریکہ اور نیٹو ملکوں کو ایسا تعاون پیش کریں گے۔ جنرل اسمبلی کا افتتاح کرتے ہوئے اوباما نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کو دہرایا کہ ’’اگلے سال ہم افغانستان کی جنگ ختم کر دیں گے اور اس وقت تک القاعدہ (جس نے نائن الیون پر امریکہ کو نشانہ بنایا تھا) کی اصل قوت کو تباہ کر چکے ہوں گے‘‘۔ تاہم نیروبی اور پشاور کے ہلاکت خیز واقعات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ شام کے معاملے میں رائے دہندگان کی رائے اور کچھ اتحادیوں بالخصوص برطانیہ کے فیصلے کے احترام کے بعد ایران کی پزیرائی نے ثابت کیا کہ بارک اوباما بجا طور پر اپنے جنگ مخالف منشور پر امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر چنے گئے تھے ۔صدر نے اس زمانے کا ذکر کیا ’’جب نسل‘ مذہب اور قبیلے کے اختلافات تلوار کے زور سے طے ہوتے تھے اور جب پُر امن مذاکرات کے ذریعے باہمی جھگڑوں کے تصفیے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا‘‘۔ اگرچہ ممنوعہ کیمیائی ہتھیار تلف کرنے میں صدر بشار الا سد کی ناکامی کا امکان ان کے ذہن میں تھا مگر وہ نیویارک میں ایران کے نئے صدر حسن روحانی کو خوش آمدید کہتے ہوئے بولے کہ ایرانی حکومت کا اعتدال پسندی اختیار کرنا خوش آئند ہے۔ اس سے جوہری پروگرام پر مغرب سے اس کے نزاع کے تصفیے کی راہ ہموار ہو گی ۔یہ تنازع دور ہونے کا بڑا فائدہ پاکستان کو ہو گا‘ کہ اس طرح ایران سے پاکستان تک گیس کی پائپ لائن کے منصوبے کی تکمیل میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں گی اور اسلام آباد کو ایک ہمسائے اور ایک اتحادی میں سے ایک کو چننے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔فی الوقت ایران سے مصالحت کے امکان نے شام کے بحران پر سایہ ڈال دیا ہے ۔ جنرل اسمبلی کو اقوام متحدہ کا ایک از کار رفتہ ادارہ سمجھا جاتا ہے مگر اس کے افتتاح کے دن خیالات اور جذبات کے اظہار کے جو مظا ہرے دیکھنے میں آئے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بین الاقوامی اجتماع ’’نیو یارک کے شاپنگ ٹرپ‘‘ سے بڑھ کر ہے۔ سالانہ اجلاس میں ملکوں اور حکومتوں کے سربراہ ریکارڈ تعداد میں شریک ہوئے جو سال کی آخری سہ ماہی میں عالمی مسائل پر اپنا نکتۂ نگاہ پیش کریں گے۔ صدر اوباما کی افتتاحی تقریر کے بعد صدر روحانی نے خطاب کیا اور دنیا کو یقین دلایا کہ کوئی اسلامی ملک وسیع پیمانے پر تباہی لانے والے ہتھیار پاس نہیں رکھ سکتا ۔انہوں نے صدر اوباما سے ملاقات کرنے کے سوا وہ بہت کچھ کہا جو امریکہ سننا چاہتا تھا اور جو اسرائیل کو ناگوار تھا پھر برازیل کی صدر دلما روسف Dilma Rousseffنے‘ جو ایک ہی دن پہلے واشنگٹن میں اوباما سے ملی تھیں‘ اتحادیوں کی جاسوسی پر امریکہ کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا اور آخر میں پاکستان اور بھارت کے لیڈروں کی پہلی میٹنگ کا امکان روشن ہوا جو کشیدگی کی موجودہ فضا میں امن کی امید کو آگے بڑھانے کا باعث ہو سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved