کوئی سرکاری محکمہ ایسا بچ گیا ہے جس سے چھوٹے بڑے‘ غریب‘ متوسط‘ مالدار‘ ہر شخص کو روزانہ کی بنیاد پر تکلیف نہ پہنچتی ہو؟ میرا خیال ہے کوئی نہیں بچا۔ جتنی زیادہ کسی چیز کی اہمیت اور ضرورت‘ اتنی ہی بڑی تکلیف۔ بجلی‘ پانی‘ گیس‘ سیوریج‘ سڑکوں کا نظام۔ سب اس نا اہلی‘ کام چوری اور رشوت ستانی کے جوہڑ میں غرق ہو چکا ہے جس کا رقبہ پہلے بھی کم نہ تھا‘ پھر اور بڑھنا شروع ہوا اور اب اس جوہڑ کے تعفن کے ساتھ آپ روز صبح اٹھتے ہیں اور اسی میں رات کو سو جاتے ہیں۔ پانی‘ جو انسان کی اہم ترین ضرورت ہے‘ اس کے انتظام کیلئے واسا نامی ایک ادارہ برسوں سے قائم ہے جو پانی کی ترسیل کا بھی ذمہ دار ہے اور نکاسی کا بھی لیکن اس نے پانی کا آنا بھی عذاب بنا دیا ہے اور جانا بھی۔ نہ صاف پانی آسانی سے آتا ہے نہ گندہ پانی آسانی سے نکلتا ہے۔ اور کوئی ایسا نہیں جو اس کا نظام ٹھیک کر سکے او رکوئی جگہ ایسی نہیں جہاں شکایت ممکن ہو۔ مجھے کوئی خوش فہمی نہیں کہ وزیراعلیٰ یا چیف سیکرٹری یا کمشنر یا واسا کا کوئی اعلیٰ افسر اس تحریر کی تکلیف محسوس کرے گا۔ لیکن ہم ان صفحات پر اپنے اور پورے شہر کے دل کی بات بلکہ تکلیف بھی نہ بتا سکیں تو پھر کریں کیا؟
دو ڈھائی سال پہلے کی بات ہے‘ واسا کے میٹر ریڈر نے خوش خبری سنائی کہ آپ کا دفتر والا پانی کا میٹر خراب ہو چکا ہے‘ اس کی مرمت ہوگی۔ اور جب تک یہ میٹر ٹھیک نہیں ہوتا یا نیا نہیں لگتا‘ بل ایوریج کے حساب سے بھیجا جائے گا۔ میرے دفتر کا استعمال مختصر سا ہے سو اس کا بل لگ بھگ 600روپے آیا کرتا تھا۔ میٹر اتار کر واسا کے دفتر بھیجا۔ ساتھ ایک ملتجیانہ درخواست بھیجی کہ جلد از جلد میٹر درست کرکے لگا دیا جائے۔ اس کے جواب میں میٹر وصول ہونے کی رسید تو مل گئی لیکن باقی جواب ندارد۔ اگلے ماہ سے بل دگنے سے بھی زیادہ یعنی 1300روپے ماہانہ وصول ہونے لگا۔ ایک دو بار میٹر کی یاد دہانی کرائی گئی تو تحریری جواب ملا کہ آپ کا میٹر مرمت کے قابل نہیں ہے۔ اور واسا کے پاس فی الحال نئے میٹر بھی نہیں ہیں۔ یعنی سادہ لفظوں میں یہ کہ اب آپ بے بسی کا جشن منائیں۔ میں کم و بیش ایک سال تک اس پانی کی قیمت جو چھ سو روپے بنتی تھی‘ دگنی سے زیادہ ادا کرتا رہا۔ اور اس سے نکلنے کی کوئی صورت موجود نہیں تھی۔ آدمی متعلقہ دفتر کے چکر لگا لگا کر تھک گیا لیکن کوئی شنوائی تھی نہ کوئی امید۔ بس آپ آنکھیں بند کرکے بل وقت پر ادا کیے جائیں۔ میں نے دل میں سوچا۔ اگر فائدے کے نقطۂ نظر سے سوچا جائے تو متعلقہ ادارے کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ میرا میٹر نیا لگائے۔ اسے تو آسانی سے دگنی رقم ہر ماہ مل رہی ہے۔ اگر کسی کو تکلیف ہے تو وہ اس شخص کو جس کی محنت کی کمائی سے یہ رقم دی جا رہی ہے۔
آخر ہر کوشش ناکام ہونے کے بعد میں نے سٹیزن پورٹل پر شکایت درج کروائی۔ متعلقہ کاغذات کی کاپی ساتھ لگائی۔ میرا تاثر یہ ہے کہ سٹیزن پورٹل پر ابتدا میں کچھ شکایات کا ازالہ بھی ہوتا رہا تھا۔ لیکن اب تو یہ ایک ایسی ناکارہ گائے ہے جو نہ دودھ دے سکتی ہے نہ بچہ۔ یہ بس چارہ کھانے کے لیے ہے۔ اس کا بڑا نقص یہ ہے کہ آخر میں درج کی گئی شکایت اسی اہل کارکے پاس پہنچتی ہے جس کی شکایت کی گئی ہو یا جو تکلیف کا ذمہ دار ہو۔ ظاہر ہے کہ اگر اسے کچھ احساس ہوتا تو وہ پہلے ہی کیوں تنگ کرتا۔ خیر! مجھے حیرانی ہوئی جب شکایت درج کرانے کے ایک ماہ بعد ایک صاحب ایک استعمال شدہ میٹر لے کر آئے اور کہا کہ سٹیزن پورٹل پر شکایت کی وجہ سے ترجیحی طور پر میٹر لگایا جارہا ہے ورنہ کئی کئی سال میٹر نہیں لگتا۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ کسی بھی طرح سہی‘ استعمال شدہ سہی‘ میٹر لگ تو رہا تھا اس لیے میں نے شکر ادا کیا۔ اس میٹر کی رقم جو ہزاروں میں تھی‘ بلوں میں لگ کر آئی تو ادا کی‘ اب بظاہر معاملات ٹھیک رہنے چاہئیں تھے۔ پانچ چھ ماہ یہ معاملات اور بل ٹھیک چلتے رہے۔ تین ماہ پہلے اچانک بارہ ہزار روپے کا بل وصول ہوا۔ حالانکہ بل پابندی سے جمع کرائے جاتے رہے تھے۔ بل پر درج تھا کہ آپ کا میٹر خراب اور بند ہے۔ میں حیران ہوا کیوں کہ میٹر بالکل ٹھیک چل رہا تھا۔ میٹر ریڈر کو فون کرکے یہ بات بتانا اور غلط اندراج پر احتجاج کرنا قیامت سا ہوگیا۔ اس نے نہایت بدتمیزی سے کہا کہ آپ کا میٹر خراب ہوگا تو لکھا گیا ہے نا! بارہ ہزار کا بل تو آپ کو جمع کرانا ہی ہوگا۔ وہ بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ ایک بار پھر واسا کے متعلقہ دفتر کے چکر لگنے شروع ہوئے۔ ایک میز سے دوسری پر‘ ایک شخص سے دوسرے کے پاس۔ چلتے میٹر کی وڈیوز دکھائی گئیں۔ تصویریں دکھائی گئیں۔ ان سے کہا گیا کہ آپ خود آکر چیک کر لیں۔ درخواست جمع کرا کر اس پر شکایت نمبر درج کرایا گیا۔ لیکن یہ چند جملوں میں بیان کردہ روداد آسان نہ سمجھی جائے۔ اس میں کئی ماہ بھی لگے اور لاتعداد چکر بھی۔ آخر وہی میٹر ریڈر رعونت کے ساتھ آیا۔ چلتا میٹر چیک کیا۔ بے نیازی سے کہا کہ ہو جاتی ہے غلطی۔ کوئی بڑی بات نہیں۔ میں لکھ دیتا ہوں کہ میٹر ٹھیک چل رہا ہے۔ سکون کا سانس لیا کہ شاید آزمائش ختم ہو گئی۔ لیکن اس ماہ بل پھر وہی بارہ ہزار کے لگ بھگ۔ پتا چلا کہ آزمائش ختم نہیں ہوئی‘ ہنوز جاری ہے۔ ایک بار پھر دفتر کے چکر‘ اکاؤنٹ آفیسر‘ اسسٹنٹ ڈائریکٹر‘ ڈائریکٹر‘ ہر کمرے میں حاضری اور خواری۔ ہر ایک نے یہی کہا کہ کمپیوٹر میں تو غلطی درست ہو چکی ہے اور اس کے مطابق میٹر ٹھیک ہے لیکن بل تو آپ کو جمع ہی کرانا پڑے گا۔ ہاں اگر اسسٹنٹ ڈائریکٹر رحم کھا کر دستخط کردیں تو آپ پورا بل جمع کرانے کے بجائے آدھا جمع کرا دیں۔ اور مزید دو تین ماہ اس غلطی کے درست ہونے کا انتظار کریں۔ یہ بھی زیادتی تھی لیکن کم از کم آدھی تھی۔ خون کے گھونٹ پی کر یہی فیصلہ کرنا پڑا۔ اب اسسٹنٹ ڈائریکٹر صاحب کا دستخط شدہ بل کہاں جمع کرایا جائے؟ معلوم ہوا کہ ایسے بل صرف جی پی او مال روڈ میں ہی جمع ہو سکتے ہیں۔ آدمی وہاں بھیجا گیا جہاں پورے شہر سے ایسے ہی بل لانے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ ایک کاؤنٹر پر کام ہو رہا تھا‘ باقی سب خالی تھے۔ یعنی قطار میں لگ جائیں اور بھول جائیں کہ آپ نے کچھ اور کام بھی کرنا ہے یا گھر بھی واپس جانا ہے۔ کئی گھنٹے لگا کر بل جمع ہوا۔ تاہم اب بھی یقین نہیں ہے کہ ہمارا مسئلہ حل ہوگیا کیوں کہ ابھی الگے بل نہیں آئے اور تنگ کرنے والا کوئی ادارہ‘ کوئی عملہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے۔
آزمائش ہنوز جاری تھی۔ میرے گھر سے فون آیا کہ پانی کی ایک ایک بالٹی کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ کیوں کہ واسا سے پانی نہیں آرہا۔ کسی بڑی لائن میں کوئی بڑا مسئلہ ہوا ہے اس لیے اب کم و بیش دس دن تک پانی کو ترستے رہنا ہے۔ دس دن؟ اس گرمی میں یہ دس دن کیسے گزاریں؟ ان لوگوں پر رشک آنے لگا جو بورنگ کروا کر واسا کے عذاب سے نکل جاتے ہیں۔ ہمارے سامنے والے ہمسائے ایسے ہی قابلِ رشک ہیں۔ آڑے وقت میں انہوں نے سیراب کیا۔ اللہ انہیں سیراب کرے۔
لیکن یہ تو واسا کا ایک پہلو بتایا گیا ہے۔ سیوریج پر تو ابھی بات ہوئی ہی نہیں۔ اس پر بات ہوگی تو اس پر بھی کئی کالم کی تفصیل ذاتی تجربے اور مشاہدے میں موجود ہے۔ پھر کبھی سہی۔ ابھی توصبر اور خون کے گھونٹ پی کر بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ واسا صاحب! کچھ خدا کا خوف۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved