لغت میں آداب کے معنی 'قواعد، اطوار، دستور، آئین، طور طریقہ، رسم، ڈھنگ، کسی کام کے کرنے کا طریقہ، انتہائی تعظیم کے ساتھ سلام کرنا، خوش اخلاقی اور عزت و توقیر وغیرہ‘ بیان کیے جاتے ہیں۔ یوں تو آداب کی کئی قسام ہیں لیکن آج ہم سفارتی آداب کی بات کریں گے کیونکہ بین الاقوامی تعلقات انہی کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ انہی کی بنیاد پر مختلف ممالک ایک دوسرے کے شہریوں کو حقوق، تحفظ اور سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ سفارتی آداب کی خلاف ورزی اکثر دو ممالک کے درمیان تعلقات کے بگاڑ کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت اکثر اوقات سفارتی آداب کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرتا رہتا ہے لیکن پاکستان نے ہمیشہ سفارتی آداب اور تعلقات کو اہمیت دی ہے۔ تاہم سابق وزیراعظم کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد آئی تو چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا پلان بنایا اور ایک سیاسی جلسے میں ایک کاغذ لہرا کر اسے امریکی خط کا نام دیا اور اسے اپوزیشن (موجودہ حکومت) اور مقتدرہ کے خلاف سیاسی بیانیہ بنانے کے لیے غلط رنگ دیا جس کا مقصد صرف اور صرف تحریک عدم کو ناکام بنانا تھا اور اس کے لیے پاک امریکہ تعلقات تک کو دائو پر لگا دیا گیا۔ سابق وزیراعظم کئی ماہ تک یہ بیانیہ چلاتے رہے کہ انہوں نے امریکی غلامی کو رد کیا‘ جس پر امریکہ نے اپوزیشن اور مقتدرہ کے ساتھ مل کر ان کی حکومت ختم کی۔ خان صاحب کے اس عمل کو اس وقت بھی سفارتی آداب کے منافی قرار دیا گیا جبکہ اس سے پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات اور اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی۔
بتانے والے بتاتے ہیں کہ سائفر ڈرامے کے مرکزی کرداروں میں سابق وزیراعظم، ان کے پرنسپل سیکرٹری اور سابق وفاقی وزیر خارجہ شامل تھے۔ گزشتہ روز سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سائفر سے متعلق اپنا بیان 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرایا۔ ذرائع کے مطابق اعظم خان نے 'سائفر سازش‘ کو ایک سوچی سمجھی سکیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی مقاصد کے لیے سائفر کا ڈرامہ رچایا گیا‘ چیئرمین پی ٹی آئی نے تمام تر حقائق کو چھپا کر سائفر کا جھوٹا اور بے بنیاد بیانیہ بنایا، تحریکِ عدم اعتماد سے بچنے کے لیے سائفر کو بیرونی سازش کا رنگ دیا گیا۔ ریکارڈ کرائے گئے بیان میں سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے بتایا کہ 9 مارچ کو چیئرمین پی ٹی آئی نے مجھ سے سائفر لے لیا اور بعد میں گم کر دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کے ڈرامے کے ذریعے عوام میں ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت کا بیج بویا‘ منع کرنے کے باوجود سیکرٹ مراسلہ ذاتی مفاد کے لیے سیاسی جلسے میں لہرایا۔ سائفر کو ملکی سلامتی کے اداروں اور امریکہ کی ملی بھگت کا ثبوت قرار دینے کے لیے دانستہ غلط رنگ دیا گیا۔ سائفر بیانیہ صرف اور صرف حکومت بچانے کے لیے رچایا گیا۔ ذرائع کے مطابق 8 مارچ 2022ء کو سیکرٹری خارجہ نے اعظم خان کو سائفر کے بارے میں بتایا، اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سابق وزیراعظم کو سائفر سے متعلق پہلے ہی بتا چکے تھے۔ سابق وزیر اعظم نے سائفر کو اپوزیشن اور مقتدرہ کے خلاف بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور سائفر اپنے پاس رکھ لیا جو قانون کی خلاف ورزی تھی۔ سائفر واپس مانگنے پر چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ وہ گم ہو گیا ہے۔ 28 مارچ کو بنی گالا میں ہونے والی میٹنگ اور 30 مارچ کو سپیشل کیبنٹ میٹنگ میں سائفر کا معاملہ زیرِ بحث آیا۔ ان میٹنگز میں سیکرٹری خارجہ نے شرکا کو سائفر کے مندرجات کے بارے میں بتایا۔
سابق وزیراعظم کے سب سے خاص افسر کے اس بیان کے بعد حکومتی موقف بھی سامنے آ گیاہے ۔ وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے ذاتی مفاد کے لیے کھیل کھیلا، سابق وزیر خارجہ بھی اس ڈرامے میں پوری طرح ملوث اور اس جرم میں شریک ہیں۔ پاکستانی اداروں کے خلاف منصوبہ بندی کے تحت یہ ڈرامہ رچایا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے ڈرامے سے ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ اعظم خان کے بیان نے پی ٹی آئی کی اصل حقیقت واضح کر دی ہے، یہ بیان واضح کرتا ہے کہ اصل میر جعفر کون ہے۔ سائفر کی سازش کا ڈرامہ اب پوری طرح سے بے نقاب ہو چکا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اعظم خان کا بیان منظرِ عام پر آنے والی آڈیو لیکس کی بھی تصدیق کرتا ہے۔ اعظم خان کے بیان کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کو بتایا گیا کہ اس دستاویز کو پبلک کرنا جرم ہے‘ اس کے باوجود موصوف نے سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی۔ سائفر سازش اور 9 مئی کے واقعات ایک ہی سازش کا تسلسل ہیں۔ وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ سائفر اب بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس ہے جو ان سے برآمد ہونا چاہیے، یہ ریاست کے مفاد کا معاملہ ہے، یہ ایک سنگین جرم ہے اور ریاست کی مدعیت میں یہ مقدمہ پراسیکیوشن کے لیے جائے گا۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی سائفر سے متعلق کہانی سچی تھی یا جھوٹی‘ اس بات کی تحقیقات ابھی باقی ہیں لیکن اس سے قبل وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو انویسٹی گیشن سے روک دیا گیا تھا؛ تاہم اب انہیں تحقیقات کی اجازت مل گئی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے سائفر تحقیقات پر جاری کردہ حکم امتناع واپس لے لیا ہے۔ عدالت عالیہ نے وفاقی حکومت کی درخواست پر سائفر تحقیقات سے متعلق فیصلہ سنا دیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے بھی کئی بار سائفر کی تحقیقات کامطالبہ کیا گیا ہے۔ ایک عام آدمی کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ سائفر ہوتا کیا ہے، کون لکھتا ہے اور اس کے اغراض و مقاصد کیا ہوتے ہیں۔وہ ان معاملات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں دیکھتا مگر یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔ گزشتہ ایک‘ سوا سال سے جتنی بار سائفر کا لفظ بولا جا چکا ہے‘ اب عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس معاملے کی باقاعدہ جامع تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ اصل کہانی کیا تھی اور سیاسی مقاصد کے لیے کیسے اسے استعمال کیا گیا‘ یہ ساری باتیں سامنے آ سکیں اور آئندہ کسی حکمران کو سفارتی آداب کے منافی اقدامات کی جرأت نہ ہو سکے، کیونکہ اگر ہمارے سیاست دان اپنے ذاتی مفادات کے لیے سفارتی آداب کی خلاف ورزی کریں گے‘ خارجہ معاملات کے ساتھ کھلواڑ کریں تو یقینا بیرونِ ملک پاکستان کی ساکھ کے ساتھ ساتھ اوور سیز پاکستانیوں کو بھی سنگین خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
لازم ہے کہ سائفر معاملے کی مکمل تحقیقات کے بعد تمام حقائق کو عوام کے سامنے رکھا جائے تاکہ وطن عزیز کے عام شہری بھی یہ جان سکیں کہ بعض اوقات ہمارے سیاستدان ذاتی مفادات کے حصول میں کس حد تک چلے جاتے ہیں اور قومی اداروں کا احترام تک بھول جاتے ہیں جبکہ ملکی وقار اور قومی سلامتی کے معاملات کو بھی دائو پر لگا دیتے ہیں۔ اس بات کی بھی مکمل تفتیش ہونی چاہئے کہ اصل سائفر کہاں اور کس کے پاس ہے، اگر واقعی چیئرمین پی ٹی آئی نے سیاسی بیانیہ بنانے کے لیے سائفر غائب کیا ہے تو یہ بہر صورت ان سے برآمد کرانا چاہیے اور اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرائی جانی چاہئیں اور اگر واقعتاً یہ اہم سفارتی دستاویز گم ہو گئی ہے تو اس پر آئین و قانون کو حرکت میں آنا چاہئے۔ اگر ایک اہم سفارتی دستاویز سے متعلق کوئی غفلت برتی گئی ہے تو ذمہ داران کو کٹہرے میں لانا چاہیے، وگرنہ آئندہ بھی اہم قومی دستاویزات کو سیاسی مقاصد اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال یا غائب کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ یہ تحقیقات بالکل صاف وشفاف ہوں اور اس حوالے سے تمام کرداروں کو بے نقاب کیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسی سازشوں کا تدارک یقینی بنایا جا سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved