تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     21-07-2023

پروانہ حاضری ملزم اور انسانی حقوق

ہیبیس کارپس ایک لاطینی اصطلاح ہے۔ کئی دیگر پیچیدہ لاطینی اصطلاحوں کی طرح اس اصطلاح کا سادہ اور عام فہم ترجمہ اردو زبان میں نہیں ہے۔ اس کے جو تراجم کیے جاتے ہیں‘ وہ اصل سے بھی مشکل لگتے ہیں۔ جیسا کہ ''پروانۂ حاضری ملزم‘‘ یا ''حکم نامہ بدن‘‘ وغیرہ۔ ان تراجم سے عام آدمی کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ عام زبان میں اس اصطلاح سے مراد ایک قانونی رِٹ یا حکم ہے‘ جس میں مجاز اتھارٹی کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ کسی زیر حراست شخص کو عدالت یا جج کے سامنے پیش کرے۔ ایک جمہوری سماج میں جہاں انسانی حقوق کا احترام کیا جاتا ہو‘ وہاں ہیبیس کارپس کا مقصد شہریوں کو غیرقانونی یا من مانی حراست سے بچانا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ان کی قید قانونی اور جائز ہے۔ جب کوئی شخص ہیبیس کارپس کی رِٹ کے لیے درخواست دائر کرتا ہے تو وہ بنیادی طور پر عدالت سے اپنی حراست کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینے کے لیے کہتا ہے۔ عدالت اس درخواست کی سماعت کے بعد اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ حراست کی معقول اور کافی قانونی بنیاد نہیں ہے‘ تو اس شخص کو رہا کرنے کا حکم جاری کر سکتی ہے۔
دنیا میں ایسے مشہور مقدمات کی بے شمار مثالیں ہیں‘ جہاں سیاست دانوں کو غیرقانونی طور پر گرفتار کیا گیا اور ان کو اس رِٹ کے ذریعے رہا کیا جاتا رہا۔ میانمار میں آنگ سان سوچی: نوبیل انعام یافتہ اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی رہنما کو مختلف فوجی حکومتوں کے دوران میانمار میں متعدد بار حراست میں لیا گیا۔ برازیل میں برازیل کے سابق صدر لولا ڈی سلوا کو 2018ء میں گرفتار کیا گیا تھا جس کی حراست کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا۔ لیکن اس معا ملے میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ گرفتاری کے جائز یا غیرقانونی ہونے کا تعین ہر ملک کے مخصوص قانونی اور آئینی فریم ورک اور قانونی کارروائی کے دوران پیش کیے گئے شواہد پر منحصر ہے۔ بدقسمتی سے بعض صورتوں میں سیاسی بنیادوں پر عمل میں لائی جانے والی گرفتاریوں کو ملک کے قانونی نظام کے تحت جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا غیرقانونی گرفتاریوں کے الزامات کو متعلقہ قانونی حکام کی طرف سے مکمل جانچ پڑتال اور جائزہ لینے سے مشروط کیا جاتا ہے۔
ہیبیس کارپس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ اس کی جڑیں انگریزی قانون میں ہیں۔ وقت کیساتھ ساتھ اس کا ارتقا ہوا ہے۔ مختلف ممالک نے اس بنیادی قانونی اصول کی اپنی الگ الگ تشریحات کو اپنایا ہے۔
قرونِ وسطیٰ کے انگلینڈ میں تاج یا دیگر طاقتور افراد کی طرف سے غیرقانونی حراستوں سے نمٹنے کے لیے ہیبیس کارپس کا تصور ایک قانونی چارہ جوئی کے طور پر سامنے آیا۔ اس اصول کے تحت عدالتوں کو کسی شخص کی حراست کی قانونی حیثیت کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے اور زیر حراست شخص کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دینے کا اختیار حاصل ہوا۔ یہ تاریخی قانون سازی 1679ء میں انگلینڈ میں چارلس دوم کے دورِ حکومت میں رسمی طور پر منظور ہوئی۔ اس نے ہیبیس کارپس کے حق کو تسلیم کیا اور اسے ایک بنیادی آئینی تحفظ کے طور پر مستحکم کیا۔ یہ حق آگے چل کر بیشتر مغربی جمہوریتوں میں تسلیم کر لیا گیا اور آج بھی پوری طرح مروج ہے۔ امریکہ میں بھی یہ قانون رائج ہے لیکن امریکی خانہ جنگی کے دوران صدر ابراہم لنکن نے یونین مخالف سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے بعض علاقوں میں ہیبیس کارپس کو معطل کر دیا تھا۔ لیکن چیف جسٹس راجر نے‘ جو فیڈرل سرکٹ کورٹ کے جج کے طور پر بیٹھے ہوئے تھے‘ نے فیصلہ دیا کہ لنکن کی جانب سے ہیبیس کارپس کی معطلی غیر آئینی تھی‘ تاہم لنکن نے اس فیصلے کو نظر انداز کردیا اور مزدور یونین کے رہنماؤں کو زیر حراست رکھنے کی کوشش کی۔ اسی طرح امریکی سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ فوجی ٹربیونلز ان علاقوں میں عام شہریوں پر مقدمہ نہیں چلا سکتے جہاں سول عدالتیں کام کر رہی ہوں۔ ایک کیس میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ خانہ جنگی کے دوران ہیبیس کارپس کی معطلی سے کسی شہری کے فوجی ٹرائل کا جواز نہیں بنتا۔ امریکہ کے جسٹس سسٹم میں یہ روایت اور مثال اب بھی قائم ہے۔ 2004ء میں رسول بمقابلہ بش کیس میں‘ امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ گوانتا ناموبے میں غیرملکی قیدیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی حراست کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے امریکی وفاقی عدالتوں میں ہیبیس کارپس کی درخواستیں دائر کریں۔
پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے اس قانون کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں ہر دور میں ایسی گرفتاریاں ہوتی رہتی ہیں جو ہیبیس کارپس کے زمرے میں آتی ہیں لیکن یہاں قانون ہونے کے باوجود اس قانون پر عمل درآمد سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں 1973ء کا آئین عدلیہ کو ہیبیس کارپس کا اختیار دیتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ عملی طور پر بھی ماضی میں پاکستان کی عدالتوں میں کچھ ایسے مقدمات سامنے آئے ہیں جس میں جج حضرات نے اس رِٹ کا استعمال کیا۔ لیکن ایسی مثالوں کی بھی کمی نہیں ہے جب عدالت کی طرف سے نوٹس لینے اور پیش کرنے کا حکم دینے کے باوجود زیرِ حراست شخص کو عدالت کے سامنے نہیں پیش کیا گیا۔ اس سلسلے مختلف حیلوں بہانوں سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ اس معاملے میں عام طور پر مجاز حکام یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ مطلوبہ شخص ان کے زیر حراست نہیں ہے اور اس کے بارے میں مکمل طور پر لا علمی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی تازہ ترین مثالیں بعض گمشدہ افراد اور بعض صحافیوں کی ہیں‘ جن کو حسبِ حکم عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اس قسم کی شکایات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں عوام کے بنیادی انسانی حقوق اور ان کی شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے اس قانون کی موجودگی اور اس کا احترام لازم ہے۔ جمہوری معاشروں کے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں ہے کہ کسی شہری کو بغیر کسی معقول جواز کے غیرقانونی طور پر حراست میں لے لیا جائے اور عدالت کے حکم کے باوجود اس کو عدالت میں پیش کرنے اور گرفتاری کی وجہ بیان کرنے گریز کیا جائے۔ ان میں سیاسی بنیادوں پر گرفتاریاں بھی شامل ہیں‘ جہاں اگر زیرِ حراست شخص کو بظاہر عدالتوں میں پیش بھی کیا جائے تو عام طور 16ایم پی او‘ امن و امان کو خطرہ اور دوسرے ایسے قوانین کا سہارا لے کر کسی شخص کو گرفتار کرنے اور حراست میں رکھنے کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں دفعہ 124(الف) اور 16ایم پی او کو اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ دفعہ 124 (الف) کو تو لاہور ہائی کورٹ نے کالا قانون قرار دے دیا تھا جو نو آبادیاتی دور کی باقیات ہیں۔ 16ایم پی او اب بھی مجاز اتھارٹی کے ہاتھ میں ایک مؤثر ہتھیار ہے جس کو بڑی کثرت سے غلط استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی آڑ میں غیر قانونی گرفتاریوں کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ 16ایم پی او اور اس نوع کے دیگر قوانین کو جدید جمہوری اور انسانی حقوق کے تصورات کی روشنی میں دوبارہ دیکھا اور پرکھا جائے اور ان قوانین کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لا کر ان کی جوازیت اور بے محابا استعمال پر از سر نو بحث کی جائے۔ کیونکہ سیاسی بنیادوں پر من مانی اور بلا جواز گرفتاریوں کے لیے ایسے قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے قوانین حکمران اشرافیہ کے ہاتھ میں ایک طاقت ور اور خطرناک ہتھیار بن گئے ہیں جن سے سیاسی مخالفین کو کچلا جا سکتا ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایسے قوانین کے بے جا استعمال کو روکنا نا گزیر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved