تسبیح‘ آبِ زم زم‘ کھجوریں‘ مسجد نبوی کی ایک شبیہ اور جائے نماز۔
یہ سب چیزیں میز پر رکھی تھیں۔ نظر پڑی تو آنکھیں برس پڑیں۔ ہر شے دھندلانے لگی۔ شدتِ غم سے آنکھیں بند کر لیں۔ برسات تھمی تو ایک شفاف منظر سامنے تھا۔ ذہن کے پردے پرایک ہنستا مسکراتا چہرہ‘ کچھ اس طرح نمودار ہوا جیسے بچشمِ سر دیکھ رہا ہوں۔ شتابی سے آنکھیں کھولیں تو سامنے کچھ نہ تھا۔ میز پر اسی طرح تسبیح رکھی تھی یا پھر مسجدِ نبوی کی شبیہ اور جائے نماز۔
ملک محمد اکبر زندگی کے سب سے خوبصورت سفر سے لوٹ رہے تھے۔ بیت اللہ سے اپنے گھر کے لیے نکلے تھے مگر ایک اور بلاوا آ گیا اور راستے ہی میں راستہ بدل لیا۔ اہلیہ کی رفاقت پر فرشتوں کی معیت کو ترجیح دی اور ان کے ساتھ سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئے۔ وہ گھر پہنچیں تو ملک اکبر ان کے ساتھ نہیں تھے‘ صرف ان کا جسدِ خاکی تھا۔ خدا کے گھر کا زائر اس کے حضور حاضر ہو چکا تھا۔ اس رخصتی کے لیے موت کا لفظ کسی طور مناسب نہیں لگتا۔ 'انتقال‘ اس کیفیت کو شاید کسی حد تک ادا کرتا ہے۔ اللہ کا بندہ ایک دنیا سے دوسری دنیا کو منتقل ہو گیا۔ راستے میں کوئی پڑاؤ کیا آتا کہ اس نے زمین پر قدم ہی نہیں رکھا۔ اس کو تلہ گنگ نہیں‘ عالمِ برزخ کو جانا تھا۔
ملک اکبر کو یہ قابلِ رشک رخصتی بلا وجہ نصیب نہیں ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے آخری سفر کی سب منازل اور پڑاؤ کا تعین ایک الہامی فیصلے سے ہوا۔ وہ پی ٹی وی میں ڈائریکٹر پروگرامز تھے۔ دفتر سے چھٹی لی کہ کینیڈا جانے کا ارادہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مگرکہیں اور لے جانا تھا۔ ایامِ حج سے چند دن پہلے انہیں بوجوہ کینیڈا کا سفرملتوی کرنا پڑا۔ یہ التوا ہوا تو سفرِ حج پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ سواری کی مہار جیسے کسی نے ہاتھ سے پکڑ کر مونٹریال سے مکہ کی طرف موڑ دی ہو۔ مدینہ گئے۔ حج کیا اور پھر واپسی کے لیے رختِ سفر باندھا۔ جہاز پر لاہور کے لیے سوار ہوئے مگر راستے میں پھر کسی نے مہار پکڑ لی اور ان کی سواری کا رُخ عالمِ برزخ کی طرف کر دیا۔ یہ سفر بتا رہا ہے کہ مسافر کی باگ اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں تھی۔ یہ کوئی اور تھا جو اس کو تھامے ہوئے تھا۔
یہ شاندار رخصتی ملک اکبر کے مقدر میں کیوں لکھی گئی؟ اس لیے کہ انہوں نے خود کو اس کا مستحق ثابت کیا۔ میں نے انہیں ہمیشہ رزقِ حلال کے لیے سنجیدہ پایا۔ وہ جس منصب پر تھے‘ چاہتے تو ناجائز پیسے کے لیے کئی دروازے کھل جاتے۔ وہ لیکن اس بارے میں متنبہ رہے اور خود کواس سے بچائے رکھا۔ اس معاملے میں ان کی حساسیت غیرمعمولی تھی۔
ان کی ایک بڑی خوبی ان کا حسنِ خلق تھا۔ گپ شپ کے لیے ہمیشہ آمادہ رہتے۔ مقامی کلچر سے جڑی ہوئی باتیں انہیں اچھی لگتیں۔ ٹی وی سے وابستگی نے ان میں انسانی کرداروں کو سمجھنے کا ہنر پیدا کر دیا تھا۔ مجھے مسلسل اس پر آمادہ کرتے رہتے کہ میں ٹی وی کے لیے کوئی کہانی لکھوں۔ کوئی ڈرامہ سیریل۔ ان کی ترغیب سے میرے اندر آمادگی پیدا ہوتی مگر پھر دوسری ترجیحات کی نذر ہو جاتی۔ وہ اگلی ملاقات پر پھر اپنی خواہش کو دہراتے۔ مجھے ان کرداروں کی طرف متوجہ کرتے جو ہمارے ارد گرد پھیلے ہوتے ہیں مگر ہم انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ انہیں ایسے کرداروں کا ذکر اچھا لگتا جو ہمارے کلچر میں گندھے ہوں۔ اسی گپ شپ میں گھنٹوں گزر جاتے۔
اس خوش اخلاقی کے سبب اپنی ٹیم کے ساتھ ان کو بہت لگاؤ تھا۔ دوسرے بھی ان کے بارے میں اسی طرح کے جذبات رکھتے تھے کہ محبت اور لگاؤ دو طرفہ ہوتا ہے۔ ان کے انتقال کی خبر نے سب کو بہت اداس کیا۔ ڈاکٹر فاروق حیدر‘ راشد‘ قاضی جنید... کس کس کا نام لوں کہ سب کی آنکھوں میں کئی دن نمی تیرتی رہی۔ سب نے یہ محسوس کیا کہ کوئی دفتر سے نہیں‘ بزمِ یار سے اٹھا ہے۔
بچوں کی تعلیم کے بارے میں فکر مند رہتے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ دنیا کے بہترین اداروں سے علم حاصل کریں۔ ایک بیٹے کو امریکہ اور بیٹی کو ترکیہ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ دلوایا جہاں وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسرے بیٹے کو بھی تعلیم کے لیے باہر بھجوانا چاہتے تھے۔ زندگی کی قیمت کو وہ مال و زر کے ترازو سے نہیں‘ علم و اخلاق کے پیمانے سے طے کرتے تھے۔ اہلِ علم کی مجلس کو پسند کرتے اور ایسے لوگوں کا بہت احترام کرتے۔
میری کتاب بینی کی عادت سے واقف تھے۔ ایک دن کہا: میرے پاس بہت سی کتابیں ہیں جو میں آپ کو دینا چاہتا ہوں۔ اپنی اہلیہ کے بارے میں بتایا کہ انہیں بھی پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ کہنے لگے: ان کی پسندیدہ کتب کے علاوہ سب آپ کو دے دوں گا۔ پھر ایک دن کتابوں سے بھرے تین تھیلے لے آئے۔ یہ کتابیں میرے کمرے میں پڑی ہیں اور ان کی یا د کو محو نہیں ہونے دیتیں۔ کتاب سے زیادہ اچھی نسبت شاید ہی کوئی ہو جو پسِ مرگ بھی کسی کو اپنے سے جوڑے رکھتی ہے۔
ہر لکھنے والا اپنی ترجیحات کا تعین کرتا اور اس کے مطابق اپنے موضوعات کا انتخاب کرتا ہے۔ میں نے یہ طے کر رکھا تھا کہ کالم میں شخصی غم اور خوشی‘ ذاتی دوستوں اور میزبانوں کے تذکرے سے گریز کروں گا۔ اجتماعی موضوعات ہی پر لکھوں گا جس سے پڑھنے والوں کو کوئی دلچسپی ہو سکتی ہے۔ آج اس اصول سے انحراف کرتے ہوئے میں نے ملک اکبرکو اپنا موضوع بنایا ہے جو میرے ذاتی دوست تھے۔ اس کا ایک سبب ہے۔
میرے نزدیک ملک اکبر کا سفرِ حج اور انتقال ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔ اس میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ یہ اس غلط فہمی کا ازالہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی خواہش‘ نیت اور ارادے کے برخلاف بھی اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرتا ہے۔ جو اچھے انجام کا طلب گار ہوتا اور خدا کے حضور میں جواب دہی کے احساس میں جیتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کے لیے اسباب پیدا کر دیتے ہیں۔ خدا کی رحمت اس کا حصار کر لیتی اور اس کو اپنے آغوش میں لے لیتی ہے۔ اگر کوئی اس کا طلب گار نہیں تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کی رحمت اس کو کھینچ کر لے جائے۔ کہیں کوئی خیرکا دیا جل رہا ہوتا ہے جو سفرِ حیات میں کسی اندھیرے مقام پر اجالا کر دیتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں وہ چاہے تو پرہیز گاروں کو نہ بخشے اور چاہے تو گناہگاروں کو بخش دے۔ یہ اس کے قانونِ عدل کے خلاف ہے۔ وہ قادرِ مطلق ہے مگر مغفرت کا معاملہ اس نے انسان کی نیت اور عمل سے مشروط کر دیا ہے۔ جو ہدایت اور اس کی مغفرت چاہتا اور اس کے لیے کوشش کرتا ہے‘ وہ اس کو محروم نہیں کرتا۔ جو اس سے بے نیاز ہو جاتا ہے‘ خدا کو بھی اس کی پروا نہیں رہتی۔ ملک اکبر کے من میں خیر کا ایک چراغ روشن تھا۔ اس کی روشنی نے ان کے سفرِ آخرت کو منور کر دیا۔
وہ سرزمینِ حجا ز سے روانہ ہوئے تو اپنے لیے توشۂ آخرت لائے اور میرے لیے تسبیح‘ آبِ زم زم‘ کھجوریں اور جائے نماز۔ ان کے بچوں نے یہ امانت مجھ تک پہنچا دی۔ ان میں سے ہر شے کو اس سرزمین سے نسبت ہے جہاں جگہ جگہ سیدنا ابراہیمؑ اور سیدنا محمدﷺ کی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں۔ یومِ عرفہ کو مجھے پیغام بھیجا کہ میدانِ عرفات میں ہوں اور آپ کے لیے دعاگو ہوں۔ میں اشکبار آنکھوں سے ان چیزوں کو دیکھتا اور سب باتوں کو یاد کرتا ہوں۔ ملک اکبر! اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے وعدے اور ہمارے حسنِ ظن کے مطابق اپنی مغفرت سے نوازے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved