ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پاکستان کو اس الزام کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ ''اس نے اپنی دھرتی پر افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج پر حملے کرنے والے دہشت گردوں کو پناہ گاہیں دے رکھی ہیں‘‘۔ اب پاکستان افغان طالبان پر الزام عائد کر رہا ہے کہ انہوں نے پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ اپنے اس موقف کی تائید میں پاکستان نہ صرف چند بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کا حوالہ دے رہا ہے بلکہ اگست 2021ء میں کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اور ان کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنا اس کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ نہ صرف ان کارروائیوں کی تعداد اور ان کا دائرہ عمل پھیل رہا ہے بلکہ ایک مربوط حکمت عملی کے تحت حملہ آور جدید ترین اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ وہ اسلحہ ہے جو امریکی افواج اگست 2021ء میں افغانستان سے اپنے انخلا کے موقع پر وہاں چھوڑ گئی تھیں۔
12جولائی کو بلوچستان میں ژوب چھاؤنی اور سوئی میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ٹھکانوں پر الگ الگ حملوں میں دہشت گردوں نے رات کی تاریکی میں صاف دیکھنے میں مدد دینے والے آلات اور مہلک ترین ہتھیار استعمال کیے۔ یہ ہتھیار صرف افغانستان میں لڑنے والی امریکی فوج کے استعمال میں تھے۔ امریکیوں نے افغانستان سے جاتے ہوئے ان ہتھیاروں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ پیچھے چھوڑ دیا تھا‘ جو افغان طالبان کے ہاتھ لگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان کے علم اور اجازت کے بغیر یہ ہتھیار کالعدم ٹی ٹی پی کے ہاتھ کیسے لگ سکتے تھے؟ پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردانہ حملوں میں تیزی آئی ہے تو نہ صرف افغان طالبان بلکہ افغانستان کے بارے میں ہماری پالیسی جن مفروضوں اور دعووں پر مبنی تھی‘ وہ ایک ایک کرکے بے نقاب ہو رہے ہیں۔ کابل پر افغان طالبان کے قبضے سے پہلے سرحد پار سے پاکستانی چوکیوں پر کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں کی ذمہ داری سابقہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت پر ڈال دی جاتی تھی لیکن اگست 2021ء کے بعد کے واقعات سے معلوم ہوا کہ افغانستان کی سابقہ حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ان جنگجوئوں کو‘ جو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے آپریشنز سے بچ کر افغانستان میں داخل ہو گئے تھے‘ جیل میں ڈال دیا تھا اور یہ 15اگست 2021ء تک جیلوں میں تھے‘ مگر افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سب سے پہلے کالعدم ٹی ٹی پی کے ان جنگجوئوں کو رہا کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی میں کالعدم ٹی ٹی پی کے یہی جنگجو ملوث ہیں۔ یہ بھی حیرانی کی بات ہے کہ پاکستان کے عوام کو خود افغان طالبان کے ایک اعلان کے ذریعے پہلی دفعہ یہ معلوم ہوا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے جو جنگجو سابقہ افغان حکومت کے قابو میں نہ آ سکے تھے‘ انہوں نے افغان طالبان کی صفوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور تین سال تک ان سے جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت کی فوج کے خلاف جنگ کی تربیت حاصل کرتے رہے تھے۔ اب یہ پوری طرح تربیت یافتہ اور جدید ترین امریکی ہتھیاروں اور افغانستان میں اپنے ٹھکانوں کو آزادی سے استعمال کرنے کی سہولت کے ساتھ پاکستان کے صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں فوجی چھاؤنیوں پر منظم حملے کر رہے ہیں۔ ان حملوں کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پہلے یہ حملے بلوچستان کے پختون علاقوں تک محدود تھے‘ اب ان کا دائرہ بلوچ اکثریت کے علاقوں تک پھیل گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ قوم پرست عناصر نے آپس میں اتحاد کر لیا ہے۔
اگر یہ بات درست ہے تو اسے کالعدم ٹی ٹی پی کی کامیابی سمجھنا چاہیے یا بلوچستان کے مسئلے کے بارے میں پاکستان کی حکومتوں کی پالیسی کی ناکامی؟ کیونکہ نظریاتی طور پر کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ قوم پرستوں کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں۔ اس کے باوجود اگر موجودہ حکومت کے دعوے کے مطابق بلوچ قوم پرست کالعدم ٹی ٹی پی کے سہولت کار بن گئے ہیں تو پوری قوم کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ دہشت گردی کی تازہ ترین لہر کا مرکز بلوچستان کے وہ علاقے ہیں جہاں سے پاک چین اکنامک کوریڈور گزرتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک میں کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا اصل ٹارگٹ کیا ہے۔
پاکستان کے متعلقہ ادارے یقینا ان خطرات سے آگاہ ہوں گے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کا حالیہ دورۂ ایران اور 17جولائی کو منعقد ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان سے اس بارے میں کوئی شک شبہ باقی نہیں رہتا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی اس معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیا اور کابل میں طالبان انتظامیہ پر واضح کر دیا ہے کہ انہیں 2020ء کے دوحہ معاہدے کے تحت افغان سرزمین کو ہمسایہ ممالک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانا پڑے گا اور اگر اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو پاکستان اپنی علاقائی سالمیت اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے ہر قدم اٹھانے پہ تیار ہے۔
ایران کے ساتھ بھی پاکستان کی 900 کلومیٹر سرحد غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے دہشت گردوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر اور خاص طور پر بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات ہونے کے سبب چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کا دورۂ ایران نہ صرف بروقت بلکہ اہم ہے‘ اور ان کے دورے کے دوران ایرانی حکومت سے جو معاہدات ہوئے ہیں‘ ان سے یقینا دونوں ملکوں کی سرحد کے آرپار دہشت گردوں اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کی سرگرمیوں کی روک تھام میں مدد ملے گی‘ لیکن کیا ہمیں صرف اسی پر اکتفا کرنا چاہیے؟ جنگ کوئی بھی ہو‘ اس کے بارے میں بیسویں صدی کے اولین حصے سے تعلق رکھنے والے فرانسیسی سیاستدان اور مدبر جارج کلیمینشیو (George Clemenceau) کا مشہور قول پیش نظر رکھنا چاہیے کہ War is too serious a business to be left to the Generalsکہ جنگ اتنا اہم معاملہ ہے کہ اسے محض جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا ‘ اس کا کنٹرول سیاسی ہاتھوں میں ہونا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر پاپولس اونر شپ‘ جو کہ کسی بھی جدوجہد اور جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے‘ حاصل نہیں ہو سکتی۔
گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران ہماری فوج اور پولیس کے بہادر جوانوں اور افسروں نے جانوں کی قربانی دے کر ملک کی سالمیت اور قوم کی زندگیوں کا تحفظ کیا ہے مگر دہشت گردی ایک ایسی جنگ ہے جو صرف میدانِ جنگ میں نہیں لڑی جاتی بلکہ اس کی بیخ کنی کیلئے لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں لڑنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اتنا خطرہ طالبان سے نہیں جتنا طالبان مائنڈ سیٹ سے ہے جس کے تدارک کی طرف بدقسمتی سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ملک کے بہت سے حلقوں‘ جن میں بعض سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں‘ کو شکایت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ٹرانسپیرنسی کے چند مسائل کی شکار ہے۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے نہ تو طاقت کے استعمال سے اور نہ ہی کسی بیرونی امداد سے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ امید ہے کہ دو تین ماہ بعد ہونے والے انتخابات اس طریقے سے منعقد ہوں گے کہ اس سے ملک کو درپیش سیاسی مسئلہ حل ہو گا اور ایک ایسی سیاسی قیادت ابھرے گی جو عوام کے مینڈیٹ کی بنیاد پر پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے مسئلے سے ہمیشہ کے لیے نجات دلائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved