اونچی اُڑان کے سپنے دیکھنا ہر پرندے کی عادت اور مقدر ہے۔ کیا یہ معاملہ صرف پرندوں تک محدود ہے؟ شواہد بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ پرندوں کو پَر عطا کیے گئے ہیں اور اُڑنے کا ذوق و شوق بھی۔ ہر پرندے کی اُڑان ایک خاص فضا میں اور ایک خاص حد تک ہے۔ اُس حد سے اور قدرت کی عطا کردہ تیز ترین رفتار سے آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ پھر بھی پرندے بہت اونچا اُڑنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ انسانوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ پَر عطا نہیں کیے گئے تو کیا ہوا؟ اُڑنے کا سوچنے اور بہت اونچا اُڑنے کی خواہش کو پروان چڑھانے پر تو کوئی پابندی نہیں اور اِس میں جیب سے کچھ لگتا بھی تو نہیں! کبھی آپ نے کسی کو خواب دیکھنے کی قیمت ادا کرتے دیکھا ہے؟ اگر خواب دیکھنے کی قیمت ادا کرنا پڑے تو لوگ رات رات بھر جاگتے رہیں کہ نہ آنکھ لگے گی، نہ خواب دکھائی دے گا اور نہ کچھ ادا کرنا پڑے گا۔
اونچی اُڑان ہر انسان کا خواب ہے۔ ہر انسان زیادہ سے زیادہ اور بے مثال نوعیت کی کامیابی یقینی بنانا چاہتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ کامیابی کے بارے میں سوچنے میں بظاہر کوئی قباحت نہیں۔ اگر کامیابی کا سوچا ہی نہیں جائے گا تو وہ حاصل کیونکر کی جاسکے گی؟ اپنے پسندیدہ شعبے میں شاندار کامیابی یقینی بنانے کی خواہش چونکہ ہر انسان کے دل میں ہوتی ہے اس لیے ہمیں معاشرے میں ہر طرف مساعی دکھائی دیتی ہیں۔ لوگ کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہتے ہیں۔ زندگی عمل سے عبارت ہے۔ فکر اپنی جگہ اور عمل اپنی جگہ۔ جن میں زیادہ جوش ہوتا ہے وہ زیادہ تیزی سے اور زیادہ لگن کے ساتھ متحرک رہتے ہیں۔ اُن کے شب و روز الگ ہی دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی بھی اُنہیں آسانی سے شناخت کرسکتا ہے۔ ایسے لوگ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ اُنہیں عمل پسند رویے کی بدولت ہر وقت متحرک دیکھا جاسکتا ہے۔ اُن کی سوچ مثبت ہوتی ہے۔ یہ سوچ اُنہیں راہِ راست پر رکھتی ہے۔ وہ اپنے مقاصد اور اہداف کو ہمیشہ نظر میں رکھتے ہیں۔ محض خوش گمانی کا جھولا جھولتے رہنے سے اُنہیں کچھ خاص غرض نہیں ہوتی۔
جو بہت اونچا اُڑنا چاہتے ہیں اُنہیں مضبوط پَروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ پَروں کی مضبوطی انسان کا حوصلہ بڑھاتی رہتی ہے۔ وہ فضا میں اپنے لیے زیادہ گنجائش پاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پَروں کی مضبوطی کیسے بڑھائی جائے۔ کسی بھی انسان کو اعلیٰ تر زندگی بسر کرنے کے لیے جو کچھ بھی درکار ہوتا ہے وہ کہیں سے پیکیج کی شکل میں نہیں ملتا۔ بہت کچھ حاصل کرنا پڑتا ہے اور پھر اُسے اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا بھی پڑتا ہے۔ زندگی ہمیں بہت کچھ دیتی ہے مگر اُس کا بڑا حصہ خام مال کی شکل میں ہوتا ہے۔ خام مال سے مصنوعات تیار کرنے کے مرحلے سے ہمیں گزرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ یہ سب کچھ چند افراد کے لیے نہیں ہوتا۔ کسی کے لیے قدرت کی طرف سے کوئی رعایت نہیں رکھی گئی۔ زندگی کے بارے میں بھرپور سنجیدگی پر مبنی رویہ اپنانے سے کسی بھی طرح کا استثنا کسی کے لیے نہیں۔ شاندار کامیابی یقینی بنانے کے لیے جو کچھ بھی کرنا ہوتا ہے وہ سبھی کو کرنا ہوتا ہے۔ کامیاب ترین انسانوں کے شب و روز کا جائزہ لینے سے آپ کو اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی کامیابی یقینی بنانے اور پھر اُسے برقرار رکھنے کے لیے کتنی محنت کرتے ہیں، کیا کیا جھیلتے ہیں۔
اونچی اُڑان کے لیے اونچی سوچ ناگزیر ہے۔ زمین پر چلتے رہنے کی نیت کے ساتھ جینے والے کبھی نہیں اُڑ سکتے۔ محض اُڑان کافی نہیں ہوا کرتی بلکہ اونچی اُڑان ہی کچھ معنی رکھتی ہے۔ اب یہ تو طے ہے کہ کوئی محض سوچنے سے اونچا نہیں اُڑتا‘ اِس کے لیے تیاری کرنا پڑتی ہے۔ سوال خواہش کا بھی ہے اور مقصد و لگن کا بھی۔ اگر کوئی اونچا اُڑنے کا محض خواہش مند ہو تو بات نہیں بنتی۔ خواہش کی منزل تک تو سبھی پہنچتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ بھی خواہش کے درجے میں ہے اُسے حقیقت کا روپ دینے کی تیاری کرنے کے بارے میں بھی سوچا جارہا ہے یا نہیں۔ اس کائنات کا یہ اصول نہیں ہے کہ کسی کو محض خواہش کی بنیاد پر نواز دیا جائے۔ انسان کے دل میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اُسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے فکر و عمل کے مرحلے سے لازمی طور پر گزرنا پڑتا ہے۔ اگر ایسا کرنا ناگزیر نہ ہو تو بھری دنیا میں کوئی ایک بھی انسان ناکام دکھائی نہ دے۔ محض خواہش کی بنیاد پر کامیابی ملنے لگے تو پھر کسی کو کسی بھی درجے میں محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
ہم دیکھ چکے ہیں کہ زندگی کا معیار بلند کرنا ہو تو بہت کچھ سوچنا اور کرنا پڑتا ہے۔ خواہش سے کہیں زیادہ اہمیت حقیقت پسندی پر مبنی سنجیدگی اور لگن کی ہے۔ جو لوگ اونچی اُڑان بھرنا چاہتے ہیں وہ اوائلِ عمر میں بہت کچھ طے کر لیتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں بہت آگے جانے کے لیے انسان کو خاصی چھوٹی عمر سے تیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ والدین اور خاندان کے بزرگوں کے ساتھ ساتھ متعلقہ شعبوں کے بڑوں کا بھی اخلاقی فریضہ ہے۔ عملی زندگی کے لیے ناگزیر سمجھی جانے والی دانش بھی یہی کہتی ہے۔ کسی بھی شعبے کو تر و تازہ رکھنے کے لیے تازہ خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ لازم ہے کہ اُس شعبے میں غیر معمولی حیثیت کے حامل افراد نئی نسل کو اِس طرف لانے کے لیے کوشاں رہیں اور اُنہیں امکانات کے بارے میں بتاتے رہیں تاکہ وہ مثبت سوچ کے ساتھ زیادہ اور انوکھی طرز کی محنت کرنے کی تحریک پاتے رہیں۔
اونچی اُڑان یعنی بلند معیارِ زندگی۔ اس کے لیے کی جانے والی تیاریوں میں سب سے تو عزم آتا ہے۔ عزم محکم نہ ہو تو انسان زیادہ دور تک چل نہیں پاتا۔ پھر یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ صلاحیت و سکت کتنی ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ کسی شعبے کے لیے درکار قابلیت ہوتی ہے نہ توانائی مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ بننے اور اونچا اُڑنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ غلط روش ہے۔ اِس روش پر گامزن رہنے سے انسان اپنا نقصان ہی کرتا رہتا ہے۔
کسی بھی شعبے میں کچھ بننے کے لیے انسان کو پہلے مرحلے میں سوچ بلند رکھنا پڑتی ہے۔ اونچی سوچ خود بخود پیدا نہیں ہو جاتی۔ ایسی سوچ کو پیدا کرکے پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ والدین اور خاندان کے بزرگ بچوں کو سوچنے کے معاملے میں بلندی پر رہنا سکھا سکتے ہیں۔ یہ کوئی ناممکن بات نہیں‘ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔ ہر معاشرے میں‘ معاشرے کے ہر طبقے میں بلند سوچ اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب چھوٹی عمر سے تربیت کی گئی ہو، والدین اور خاندان کے بزرگوں نے ذہن اچھی طرح تیار کیا ہو، بچوں کو سوچنے ہی پر مائل نہ کیا ہو بلکہ بلند سوچنا بھی سکھایا ہو۔ بلند ہونے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ''ایئر فورس ون‘‘ میں ہائی جیکرز کے سرغنہ کو جب وائٹ ہائوس سے بتایا جاتا ہے کہ امریکی صدر کے ہائی جیک کیے ہوئے طیارے کو پرواز کے دوران ایندھن فراہم نہیں کیا جاسکتا تو وہ کہتا ہے ''یہ تو بالکل سادہ سی فزکس ہے۔ ایندھن کے بغیر طیارہ گر جاتا ہے!‘‘
ایک طیارے پر کیا موقوف ہے، ہر معاملے میں حقیقت اِتنی ہی سادہ ہوا کرتی ہے۔ کسی بھی معاملے کی تہہ میں اُتر کر دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ باہر سے معاملہ کچھ بھی دکھائی دیتا ہو، اندرونی سطح پر تو سب کچھ یکساں نوعیت ہی کا ہے۔ اگر کسی کو عمومی سطح سے بلند ہونا ہے تو بہت کچھ سوچنا اور سیکھنا پڑے گا، بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ ایسا کیے بغیر چارہ نہیں۔ کھیلوں کو دیکھیے، اداکاری کو لیجیے، گلوکاری کا جائزہ لیجیے، کاروباری دنیا پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے‘ ہر جگہ آپ کو ایک ہی آفاقی اصول کارگر دکھائی دے گا‘ یہ کہ کچھ کرنا ہے تو بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ لیاقت، سکت اور محنت‘ تینوں کے حسین اور متوازن ملاپ ہی سے کچھ ہو پاتا ہے۔ اونچا اڑنے کے بارے میں سوچنا ہم سب کا معاملہ ہے مگر اونچی اُڑان کے تقاضوں کو نبھانے کے بارے میں سوچنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ساری خرابیاں اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب اونچا اُڑنے کا سوچنے کے بعد اُڑنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے بارے میں سوچنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اور کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ پَر تو مل جاتے ہیں مگر اُڑنے کی ہمت ہی پیدا نہیں ہو پاتی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved