پاکستانی سیاست میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو ہوتا چلا آیا ہے‘اس میں بہت کچھ نیا ہونے کے باوجود بہت کچھ نیا نہیں ہے۔ نام نئے ہو سکتے ہیں لیکن کام نئے نہیں ہیں۔اقتدار میں آنے اور اقتدار سے جانے والے ایک دوسرے سے جتنے بھی مختلف ہوں‘ان کے نعرے اور دعوے جتنے بھی الگ الگ ہوں‘تبدیلی کے خواب جو بھی دیکھے اور دکھائے جا رہے ہیں‘ پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔پاکستان شاید کیا یقینا ایسا واحد ملک ہے‘ جس کے دو باشندے اگر بیرون ملک بھی ایک دوسرے سے ملیں‘تو یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ حکومت کا کیا بنے گا؟ یہ کب جا رہی ہے؟ اکثر بات اس سے آگے بھی بڑھ جاتی ہے‘اور حکومت کے ساتھ ساتھ ملک کے مستقبل پر بھی سوالات شروع ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی مہذب (یا غیر مہذب) ملک میں چلے جائیں‘یہ سوال کہیں شاید ہی زیر بحث آتا ہو۔ افریقہ کے چند ممالک کو استثنیٰ دیا جا سکتا ہے‘ لیکن باقی دنیا میں کہیں بھی قدم رکھ لیں‘سیاست اور ریاست کے بارے میں وہ تشویش نہیں پائی جاتی‘جو پاکستان کے رہنے والوں کو لاحق رہتی ہے۔بیرون ملک بس جانے والوں کو بھی یہ عارضہ ہے۔کسی بھی ملک کے باسی جو سمندر پار جا بسے ہوں‘ امریکہ یا یورپ کے کسی ملک کو اپنا وطن بنا چکے ہوں یا روز گار کے حوالے سے وہاں قیام پر مجبور ہوں‘ بٹے ہوئے نظر نہیں آتے۔ان میں سے جو دوسرے (کسی) ملک کی شہریت لے چکے ہوں‘ وہ نئے ملک کے معاملات میں سرگرم تو دکھائی دے سکتے ہیں‘اپنے آبائی وطن کی سیاست میں شرابور دکھائی نہیں دیتے۔امریکہ کی نائب صدر اور برطانیہ کے وزیراعظم بھارتی نژاد ہیں لیکن امریکہ اور برطانیہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہیں‘انہیں مودی یا راہول کی سرگرمیوں سے کوئی لینا دینا نہیں جبکہ پاکستانی نژاد امریکی ہوں یا برطانوی‘وہ اپنی مختلف جماعتوں کی محبت میں قید نظر آتے ہیں‘تحریک انصاف‘ مسلم لیگ(ن)‘ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم وغیرہ وغیرہ کے حوالے سے برسر پیکار رہتے ہیں۔ امریکہ یا یورپ میں کانگریس‘ بی جے پی‘ عوامی لیگ یا بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی کوئی شاخ دکھائی نہیں دیتی جبکہ پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کی باقاعدہ شاخیں دنیا بھر میں موجود ہیں‘اور ان کے متعلقین ایک دوسرے کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پاکستانی ریاست کو اپنی اپنی جماعت کے حوالے سے جانا اور پرکھا جاتا ہے۔عمران خان کے حامی ان کی محبت میں اور اُن کے مخالف ان کی نفرت میں مبتلا ہو کر ایسی ایسی حرکتیں کر گزرتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے کا ہم وطن سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
بھارت نے تو دہری شہریت کا طوطا پالا ہی نہیں ہے۔اُس کا کوئی باشندہ جب کسی دوسرے ملک کی شہریت قبول کر لیتا ہے تو وہ بھارت کا شہری نہیں رہتا۔اُسے اپنے متروک وطن کے حوالے سے چند مراعات حاصل رہتی ہیں‘ لیکن ایک شہری کے طور پر اُس کے حقوق ختم ہو جاتے ہیں۔پاکستان نے کئی ممالک کے ساتھ دہری شہریت کے معاہدے کر رکھے ہیں‘دولت مشترکہ کے علاوہ بھی کئی ملک ایسے ہیں جن کی شہریت اختیار کر کے آپ کی پاکستانیت برقرار رہتی ہے۔ جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے‘ذوالفقار علی بھٹو مرحوم پہلے سیاسی رہنما تھے جنہوں نے بیرون ملک پیپلزپارٹی کی سیاست کا آغاز کیا تھا۔اس کی شاخیں قائم ہوئیں‘ اور پاکستانی سیاست نے اوورسیز پاکستانیوں میں پھلنا پھولنا شروع کیا۔ بعدازاں دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی اسے اپنایا‘ اور اس کا پھل کھایا۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی جماعتوں کو توانا کیا‘ وہ ان کی تجوریاں بھرتے چلے گئے‘ اور تو اور مذہبی جماعتوں اور مسالک نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے‘اور غیر ملکی زرِمبادلہ سے لدے پھندے نظر آئے۔
آئین اور قانون کی رُو سے ایک پاکستانی دہری شہریت رکھ سکتا ہے۔ ایک زمانے میں منتخب اداروں میں پہنچنے اور حکومتی ذمہ داریاں سنبھالنے پر بھی کوئی قدغن نہیں تھی‘لیکن بعدازاں ووٹ دینے کا حق تو برقرار رہا لیکن لینے کا حق ساقط کر دیا گیا۔ انتخاب میں ووٹ ڈالا تو جا سکتا تھا‘لیکن امیدوار نہیں بنا جا سکتا تھا اس کے لیے دہری شہریت سے دستبردار ہونا پڑتا تھا (یہ پابندی مجھے تو آئین کی روح کی خلاف ورزی دکھائی دیتی ہے کہ دہری شہریت کا حق دینے کے بعد کسی شہری کے حقوق کو محدود کرنا ایک کھلا تضاد ہے)۔اب ترمیم یہ کی گئی ہے کہ انتخاب میں حصہ لینے کے لیے دہری شہریت سے دستبرداری لازم نہیں ہے لیکن کامیابی نصیب ہو جائے تو منتخب ایوان میں داخل ہونے سے پہلے دستبرداری ضروری ہے۔اوورسیز پاکستانیوں نے یہ کڑوا گھونٹ پی تو لیا ہے‘ لیکن وہ اس پر دل سے خوش نہیں ہیں۔برطانیہ یا امریکہ میں رہنے والے کسی پاکستانی نژاد پر یہ پابندی عائد نہیں ہے۔وہاں کسی منتخب ایوان کا رکن بننے کے لیے پاکستانی شہریت سے دستبرداری اختیار نہیں کرنا پڑتی‘ اوورسیز پاکستانی اسی طرح کی توقع پاکستان سے رکھتے ہیں۔اکثر کی شدید خواہش ہے کہ وہ اپنے نئے ملک میں بیٹھے ہوئے پاکستانی انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کر لیں۔ آن لائن ووٹنگ کی ابھی تک کوئی محفوظ صورت ممکن نہیں ہوئی‘اس لیے پاکستانی سیاست اور عدالت میں بار بار یہ سوال اٹھتا تو ہے لیکن اس کا (سب کے لیے) کوئی قابل ِ قبول حل دریافت نہیں ہو پایا۔
سیاست میں جو تفریق اور محاذ آرائی پاکستان میں دیکھی جا رہی ہے‘ اس سے کہیں بڑھ کر سمندر پار نظر آتی ہے۔اکثر مقامات پر پاکستانی ایک دوسرے کے خلاف نعرہ زن ہیں‘اور اپنی اپنی جماعت کا جھنڈا گاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دہری شہریت کا حق ختم کرنا یا بیرونِ ملک پاکستانی سیاست کو محدود کرنا تو آسان نہیں ہو گا۔اوورسیز پاکستانی امریکہ اور یورپ کی سیاسی اقدار کو اگر پاکستان برآمد کرنے کی کوشش کریں‘ تو پاکستان کے اندر جاری ''خانہ جنگی‘‘ پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے مگر وہ اس طرف متوجہ ہونے کے بجائے پاکستانی سیاست کی آلودگی درآمد کرنے میں لگے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں آج تحریک انصاف نشانے پر ہے۔ اس کے بڑے بڑے رہنما اسے چھوڑتے جا رہے ہیں۔اس کی کوکھ سے دو سیاسی جماعتیں تو باقاعدہ جنم لے چکی ہیں۔عمران خان کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے۔ قریبی ساتھی ان کے خلاف شہادتیں دے رہے ہیں۔ان کے پرنسپل سیکرٹری کے بیانات فضا میں چھائے ہوئے ہیں۔سائفر‘توشہ خانہ‘ القادر ٹرسٹ کے حوالے سے مقدمات بن رہے ہیں۔ گرفتاری اور نااہلی کے اشارے مل رہے ہیں۔حکومت اپنی مدت پوری کرنے والی ہے‘ نئے انتخابات کی آمد آمد ہے‘ لیکن سب کچھ واضح ہونے کے باوجود کچھ بھی واضح نہیں ہو رہا‘دھند چھائی ہوئی ہے‘اندھا دھند ڈرائیونگ کرنے والوں کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے‘ اور وہ دوسروں کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں اس طرف کسی کی نظر نہیں اُٹھ رہی۔سمندر پار پاکستانی بھائی اگر پاکستانی سیاست کو اپنے ممالک میں درآمد کرنے کے بجائے تحمل‘ بردباری اور برداشت کی کرنسی بھی پاکستان ارسال کرنا شروع کر دیں‘تو پاکستانی معیشت بھی سنبھل جائے گی‘ اور سیاست بھی۔ نیو یارک کے برادرم ذاکر نسیم سے لے کر لندن‘ آسٹریلیا اور کینیڈا کے جناب الف‘ب جیم تک یہ تجربہ کر کے تو دیکھیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved