ہانکا اگلے مرحلے میں پہنچ چکا ہے ۔شکاریوں کو پتہ ہے کہ کن کو ہرگز بچنا نہیں ہے اورکن کو بچ نکلنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ گھیرا سب سے تنگ کس جگہ ہوگااور کب موقع آئے گا جب وہ تیر چلاسکیں ؟انہیں جلدی کوئی نہیں ہے ‘ ابھی وقت ہے ۔بس یہ فکر ہے کہ ہانکا کامیاب ہو اور مطلوبہ شکار بچ کر جا نہ سکے ۔انہیں چھوٹے شکار کی زیادہ فکر نہیں ‘البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ ہانکے میں پوری مدد کرسکیں ۔چھوٹے شکاروں کو بھی علم ہے کہ اگرچہ انہیں زخمی کیا جاسکتا ہے لیکن اصل ہدف وہ نہیں ہیں۔
یہ وقت بھی آنا تھا کہ کالم میں کوئی عام سا لفظ لکھتے ہوئے بھی بہت سوچنا پڑتا ہے کہ یہ لفظ بہت سے قارئین سمجھیں گے بھی یا نہیں ؟اردو دانی کا یہ حال ہوچکا ہے کہ عام سے کسی لفظ یا اصطلاح کے بارے میں خاص طور پر نوجوان نسل کچھ بھی نہیں جانتی۔ کالم کا موضوع تو کچھ اور ہے لیکن اس پر ماتم کیے بغیر نہیں رہاجاسکتا کہ ہر گزرتے دن ایک عام آدمی کا اردو زبان کاذخیرۂ الفاظ مزید کم ہوتا ہے۔فرض کیجیے اگر ہم سے اوپر کی نسل کا ذخیرۂ الفاظ دس ہزار الفاظ تھا اور وہ اس میں لکھتی پڑھتی اور بولتی تھی تو ہمارا ذخیرہ سات آٹھ ہزار سے زیادہ نہیں۔ اور ہمارے بعد کی نسل اوراس کے بعد کی نسل دو تین ہزار الفاظ بھی بول‘سمجھ اور لکھ سکے تو بڑی بات ہوگی۔ قصور ہم لکھنے والوں کا بھی ہے کہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اسی دائرے کے الفاظ استعمال کیے جائیں جو سب کی سمجھ میں آجائیں ۔ اب ہم انہی منتخب الفاظ میں اپنی تحریریں لکھتے ہیں اور آئندہ دس پندرہ برس میں یہ انتخاب ایک ڈیڑھ ہزار لفظو ں تک رہ جائے گا۔
لغت ''ہانکے‘‘ کا مفہوم اس طرح بیان کرتی ہے ۔شکاریوں کابنایا ہوا وہ گھیرا جس میں شکار کو شور مچا کر ‘پناہ گاہ سے باہر نکال کر ‘ ہانک کر ایک مقرر جگہ پر لایا جاتا ہے جہاں اسے شکار کیا جاسکے۔بھگایا جانا‘ہنکایا جانا۔ ویسے تو ہرن وغیرہ کے شکار کے لیے بھی ‘لیکن بڑے مثلاً شیر کے شکار کے لیے یہ معروف طریقۂ کار تھا۔مغل بادشاہوں کی طرح شہنشاہ جہانگیر بھی شکار کا بہت شوقین تھا ۔اس کی خود نوشت سوانح تزک ِجہانگیری میں جابجا اس شوق کا اظہار ملتا ہے ۔لاہور کے قریب تاریخی شہر شیخوپورہ ‘جس کا نام ہی جہانگیر کے بچپن کے نام'' شیخو‘‘ پر رکھا گیا تھا‘ شاہی شکار گاہوں میں سے ایک تھی ۔ یہ علاقہ گھنے جنگلات اور ہر قسم کے جانوروں سے بھرا ہوا تھا۔ آج تک شیخوپورہ میں ''ہرن مینار‘‘ جہانگیر کے اس شوق کی نشانی ہے ۔
ہاں تو بات ہانکے کی تھی ۔عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے روپوشی کے بعد چہرہ نمائی کی اور سائفر کے معاملے پر اپنا بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کروایا‘جو تمام تر عمران خان کے خلاف ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سازش کے نام پر عمران خان نے سیاسی کھیل کھیلااور سائفر کی خفیہ کاپی بھی واپس نہیں کی جو سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ سائفر کی تحقیقات پر ایک جے آئی ٹی عمران خان ‘شاہ محمود قریشی ‘اسد عمر کو طلب کرچکی ہے۔ایسے میں یہ بیان نہایت اہم ہے ۔پی ٹی آئی نے تو حسبِ توقع اعظم خان کے اس بیان کو رد کردیا ہے اور اعظم خان کی پراسرار روپوشی پر سوال اٹھائے ہیں۔ خان صاحب نے اعلان کیا کہ وہ سائفرکے معاملات پر ایسے حقائق قوم کے سامنے رکھنے والے ہیں جن سے لوگ سنسنی خیز ڈراموں کو بھول جائیں گے ۔ یہ بیان 20 جولائی کو سوشل میڈیا وڈیو کے ذریعے سامنے آیا ۔پہلی بات تو یہ کہ اس خطاب میں کوئی بھی ایسا سنسنی خیز انکشاف نہیں جس کا دعویٰ کیا جارہا تھا۔ تمام تر باتیں سنی سنائی اور پڑھی پڑھائی تھیں۔ کوئی ایک بات بھی نئی نہیں۔ سوائے اس بیان کے کہ یہ سائفر دراصل تھا ہی جنرل باجوہ کے لیے۔ سبحان اللہ ! گویا امریکیوں کو جنرل باجوہ کو یہ پیغام دینے کے لیے سفیر کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آیا ۔ خان صاحب کا معاملہ اب یہ ہے کہ ان کے بیانیے کو موٹی ‘ درمیانی اور باریک چھلنیوں سے اتنی بار گزار نا پڑتا ہے کہ باقی کچھ بچتا ہی نہیں ۔ اگر کوئی آدمی یہ طے کرکے بیٹھ جائے کہ کروڑوں کے اس ملک میں اہم ترین افراد کے بیچ ایک ہی شخص سچا ہے‘ ایک ہی محب الوطن ہے ‘ ایک ہی ملک و قوم کی بھلائی چاہنے والا ہے اور ایک ہی سیاستدان ہے جس کی سچائی اور دیانت کی وجہ سے باقی تمام لوگ اس کے خلاف ہوگئے ہیں ‘تو پھر یقیناـ خان صاحب کی باتیں درست سمجھی جاسکتی ہیں۔لیکن جو بھی شخص خان صاحب کی کہہ مکرنیوں کو دیکھتا رہا ہے اسے لازماًـ ــیہ سب چھلنیاں استعمال کرنی پڑتی ہیں ۔ اور وہ بھی اس لیے کہ کسی بات میں خان صاحب کے ساتھ زیادتی نہ ہوجائے کیونکہ ''جان اللہ کو دینی ہے ‘‘۔سائفر کے معاملے میں امریکی سازش کابیانیہ پہلے ہی اسد مجید ‘ڈی جی آئی ایس پی آر‘اعظم خان اور دیگر اہم لوگ رد کرچکے ہیں‘بلکہ معاملے کی نزاکت دیکھ کر خود خان صاحب بھی اس سے منہ موڑ چکے ہیں لیکن جو باتیں حقیقت نظر آتی ہیں ان میں امریکی حکومت کا پاکستان اور عمران خان سے بوجوہ خوش نہ ہونا‘روسی دورے پر ناراض ہونااور ملاقات میں سخت زبان استعمال کرنا واضح ہے ۔یہ باتیں اسد مجید کے مطابق ڈی مارش کی متقاضی تھیں جو حکومت پاکستان کی طرف سے دے دیا گیا۔لیکن یہ بالکل جھوٹ لگتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد اس بنیاد پر ہوئی ۔ یہ واضح ہے کہ جنرل باجوہ اور ان کے ساتھی پہلے ہی عمران خان کے مزاج اور طرز ِحکمرانی سے دل برداشتہ تھے ۔ان کی گورننس خلافِ توقع تھی اور قومی اسمبلی میں خان صاحب کی اکثریت بمشکل چند لوگوں پر قائم تھی۔ وہ بھی سہارے پر ۔ جب یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ یہ سہارا اب مزید نہیں دیا جائے گا اور مخالفین کو بھی یہ علم ہوگیا تو باقی کام سیاستدان بآسانی کرسکتے تھے۔ بہت بار کرتے آئے تھے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ دورِ اقتدار میں خان صاحب سے ان کے اتحادی تو الگ رہے ‘پی ٹی آئی کے اراکین اور بڑے رہنما بھی خوش نہیں تھے۔تاش کا ایک پتہ گرا تو اپنے ساتھ قطار میں ایک دوسرے کے سہارے کھڑے پتوں کو بھی لے گرا۔خان صاحب بطور مدبر اور سیاستدان اسے سنبھالنے میں ناکام رہے تو یہ ان کی اپنی غلطیاں تھیں۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ جن سہاروں نے انہیں 2018 ء میں کرسی تک پہنچایا و ہ محض ساڑھے تین سال میں ان سے دل برداشتہ کیوں ہو گئے؟کیا اس سوال پر خان صاحب نے کبھی غور کیا یا ان کی اَنانیت نے انہیں کبھی یہ موقع نہیں دیا؟
سوال اور بھی ہیں۔ اعظم خان کیوں روپوش ہوئے؟کیا انہیں عمران خان کے مخالفین سے خطرہ تھا یا خود پی ٹی آئی سے ۔ایک اہم گواہ کو کھو دینا یا اس کاسکوت اختیار کرلینا مخالفین کے لیے بھی اہم تھا او رپی ٹی آئی کے لیے بھی ۔سوال یہ بھی ہے کہ سائفر کی کاپی جو خان صاحب کے بیان کے مطابق گم ہوگئی ‘چیف جسٹس کو کیسے بھجوائی گئی؟کیا یہ نقل کی ایک اور نقل تھی؟ اور کیا ایسی خفیہ دستاویز کو وہ عدالت بھیجنے کے مجاز تھے ؟اس گم شدہ کاپی کے بارے میں خان صاحب نے سرے سے کوئی بات نہیں کی‘ نہ سیکرٹ ایکٹ کی اس خلاف ورزی پر جس میں کوئی ایسی دستاویز پبلک نہیں کی جاسکتی نہ اس سے سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ خان صاحب نے ان اہم سوالات کا جواب کیوں نہیں دیا؟
تمام خطاب میں خان صاحب کی ایک بات درست لگتی ہے اور وہ یہ کہ روس کا دورہ صرف ان کی اپنی مرضی سے نہیں تمام متعلقہ اداروں کی رضا مندی سے ہوا تھا۔ امریکہ کی ناراضی بھی سمجھ آتی ہے لیکن اس فیصلے میں خان صاحب اکیلے شامل نہیں تھے۔ پاکستان امریکی دباؤ کو ماضی میں موقع محل کی مناسبت اور نزاکت دیکھتے ہوئے دانش مندی سے سنبھالتا رہا ہے۔ اس لیے یہ بھی کوئی دلیل نہیں ۔دیکھیے شاہ محمود اور اسد عمر اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔خان صاحب کے اس خطاب میں تو کوئی خاص سنسنی دکھائی نہیں دی لیکن آئندہ دن شاید سنسنی خیز ثابت ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved