تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     23-07-2023

معاشی مسابقت اور پاکستان

بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ دونوں معاشی اعتبار سے تقریباً برابر تھے بلکہ آزادی کے ابتدائی برسوں میں پاکستانی معیشت بھارت کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔ لیکن آج حالات مختلف ہیں۔ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور پاکستانی پاسپورٹ دنیا کا چوتھا بدترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے۔ صرف افغانستان‘ عراق اور شام کے پاسپورٹ پاکستان کی نسبت کمزور ہیں۔ سوڈان اور یمن کے پاسپورٹ بھی پاکستان سے بہتر ہیں۔ بھارت سے متعلق ہمیشہ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہاں غربت پاکستان کی نسبت زیادہ ہے لیکن حالیہ برسوں کے دوران بھارت اس بحران پر قابو پانے کیلئے درست راستے پر گامزن ہو چکا ہے۔ بھارتی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق 2016-21ء تک پانچ برسوں کے دوران بھارت کی لگ بھگ 135ملین یعنی تقریباً 10فیصد آبادی غربت کے چنگل سے آزاد ہوئی۔ اس مطالعاتی جائزے میں اقوام متحدہ کے ''ملٹی ڈائمینشنل پاورٹی انڈیکس‘‘ یعنی غربت کے کثیر جہتی پیمانے کا استعمال کیا گیا جس میں غذائیت‘ تعلیم اور صفائی جیسے 12شعبوں کو بنیاد بنایا گیا۔ جائزے میں تین یا اس سے زیادہ شعبوں سے متعلق ضروریاتِ زندگی سے محروم لوگوں کو ''ایم پی آئی غریب‘‘ کے زمرے میں شمار کیا گیا۔ غذائیت‘ تعلیم‘ صفائی ستھرائی اور کھانا پکانے کے ایندھن میں بہتری نے غربت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی اس ماہ جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کثیر جہتی غربت میں رہنے والے لوگوں کی شرح جو 2005ء میں 55فیصد تھی 2021ء میں کم ہو کر بھارت کی آبادی کا 16.4فیصد رہ گئی تھی۔ 2021ء میں بھارت میں آمدنی کی کم سے کم حد یعنی 2.15ڈالر یومیہ سے کم کمانے والے لوگوں کی تعداد گھٹ کر 10فیصد رہ گئی ہے۔ بھارت کی وفاقی حکومت تقریباً 800ملین لوگوں کو مفت خوراک فراہم کرتی ہے جو ملک کی 1.4ارب آبادی کا تقریباً 57فیصد ہے جبکہ ریاستیں تعلیم‘ صحت‘ بجلی اور دیگر سہولیات کی مالی معاونت پر اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ جس ریاست میں سب سے زیادہ لوگ غربت سے باہر نکلے وہ اتر پردیش ہے‘ دوسرے نمبر پر بہار اور تیسرے نمبر پر ریاست مدھیہ پردیش ہے۔ تعلیم اور صحت کا نظام بہتر کرنے سے شیرخوار بچوں اور زچگی کی شرحِ اموات میں 1982ء کے بعد سے کمی آئی ہے اور بھارت کی معیشت ترقی کرکے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گئی ہے۔ لیکن بہت سے شہروں میں اب بھی لوگ پانی کی قلت‘ فضائی و آبی آلودگی کا شکار ہیں اور وسائل کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق بھارت میں 15سے 24سال کی عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح گزشتہ سال 23.2فیصد رہی۔ اندازوں کے مطابق اہم تشویش یہ ہے کہ بھارت جب تک ایک امیر ملک بنے گا‘ اس کی آبادی بوڑھی ہو جائے گی۔ اس کو روکنے کے لیے لوگوں کو ہنر مند بنانے اور ایک بہت بڑی نوجوان آبادی کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو اپنی طاقت سمجھتا ہے۔ وہ دنیا کی ایک بڑی مارکیٹ بن گیا ہے جو تمام بڑے ملکوں کی توجہ کا مرکز ہے اور ہر دوسرا ملک اپنی پروڈکٹس یہاں بیچنا چاہتا ہے۔ حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے امریکہ کے دورے کا مقصد تجارتی اور دفاعی معاہدوں کے علاوہ سرمایہ کاروں کو اپنی ملکی منڈی کی طرف راغب کرنا بھی تھا۔
ہندوستان نے حال ہی میں متحدہ عرب امارت سے ڈالر کے بجائے بھارتی روپے میں تجارت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ نریندر مودی کے یو اے ای کے دورے کے دوران دونوں ممالک نے سرحد پار سے رقم کی منتقلی کو آسان بنانے کے لیے ریئل ٹائم ادائیگی کا لنک قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ معاہدے سے سرحد پار ہموار لین دین و ادائیگیوں اور زیادہ اقتصادی تعاون کو فروغ مل سکتا ہے۔ بھارت دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک اور صارف ہے۔ اس کے مرکزی بینک نے گزشتہ سال عالمی تجارت کو روپوں میں طے کرنے کے لیے ایک فریم ورک کا اعلان کیا تھا فی الحال بھارت متحدہ عرب امارات کے تیل کی ادائیگی ڈالر میں کرتا ہے۔ اپریل 2022ء سے مارچ 2023ء تک دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 84ارب 50کروڑ ڈالر تھا۔ بھارت‘ متحدہ عرب امارات کے تیل کے لیے ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی (ایڈناک) کو روپے میں اپنی پہلی ادائیگی کر سکتا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے کہا کہ دونوں مرکزی بینکوں نے بھارت کے یونیفائیڈ پیمنٹس انٹرفیس (یو پی آئی) اور متحدہ عرب امارات کے فوری ادائیگی پلیٹ فارم (آئی پی پی) کو منسلک کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے علاوہ قطر میں بھی ڈالرز کے بجائے بھارتی کرنسی میں خریدو فروخت ہو سکتی ہے۔ لیکن پاکستانی کرنسی کو افغانستان میں بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مستقبل میں پاکستان بھارت کی طرح ترقی کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر آئی ٹی کے شعبے پر نظر دوڑائی جائے تو یہ کہنا مناسب ہو گا کہ پاکستان آئی ٹی سیکٹر میں بھارت کی نسبت زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر سکتا ہے۔ 2019ء سے 2022ء تک پاکستان نے آئی ٹی سیکٹر میں 177فیصد گروتھ دکھائی۔ پچھلے ایک سال کے معاشی بحران کے باوجود آئی ٹی ایکسپورٹ اڑھائی ارب ڈالرز سے زیادہ ہیں لیکن بھارت کی نسبت یہ کم ہیں۔ بھارت ہر سال تقریباً دو سو ارب ڈالرز کی آئی ٹی ایکسپورٹ کرتا ہے۔ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو بھارت کے مقابلے میں آنے کے لیے پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹس تقریباً 33 ارب ڈالرز ہونی چاہئیں۔ جو کہ مشکل نہیں ہیں۔ پاکستان کی تقریباً 12کروڑ کی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر انہیں آئی ٹی کے شعبے میں معیاری اور عالمی سطح کی ٹریننگ دی جائے تو پاکستان آئی ٹی سیکٹر میں بھارت کو پیچھے چھوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فری لانسرز اور سافٹ وئیر ایکسپورٹرز کو اپنے کمائے ہوئے ڈالرز پاکستان آسانی سے لانے اور لے جانے کی اجازت دی جائے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق تقریباً 2ارب 60کروڑ ڈالرز آئی ٹی ایکسپورٹس سے حاصل ہوتے ہیں لیکن اصل آئی ٹی ایکسپورٹس 5ارب ڈالرز ہیں۔ آدھے سے زیادہ ڈالرز سافٹ وئیر ہاؤسز اور فری لانسرز بیرونِ ملک ہی رکھ لیتے ہیں کیونکہ انہیں انٹرنیشنل ادائیگیاں کرنا ہوتی ہیں۔ اگر وہ ڈالرز پاکستان لے آئیں تو بیرونی ادائیگیوں کے لیے ڈالرز باہر بھیجنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان نے بھی بھارت کی طرز پر وَن وِنڈو سہولت متعارف کروائی ہے۔ اگر پالیسیز کا تسلسل یونہی چلتا رہا تو امید ہے کہ چند سالوں میں پاکستان اس شعبے میں بھارت کی نسبت بہتر پرفارم کر سکتا ہے۔ اگر ایکسچینج ریٹ پر بات کی جائے تو یہ کہنا مناسب ہو گا کہ بھارت میں بھی کرنسی ایکسچینج ایک بڑا ایشو ہے۔ وہاں بھی ہنڈی حوالہ اور گرے مارکیٹ موجود ہے لیکن ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ آبادی کے تناسب سے اگر حساب لگایا جائے تو پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں آنے کے لیے زرِمبادلہ کے ذخائر 8ارب سے بڑھا کر تقریباً 95ارب ڈالرز تک لانا ہوں گے۔ جو فی الحال ایک خواب ہے۔ گو کہ پاکستان کی جغرافیائی صورتحال بھارت سے بہتر ہے لیکن بھارت کی ترقی کی بڑی وجہ معاشی پالیسیز میں تسلسل اور بین الاقومی سطح پر بہترین لابنگ ہے۔ ان کے سرکاری افسران اور وزرا معمولی گاڑیاں چلاتے ہیں جبکہ پاکستان میں ڈپٹی کمشنرز کو دو کروڑ کی گاڑی دے دی جاتی ہے۔ ہماری آمدن اَٹھنی اور خرچہ روپیہ ہے۔ جب ہندوستان معاشی بدحالی کا شکار ہوا تو اس نے اپنے اخراجات آمدن کے مطابق کم کر دیے تھے۔ جبکہ پاکستان میں اشرافیہ کو دی جانے والی سبسڈی ہی تقریباً سترہ ارب ڈالرز ہے جو کہ پاکستان کے ذخائر سے دو گنا زیادہ ہے۔ چند سال قبل پاکستان ٹیکسٹائل‘ چمڑے اور آلاتِ جراحی کی برآمدات میں بھارت سے آگے تھا لیکن آج ہم بھارت کا مقابلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ بھارت کے مقابلے میں آنے کے لیے پاکستانی سالانہ برآمدات تقریباً 90 ارب ڈالرز ہونی چاہئیں۔ اگر ہمارے حکمران کچھ بہتر کرنا چاہتے ہیں تو سنٹرل ایشیائی ممالک‘ ایران اور چین سے مقامی کرنسی میں تجارت کو ممکن بنائیں۔ امریکہ اور یورپ کی مارکیٹ ہندوستان کے پاس ہے۔ وہاں مقابلہ کرنا مشکل ہو چکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved