آپ کا کیا خیال ہے پاکستان میں کن دو چیزوں کی افراط ہے ؟
یہ ملک زرعی ملک ہے! یہی پڑھایا اور بتایا جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ آٹے سے لے کر دودھ تک اور مکھن سے لے کر شہد تک کچھ بھی اطمینان بخش نہیں!دودھ گوالے کا ہے یا ڈبے کا‘ دونوں پریشان کُن ہیں۔ کبھی بازار میں پیاز کی قلت ہو جاتی ہے کبھی ٹماٹرناپید ہو جاتے ہیں۔ لیموں پانچ سو روپے کلو تک گئے ہیں! صنعتی پیداوار بھی وافر نہیں ! بجٹ کے موقع پر تازہ ترین اکنامک سروے میں بتایا گیا کہ صنعتی سیکٹر پہلے کی نسبت سکڑ گیا ہے۔ تعلیم بھی عام نہیں! غرض آپ جتنا سوچیں‘ آپ کو کوئی چیز وافر مقدارمیں نہیں ملے گی سوائے دو چیزوں کے۔ ایک آبادی ‘ دوسرا وقت!
جن دنوں میں اسلام آباد کے گنجان حصے ‘ بارہ کہو‘ میں مقیم تھا‘ گھر میں پانی کیلئے بور کرانا پڑا! اس آبادی میں پانی کے بور کی ''صنعت‘‘ یا '' انڈسٹری‘‘ ‘ تقریباً ساری کی ساری‘ غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ غیر ملکی کس ملک کے ہیں! چنانچہ ایسے ہی ایک غیر ملکی سے معاہدہ ہو گیا۔ دوسرے دن اس نے کام شروع کیا تو ایک لڑکا بھی مددگار کے طور پرساتھ تھا۔ اس کے بعد ہر روز اس کے ساتھ ایک نیا لڑکا ہوتا۔ پانی تو مل نہیں رہا تھا‘ کئی دن وہ لگا رہا! سات آٹھ دن کے بعد میں نے پوچھا کہ ہر روز نیا مددگار کہاں سے لے آتے ہو؟ کہنے لگا: سارے میرے اپنے ہی بیٹے ہیں۔ پوچھا کہ کُل کتنے بچے ہیں؟ اس نے بتایاکہ لڑکے لڑکیاں ملا کر کُل سولہ ہیں! اس واقعہ میں رمق بھر مبالغہ نہیں! اسی دن ایک دوست ملاقات کے لیے آگیا۔ اس کا ڈرائیوربھی غیر ملکی تھا۔ سولہ بچوں والی بات اعصاب پر چھا ئی ہوئی تھی۔ تجسس کے زیر اثر ‘اس ڈرائیور سے اس کے بچوں کی تعداد پوچھی تو اس نے بارہ بتائی۔ ہماری اپنی آبادی بھی کیا کم ہے کہ دوسروں کی آبادیاں بھی اس میں شامل ہو گئیں۔ وہ جو فرازصاحب نے کہا تھا
غم ِدنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشّہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تو ہمارا آبادی کا نشہ دو گنا ہے۔آبادی بے تحاشا بڑھے تو دو مضمرات اس کے مسلّمہ ہیں! ایک مفلسی دوسری جہالت! پھر مفلسی اور جہالت سے ہزار مسائل پھوٹتے ہیں جن کا سامنا ہم کر رہے ہیں!
رہا وقت تو ہمارے پاس لاکھوں کروڑوں ٹن وقت فالتو ہے۔ ایک دوست سے کئی دن بات نہ ہو سکی۔ ان کے صاحبزادے ملے تو ان کی خیریت پوچھی۔ یہ بھی پوچھا کہ ان کے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں؟ برخوردار نے جو روٹین ان کا بتایا اس کے مطابق دو گھنٹے ہر روز وہ صرف مختلف پیغامات کو ‘ بذریعہ وٹس ایپ‘ فارورڈ( forward ) کرتے ہیں! اندازہ لگائیے ! کہ میسیجز ( messages) کو فارورڈ کرنا ‘ یعنی آگے چلانا‘ ایک مکمل اور باقاعدہ سرگرمی ہے جس کے لیے وقت کی خصوصی طور پر الاٹمنٹ کی گئی ہے۔ ایک اور دوست نے ‘ جو ماشاء اللہ بہت بڑی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے‘ بتایا کہ نمازِ فجر کے بعد وہ سب احباب و اقربا کو ‘ وٹس ایپ کے ذریعے‘ گلدستے اور سلام بھیجتے ہیں ! چلیے گلدستے اور سلام کو تو چھوڑیے‘ مگر یہ جو وبا ہے مختلف سمتوں سے آئے ہوئے پیغامات کو آگے پھر مختلف سمتوں میں بھیجنا! یہ وبا تو ایک معاشرتی بیماری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس عادتِ بد کے تین نقصانات ہیں۔ اول! جو پیغامات موصول ہوتے ہیں‘ ان کی بھاری اکثریت غیر مصدقہ اطلاعات پر مشتمل ہوتی ہے۔کچھ تو سراسر کِذب پر مبنی ہوتے ہیں۔ عطائیوں کے نسخے‘ جھوٹی خبریں‘ پھسپھے لطیفے‘ بیکار باتیں‘ ناقابل یقین دعوے اور بہت کچھ اور بھی ! حد یہ ہے کہ احادیث کے نام پر‘ کسی حوالے‘ کسی ریفرنس‘ کسی تحقیق کے بغیر ‘ جو کچھ موصول ہوتا ہے‘ آگے روانہ کر دیا جاتا ہے۔ دوم۔ آپ کے دوست‘ جن پر آپ یہ بمباری کرتے ہیں ‘ آپ سے تنگ اور عاجز آجاتے ہیں! آج کے دور میں ہر شخص مصروف ہے۔افراتفری کا زمانہ ہے۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ آپ کے زبردستی گھس آنے والے پیغامات پڑھتا پھرے۔ نتیجہ اس حماقت کا یہ ہے کہ آپ کا احترام ان سب دوستوں کے دلوں میں کم ہو جاتا ہے۔کچھ آپ کو بلاک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کچھ مروّت کی وجہ سے بلاک نہیں کرتے مگر پیغامات پڑھے بغیر ڈیلیٹ کرتے جاتے ہیں۔ تیسرا نقصان یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے بھی یہ عادت‘ یا یہ حرکت‘ خسارے کا سودا ہے۔ ہم سب نے یہ فرمانِ پاک سنا ہوا ہے کہ '' کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات دوسروں کو بتاتا پھرے۔‘‘ ہر رطب و یابس ‘ کسی تحقیق کے بغیر دوسروں کو بھیجنا اس حدیث پاک کے دائرے میں آتاہے! خدا جانے کتنے سادہ لوح انسان ان پیغامات کو درست مان کر نقصانات اٹھاتے ہوں گے! منقول کا لفظ لکھ کر آپ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برانہیں ہو سکتے! منقول لکھنے کا فائدہ بھی نہیں! اب آپ بھیج رہے ہیں تو اس کے سچ یا جھوٹ کی ذمہ داری سو فیصد آپ پر ہے!
بدترین فارورڈ کیے جانے والے پیغامات وہ ہیں جو سیاسی تپش لیے ہوتے ہیں! آپ اپنے پسندیدہ لیڈر‘ یا پسندیدہ پارٹی کے حق میں پیغامات بھیجتے ہیں! وصول کرنے والا شخص اس لیڈر یا پارٹی کا شدید مخالف ہے۔ وہ یہ ‘ بِن بلایا پیغام دیکھ کر پریشان ہوتا ہے۔آگ بگولا بھی ہو سکتا ہے! آپ کے حق میں '' نازیبا‘‘ کلمات بھی کہہ سکتا ہے! ستم بالائے ستم یہ کہ سیاسی نوعیت کے پیغامات بھیجنے والوں کو ایک دو پیغام بھیج کر افاقہ بھی تو نہیں ہوتا! ہر روز ایک سندیسہ آپ کو موصول ہوتا ہے جس میں کسی لیڈر کو دیوتا قرار دیا جاتا ہے اورکسی کوشیطان! آپ جواب دیں تو توپ کے گولوں کی تعداد دو چند ہو جاتی ہے۔ اچھے بھلے معقول افراد‘ جو دیکھنے میں نارمل لگتے ہیں‘ وٹس ایپ پر ثابت کر دیتے ہیں کہ ان میں عامیانہ پن اور ابتذال کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے!
کچھ ایذا رساں وہ ہیں جنہیں آپ جانتے ہی نہیں! ان سے آپ کی ملاقات ہی نہیں! ان کا آپ نے نام ہی نہیں سنا! مگر آپ کو پیغام بھیج رہے ہیں! اگر'' گھس بیٹھیا ‘‘ کا لقب سخت ہے تو بتائیے ایسے افراد کو کیا کہا جائے؟
اور ہاں! بھول کر بھی کسی کو سمجھانے کی کوشش نہ کیجیے کہ بھائی جان ! مجھے پیغامات مت ارسال کیجیے۔ یہ غلطی کبھی نہ کیجیے گا! آپ کو ایسا فلسفہ سمجھائے گا کہ ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔آپ نادم ہوں گے کہ کیوں سمجھانے کی کوشش کی ! کوئی نارمل انسان ہوتا تو ایسی حرکت ہی نہ کرتا! جسے اتنا بھی نہیں معلوم کہ اجنبیوں کو میسج نہیں بھیجنا چاہیے‘ وہ آپ کے سمجھانے سے کیا سمجھے گا۔ پھر ایک مخلوق اور بھی ہے جو آپ سے اجازت لیے بغیر آپ کو اپنے وٹس ایپ گروپ میں شامل کر لے گی! لیجیے! اب ہر چند سیکنڈ کے بعد گروپ کے کسی نہ کسی رکن کا کوئی نہ کوئی ارشاد آپ کے فون پر اُتر رہا ہے! آپ کے پاس ان تمام حملوں سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ بلاک کرتے جائیے! پیغامات سیاسی ہیں یا مذہبی ‘ یونانی طب پر مشتمل ہیں یا گھریلوٹوٹکوں پر‘ یا کسی فضول وڈیو کلپ پر جس میں آپ کو کوئی دلچسپی نہیں‘ لحاظ یا مروّت کا خیال کیے بغیر ‘ بلاک کر دیجیے۔ اگرباہر گلی میں ایسے تلنگے دندنا رہے ہوں جو کسی بھی گھر میں بغیر اجازت گھس سکتے ہیں تو گھر کا دروازہ اندر سے بند کرنے ہی میں عافیت ہے !!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved