تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     24-07-2023

164کے پروہت اور پجاری …(1)

وفاقی وزارتِ قانون سے استعفیٰ میرا حتمی فیصلہ تھا۔ سوائے تین چار لوگوں کے میں نے نہ کسی سے استعفے پر مشورہ کیا اور نہ ہی کسی کو استعفے کی خبر ہونے دی۔ میرے ذریعے‘ عدالتی مقتول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ تیسری بار سپریم کورٹ آف پاکستان میں جارہا تھا۔ اس سے پہلے اپیل گئی جس میں مولوی مشتاق جیسے تعصب سے بھرپور جج کے فیصلے کو فُل بنچ کے ایک ممبر جسے عارضی طور پہ بطور جج بھرتی کیا گیا تھا‘ کے ووٹ سے سزائے موت کنفرم ہو گئی۔ یہ وہی جج تھے جنہوں نے بھٹو کیس میں دبائو کے تحت فیصلہ دینے کا تحریری اعتراف اپنی کتاب The Memoirs میں کیا۔ جی ہاں بعداز پھانسی اور بعد از ریٹائرمنٹ۔ اب وہ کائنات کے سب سے بڑے فیصلہ ساز کے پاس پہنچ چکے ہیں اس لیے میں اُن کے عدالتی کردار کے بارے میں اس سے آگے کچھ نہیں لکھنا چاہتا ورنہ حیرتوں کا ایک اور جہاں بھی کھول سکتا ہوں۔
میں نے سپریم کورٹ کیس کی تیار ی معاونت کے لیے ایک پرائیویٹ وکلا ٹیم بنائی اور اپنے لاء آفس اور منسٹری کے بجائے گھر کی لائبریری میں اس تاریخ ساز ظلم کو چیلنج کرنے کے کیس میں لگ گیا۔اس ٹیم میں مَیں نے کالم نگار آصف محمود ایڈووکیٹ کو بھی شامل کیا۔
بھٹو کیس ایک ایسا بدقسمت مقدمہ ہے جس کو عالمی سطح پر Murder Trail کے بجائے Murder of a Trial کہا جاتا ہے۔ جس کی کُل بنیاد‘ ضابطہ فوجداری کی دفعہ164کا ایک انتہائی مشکوک اور متنازع بیان تھا جس کے سارے کردار اب دنیا سے جا چکے ہیں‘مگر عدالتی ریکارڈ پر سب آج بھی موجود ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے تحریکِ آزادی کے نوجوان ہیرو بھگت سنگھ کے Murder of a Trial کا ریکارڈ اسی شہر لاہور میں آج بھی موجود ہے۔
بھٹو شہید کے خلاف مقدمہ کیسے چلا؟ وہ تو ایک علیحدہ کتاب کاہوشرُبا موضوع ہے لیکن یہ مقدمہ بنا کیسے تھا ؟ یہ جاننا موجودہ حالات میں ضروری ہے۔ کیونکہ ان دنوں1977ء والے 164 کے پروہت اور پجاری اسے لکشمی کی دیوی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ آسان لفظوں میں ٹوکرا‘ ٹوکری ‘ لفافہ‘ لفافی کی وصولی کے لیے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 100فیصد وہی الزام تھا جو عمران خان کے خلاف 200 مقدموں میں لگایا جا چکا ہے۔ یہی کہ جرم ذوالفقار علی بھٹو کی ایما پر ہوا۔ ان دنوں پاکستان کی 100 فیصداصلی تے100 فیصد وڈّی جمہوری حکومت میں عمران خان کے خلاف قتل کے دو مقدمے درج ہو چکے ہیں۔ ایک ظلِ شاہ والا کیس اور دوسرا کوئٹہ میں وکیل صاحب کے قتل کی FIR۔ ایما کے جرم کے لیے تعزیراتِ پاکستان میں فرنگی راج سے لے کر آج تک دفعہ 109 کے نیچے صرف اور صرف ایک ذوالفقار علی بھٹو کو چھوڑ کر‘ باقی کبھی کسی دوسرے ملزم کو پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا بلکہ کسی عدالت نے کبھی کسی کو اس جرم میں پھانسی کی سزا سنائی ہی نہیں۔
1977ء والے 164میں پروہت اور پجاری کی کہانی کا آغاز ایبٹ آباد کی ایک بیرک سے ہوتا ہے جس کے ایک سرے پر مرحوم سابق وزیر قانون اور نامور وکیل جناب حفیظ پیرزادہ صاحب کو قید میں رکھا گیا تھاجبکہ اسی بیرک کے دوسرے کونے میں سونے کے سب سے بڑے سمگلرکے قریبی رشتہ دار کو زیرِ حراست رکھا ہوا تھا۔ اگلی بات ایسی ہے جس پر یقین کرنے کے لیے مجھے بھی وقت لگا‘ اس لیے اگر میں یہاں وہ نام لکھ دوں تو آپ کو یقین کرنے میں یقینامجھ سے بھی زیادہ وقت لگے گا۔
لاہور کے اُس وقت کے ایک وکیل (ریاض بٹالوی نہیں)جو عدالتی اصطلاح میں Breiflessتھے اور فلمی موسیقی وغیرہ کے رسیا بھی‘ انہیں لاہور کی ایک بیرک میں طلب کیا گیا اور ایک سنگل پیج کی پہلے سے ٹائپ شدہ پٹیشن جو آج بھی ریکارڈ پر ہے‘ تھمائی گئی؛ چنانچہ حضرتِ وکیل اگلے دن شادمان کے علاقے کے ایک مجسٹریٹ کے پاس جا پیش ہوئے ‘جو پہلے ہی اُن کے انتظارمیں بیٹھا ہوا تھا۔اس درخواست کے ساتھ نہ تو مسعود محمود کی جانب سے کوئی وکالت نامہ تھا اور نہ ہی اس درخواست پر اُس کے دستخط موجود تھے‘ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ لیگل پریکٹیشنرز ایکٹ اور ضابطۂ دیوانی کے تحت کوئی شخص جب تک وکیل یا پلیڈر مقرر نہ کر دیا جائے وہ کسی بھی فریق کی طرف سے عدالت میں نہ کچھ فائل کر سکتا ہے اور نہ ہی قانونی طور پر اُسے پیش ہونے کی اجازت ہوتی ہے۔ طاقتور نے قانون کو روند ڈالا جس کے نتیجے میں اگلے دن مسعود محمود کو شہید بھٹو کے خلاف 164کا بیان لکھوانے کے لیے اُسی مجسٹریٹ کورٹ میں زیرحراست حاضرکر دیا گیا۔
ذرا یہاں ایک منٹ رُک جاتے ہیں۔ 164کے بیان کے لیے جو قانون اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس وقت نافذ العمل ہے وہ ہم نے نہیں بنایا بلکہ یہ ایکٹ نمبر5کے ذریعے 22مارچ سال 1898ء کو‘ 125سال پہلے ‘کوئین آف انگلینڈ اینڈ ویلز نے بنایا تھا۔ فرنگی راج کا بنایا ہوا وہی قانون آج بھی نافذ العمل ہے۔ اس قانون کے وہ پروہت اور پجاری جو عمران خان کو سزا دینے کے لیے 164 کو نجات دہندہ سمجھ بیٹھے ہیں‘ اُن کے اطلاع کے لیے ضابطۂ فوجداری کی پہلی شق میں سے صرف دفعہ(1-A) اعظم خان والے بیان کو (اگر وہ کوئی ہے)ہوا میں اُڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ ملاحظہ کریں ضابطہ فوجداری کا متعلقہ سیکشن۔
"164. Power to record statements and confessions. (1-A) Any such statements may be recorded by such magistrate in the presence of the accused, and the accused given, an opportunity of cross examining the witness making the statement."
سب جانتے ہیں اور یہ ایک پبلک فیکٹ ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور کے سیکرٹری ٹو دی پرائم منسٹر اعظم خان کو 4‘ 5 ہفتے پہلے کوئی اُٹھا لے گیا تھا۔ اغوا کے بعد اُن کی فیملی نے جہاں ایک طرف پولیس رپٹ داخل کروائی وہاں دوسری جانب انہوں نے وکیل کے ذریعے باقاعدہ رٹ پٹیشن ہائی کورٹ میں دائر کی اور اُن کی بازیابی کے لیے اپنی سی کوششیں شروع کر دیں۔ اسی دوران وزارتِ داخلہ کے انچارج منسٹر کا ایک وڈیو کلپ سامنے آیا۔ ایک رپورٹر نے پوچھا کہ اعظم خان کو کس نے اُٹھایا ہے؟ جواب آیا : اعظم خان خیریت سے ہیں اور اعظم خان کی فیملی اُن سے رابطے میں ہے۔اس بیان کے تیسرے دن ایک صحافی اینکر نے ٹویٹ کی کہ وہ اعظم خان کے حوالے سے ایک بریکنگ نیوز دینے لگے ہیں‘ تھوڑی دیر انتظار کریں۔ پھر پردہ اُٹھتا ہے۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved