تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     25-07-2023

ایک سنجیدہ تجویز

شملہ میں پہلا پکّا گھر ایک انگریز سول سرونٹ نے 1822ء میں بنوایا۔ اس سے تین برس پہلے ایک انگریز افسر نے لکڑی کی کاٹیج بنوائی تھی۔ باقی شملہ صرف جنگلات اور پہاڑیوں پر مشتمل تھا۔ بات آہستہ آہستہ پھیلتی ہے۔ شملہ کی سرد آب و ہوا کی شہرت انگریزوں میں پھیلنے لگی۔ ہندوستان کی بے پناہ گرمی سے انگریز گھبراتے تھے۔ یہ اور بات کہ موسم سے شکست کھا کر کوئی انگریز واپس نہیں گیا۔ہندوستان میں ان کا پہلا پڑاؤ ‘ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں‘ بنگال تھا جو دریاؤں ‘ جھیلوں اور جوہڑوں کی بہتات کی وجہ سے ملیریا کا گڑھ تھا۔ اوسط ایک انگریز روزانہ مر جاتا تھا مگر کوئی واپس گیا نہ کسی نے ہندوستان آنے سے انکار کیا۔ شملہ کی شہرت سن کر انگریز تعطیلات یہاں گزارنے لگے۔ان میں بنگال کا گورنر جنرل اور انگریز کمانڈر انچیف بھی شامل تھا۔ گھروں کی تعداد زیادہ ہونے لگی۔
1832ء میں گورنر جنرل اور رنجیت سنگھ کے ایلچیوں کی ملاقات شملہ ہی میں ہوئی۔ لدھیانہ چھاؤنی سے شملہ تک چار دن کی مسافت تھی۔ چند سالوں میں شملہ ایک بہت بڑے کلب کی شکل اختیار کر گیا جہاں انگریز چھٹیاں بھی گزارتے تھے اور تفریح بھی کرتے تھے۔انگریز دوشیزائیں شوہروں کی تلاش میں اور بیسوائیں عیاشی کرنے اور کرانے کے لیے آنے لگیں۔ ہندوستان بھر کے انگریزوں کے لیے یہ سب سے زیادہ پُر کشش مقام بن گیا یہاں تک کہ 1864 ء میں گورنر جنرل جان لارنس نے اسے برٹش انڈیا کا گرمائی دارالحکومت قرار دے دیا۔ کہاں کلکتہ‘ اور کہاں شملہ! مگر حکمِ حاکم یہی تھا۔اب ہر سال اپریل میں کلکتہ سے دفاتر اور کارندے شملہ کا رُخ کرتے۔ ٹرین تو شملہ میں 1903 ء میں آئی۔اندازہ لگائیے یہ سینکڑوں لوگ کیسے آتے ہوں گے۔ اکتوبر میں پھر واپسی کا بگل بجتا! کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ملک کے دو دارالحکومت ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی اچنبھے والی بات نہیں! آج کل طائف کو ‘ جہاں کی آب و ہوا خوشگوار ہے‘ سعودی عرب کا موسم گرما کا صدر مقام کہا جاتا ہے۔ خود پاکستان کے ‘ ایک زمانے میں ‘ دو دارالحکومت رہے! جنرل ایوب خان نے ڈھاکہ میں دوسرا دارالحکومت بنوایا اور اس کا نام '' ایوب نگر‘‘ رکھا۔ میں 1967 ء سے 1970 ء تک ڈھاکہ میں تھا۔ کئی بار ایوب نگر دیکھا۔ ایک اجاڑ سی نگری تھی۔اُلّو بولتے تھے۔ اس لیے کہ نیت درست نہ تھی۔ صرف اشک شوئی کے لیے اسے '' سیکنڈ کیپٹل ‘‘ کا نام دیا گیا‘ نیت میں خلل نہ ہوتا تو چھ ماہ دارالحکومت عملاً وہاں شفٹ ہوتااور کاروبارِ مملکت وہیں سے چلایا جاتا۔اگر گھوڑوں‘ خچروں اور اونٹوں کے زمانے میں انگریز ‘ دارالحکومت کو کلکتہ سے ایک ہزار نو سو کلو میٹر دور شملہ میں لا سکتے تھے۔ تو‘ اب تو جہازوں کا زمانہ تھا۔ اخراجات بڑھتے مگر ملک کو متحد رکھنے کے لیے یہ گھاٹے کا سودا نہ ہوتا۔
ایک ملک کے دو دار الحکومت !! یہ ناممکن نہیں ! چلی‘ ملائیشیا‘ جارجیا اور کئی اور ملکوں کے دو دو دارالحکومت ہیں! پاکستان کے بھی دو دارالحکومت ہونے چاہئیں! اسی میں ہماری بقا ہے۔ اسی میں ہماری فلاح ہے! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ دوسرے دارالحکومت کے لیے میں کراچی یا کوئٹہ کا نام لوں گا! مگر آپ غلط سوچ رہے ہیں! اور اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پہلا دارالحکومت ‘ میری تجویز کی رُو سے ‘ اسلام آباد ہی رہے گا تو یہاں بھی آپ غلط ہیں ! اللہ کے بندو! معاملہ اب اسلام آباد‘ کراچی اور کوئٹہ سے آگے جا چکا ہے! بہت آگے! میری تجویز‘ جو اس تحریر کے ذریعے میں قوم کے سامنے رکھ رہا ہوں یہ ہے کہ ہمارے ملک کا‘ جس کا نام پاکستان ہے‘ پہلا دارالحکومت دبئی ہونا چاہیے۔ کیا کسی نے حساب کیا ہے کہ زرداری صاحب اور بلاول گزشتہ بیس تیس برسوں میں کتنی بار دبئی گئے ہیں ؟ اتنی بار گئے ہیں کہ شمار مشکل ہے۔ تازہ ترین خبر کے مطابق آصف علی زرداری خصوصی طیارے سے دبئی پہنچ گئے ہیں اور بہت مصروف وقت گزار رہے ہیں‘ سابق وزیراعظم اور ( ن) لیگ کے قائد نواز شریف اور مریم نواز بھی دبئی پہنچ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کرنے کیلئے بیٹھک کا امکان ہے‘ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی بھی دبئی آمد کی اطلاعات ہیں۔ نگران سیٹ اَپ کے حوالے سے مشاورت کیے جانے کا امکان ہے۔ سابق صدر نے دبئی میں اہم سیاسی ملاقاتیں کی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ وہ بلاول بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کیلئے لابنگ میں مصروف ہیں اور یہاں مقیم بعض سابق اہم شخصیات کو بھی قائل کررہے ہیں۔ آصف زرداری ابھی مزید چند دن دبئی میں گزاریں گے !
بی بی شہید اور زرداری صاحب کا دبئی میں عالی شان محل ہے! جمہوری ممالک کے کتنے سابق صدور یا کتنے سیاستدانوں کے محلات دبئی میں ہوں گے ؟ اگر نگران حکومت جیسے حسا س مسائل ملک کے اندر نہیں‘ دبئی میں طے ہونے ہیں ‘ اگر مولا نا فضل الرحمان کے تحفظات اسلام آباد میں بیٹھ کر دور ہو سکتے ہیں نہ کراچی میں ‘ نہ ڈیرہ اسماعیل خان میں‘ نہ لاڑکانہ میں نہ نواب شاہ میں‘ اور صرف دبئی میں ہو سکتے ہیں اور اگر بلاول کی وزارتِ عظمیٰ کے لیے لابنگ کی بہترین جگہ بھی دبئی ہی ہے تو گولی ماریے ان شہروں کو اور دبئی کو پاکستان کا دارالحکومت قرار دیجیے۔ گولی مارنے سے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ وہ بھی سُن لیجیے۔ میلے میں ایک صاحب کی بیوی کھو گئی۔وہ ڈھونڈ رہے تھے کہ ایک اور صاحب انہیں مل گئے۔ ان کی بیوی بھی گم ہو چکی تھی۔ پہلے صاحب نے دوسرے سے پوچھا کہ آپ کی بیوی کی شکل اور ڈیل ڈول کیسا ہے کہ کہیں نظر آئیں تو پہچان لیں۔ اُن صاحب نے جواب دیا کہ نرگسی آنکھیں ہیں۔ سنہری بال ہیں۔ لمبے قد کی ہیں۔ کمر پتلی ہے اور بہت خوبصورت ہیں۔ اب دوسرے صاحب نے پہلے سے پوچھا کہ آپ کی بیوی کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا :گولی ماریں میری بیوی کو ! دونوں مِل کر آپ ہی کی بیوی کو ڈھونڈتے ہیں !!
دوسرا دارالحکومت ہمارے ملک کا لندن ہونا چاہیے۔اس میں کوئی غلط بات نہیں۔ انگریز کے دور میں لندن ہی تو ہمارا صدر مقام تھا! مگر اصل وجہ اس تجویز کے پیچھے وہ بے پناہ پیار ہے جو بڑے میاں صاحب کو لندن سے ہے۔ شاید ہی کوئی فرد اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ میاں صاحب کا وطنِ اصلی لندن ہے۔ جب وہ پاکستان میں تھے تو ہر عید پر لندن چلے جاتے تھے۔ ہمارا کلچر بھی یہی ہے کہ عید پر ہم اپنے اپنے اصلی گھروں کو لَوٹ جاتے ہیں۔ میاں صاحب کے صاحبزادوں کی تو نیشنیلٹی بھی وہیں کی ہے جس کا اعلان ان کے بیٹوں نے ببانگ دہل کیا تھا۔میاں صاحب ایک طویل عرصہ سے لندن میں مقیم ہیں۔ میڈیا میں خبریں آتی رہتی ہیں کہ کبھی وہ کسی ریستوران میں ہیں‘ کبھی اپنے دفتر میں تو کبھی کہیں شاپنگ کر رہے ہیں۔ اس سے تاثر یہی ملتا ہے کہ وہ لندن میں اتنے آرام و سکون سے رہتے ہیں جتنا گھر میں رہا جا سکتا ہے۔ فرنگی اس صورت حال کو تو کہتے ہی Feel at homeہیں ! تازہ ترین خبر ان کے بارے یہ ہے کہ اگلے چند دنوں میں وہ سعودیہ سے دبئی اور پھر لندن واپس جائینگے‘ لندن میں 5 سے 6 ہفتے کے قیام کے بعد پاکستان روانہ ہوں گے۔ لندن پہنچنے کے بعد ہی نواز شریف کی پاکستان واپسی کے حوالے سے تیاریاں مکمل کی جائیں گی۔
میاں صاحب کے آخری دورِ حکومت کے حوالے سے ان کے غیر ملکی مبیّنہ دوروں پر نظر ڈالیے۔افغانستان‘ جرمنی‘ بحرین‘بھارت‘ ایران‘ نیپال‘ تاجکستان اور تھائی لینڈ کا ایک ایک دورہ ‘ ازبکستان اور قزاقستان کے دو دو دورے‘ چین‘ ترکی اور امریکہ کے چار چار دورے‘ سعودی عرب کے پانچ دورے اور برطانیہ کے سترہ ( 17 ) دورے !!
یاد رکھیے ! ہمارے مقدر کے فیصلے لندن اور دبئی میں ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے !!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved