سماجی الجھاؤ بڑھ رہا ہے۔کیا یہ انسان کے تہذیبی قافلے سے بچھڑنے کی سزا ہے؟
دو صدیوں میں اخلاقیات‘مذہب‘سیاست اور سماج کے گرد پھیلے تصورات ایک واضح صورت اختیار کر نے کے بعد اپنے نتائج دکھا رہے ہیں۔ دنیا میں اب اِن کے نتائج زیرِ بحث ہیں۔گویا فکری ارتقا کا عمل اپنی ایک منزل تک پہنچنے کے بعد‘نظر ثانی کے موڑپر کھڑا ہے۔اب اسے مزید آگے جاناہے۔اگلاقدم رکھنے کے لیے اس کے پاس پچھلے سفر کا تجربہ ہے۔سودو زیاں کا ایک گوشوارہ ہے۔اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان ہے کہ اسے آگے کہاں جانا ہے۔ہیگل نے انہیں دو صدیاں پہلے بتا دیا تھا کہ اس سفر کو اسی طرح جا ری رہنا ہے۔
مثال کے طور پر سیکولرازم۔ نشاۃ ثانیہ کی تحریک کے نتیجے میں یہ مان لیا گیا کہ مذہب کا کوئی سیاسی کردار ہوگا نہ سماجی۔اس کے بعدترقی یافتہ دنیا کا تہذیبی سفر جن حدود میں آگے بڑھا‘ان میں سے ایک 'حد‘ یہ بھی تھی۔خیال یہ تھا کہ مذہب جیسے ہی ریاست کے دائرے سے نکلے گا‘یہ متروک ہو جا ئے گا۔دو صدیوں کے تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ مذہب‘ ان کے اندازے سے بڑھ کر سخت جان ہے۔ صاحبانِ فکر و نظر نے ان اسباب پر غور کیا۔اپنے قائم شدہ نظریات پرایک تنقیدی نظر ڈالی۔ 'پوسٹ سیکولرازم‘ کے نئے خیال کے ساتھ‘انہوں نے اپنے معاشروں کو بتایا کہ مذہب کے سماجی کردار کی مکمل نفی ممکن نہیں۔ہمیں اس کے جود کو تسلیم کر نا پڑے گا۔
یا پھرسرمایہ دارانہ نظام ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں موجود ظلم کے پہلو نے عوام میں اضطراب پیدا کیا۔بائیںبازو کی تحریکیں اٹھیں۔ مغرب کے اہلِ دانش نے اس داخلی بحران کا جائزہ لیا۔فلاحی ریاست کے تصورات کو سرمایہ دارانہ نظام میں جگہ دی اور اس چیلنج کا کامیابی سے سامنا کیا۔اشتراکی تحریکیں عملاً دم توڑ گئیں۔اس کے لیے مغرب نے جو سیاسی چالیں چلیں‘وہ اس پر مستزاد تھیں۔ایسی ہی ایک چال نے سوویت خاتمہ کو قصہ پارینہ بنا دیا۔
ہمارا معاملہ یہ ہے کہ سو برس پہلے جہاں کھڑے تھے‘اب بھی وہیں کھڑے ہیں۔جو فکری پراگندگی اُس وقت تھی‘آج بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر سول ملٹری تعلقات‘قیامِ پاکستان کے چند برس بعد ریاست کے لیے ایک چیلنج بنے۔یہ چیلنج آج بھی نہ صرف موجود ہے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ گمبھیر ہو چکا۔ہمارے فکری افلاس کا یہ عالم ہے کہ آج ہم میں نئی غلطی کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔آج بھی پرانی غلطیاں دہرائی جا رہی ہیں۔انہی پامال راستوں پر سفر جا ری ہے جن پر ہم پاکستان کی پوری تاریخ میں چلتے رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ نتائج بھی پہلے سے مختلف نہیں ہو سکتے۔
مذہب اور ریاست کا باہمی تعلق ایک دوسرا مسئلہ ہے جسے ہم حل نہیں کر پائے۔ہم یہ طے نہیں کر سکے کہ ہم ایک مذہبی ریاست ہیں یا ایک قومی ریاست۔'اسلامی ریاست‘ کا تصور بھی ہمارے سامنے تھا۔ہم نے سب کو ملا کر ایک ملغوبہ سا بنایا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہم قومی ریاست بن سکے نہ مذہبی‘ نہ اسلامی۔وہ سوالات جوقیام ِ پاکستان کے وقت اٹھائے جا رہے تھے‘آج بھی جواب طلب ہیں۔کچھ سوالات وہ تھے جو 'مسلمانوں کی قومی ریاست‘ پر اٹھائے گئے۔ کچھ وہ تھے جو روایتی علما نے اٹھائے۔ ان سوالات پر آج بھی بحث جاری ہے۔
دنیا میں فکری وعملی مسائل اس طرح حل نہیں کیے جاتے کہ دوسرے نقطہ نظر کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک وسیع البنیاد اتفاقِ رائے وجود میں آ جا تا ہے جیسے مغرب میں سرمایہ دارانہ نظام‘جمہوریت یا سیکولرازم پر اتفاق ہو گیا تھا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے ناقدین موجود نہیں تھے۔اشتراکیت کی تحریک بھی تو مغرب ہی میں اٹھی جو سرمایہ دارانہ نظام کا رد تھی۔مذہب بھی تھا جس نے مزاحمت کی ا وراپنا وجود منوایا۔اس اختلاف کا زندہ رہنا اس لیے ضروری ہے کہ کبھی ایک فکری تجربہ ناکام ہو تو سماج کے پاس اس کا متبادل موجود ہو۔ تاہم ایک وقت میں کسی ایک فکر پر اکثریت کا متفق ہونا ضروری ہے۔ اسی سے سماجی استحکام پیدا ہو تا ہے۔
ہماری فکری پراگندگی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے نظام کی کوئی کل سیدھی نہیں۔یہاں مارشل لاء نتائج دے سکا نہ جمہوریت۔طاقت کا کھیل اب ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں بیک وقت سب کی بقا ممکن نہیں دکھائی دیتی۔یوں اتفاقِ رائے پیدا ہوتا نظرنہیں آتا۔ایک کو یہ لگتا ہے کہ دوسرے کا باقی رہنا ہی اس کی موت ہے۔سیاسی جماعتیں‘ ریاستی ادارے‘سب طاقت کے اس کھیل میں ‘پوری طرح حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ وہ حالات سے بے نیاز ہو کر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ایسی صورتِ حال میں بظاہر وہی قوت غالب رہتی ہے جس کے پاس فیصلہ کن قوت ہو تی ہے۔
اس سے مگر مسئلہ حل نہیں ہو تا‘مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ دنیا جب ایسے حالات سے گزرتی ہے تو وہ کیا کرتی ہے؟ کہا جاتا کہ اس کے لیے خلافِ روایت (Out of the box) حل تلاش کیا جا تا ہے۔ایسا حل جو ممکن ہے آئینی نہ ہو۔جس پر موجود ضابطوں کا اطلاق نہ ہو تا ہو۔ایسے حل پر البتہ متعلقہ گروہوں (stakeholders) میں وسیع البنیاد اتفاق ضروری ہے۔ یہ اتفاق اسے ایک قابلِ عمل بنیاد فراہم کر دیتا ہے۔
اس کی ایک مثال مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پیش کی جانے والی تجاویز ہیں۔یہ دکھائی دے رہا ہے کہ اس کا کوئی حل اصول اور ضابطے کے مطابق نہیں ہو سکتا۔اس کے لیے ایک تجویز یہ پیش کی گئی تھی کہ دس سال کے لیے اس خطے کو اقوامِ متحدہ کی تحویل میں دے دیا جائے۔اس کے بعد وہ سازگار حالات پیدا ہوجائیں جن سے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل ممکن ہو جائے۔ پاکستان کے ریاستی معاملات اب اس مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہمارے پاس کوئی مثالی حل موجود نہیں۔ ہمیں غیر روایتی حل کی طرف جا نا ہو گا۔اس حل کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ اس پر متعلقہ فریقوں کا اتفاق ہو۔اگر ایک دوسرے کو ختم کر دینے کی خواہش غالب رہی تو مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔سب کو دوسروں کے وجود کو تسلیم کر نا ہو گا۔کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ غیر قانونی طور پر کسی کو معدوم کرنے کے خبط میں مبتلا ہو جائے۔ غور کیجیے تو موجودہ بحران اسی سوچ کی کوکھ سے پھوٹا ہے۔
قومی زوال کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کی مہار کم ذہنی سطح کے لوگوں کے حوالے کر دی جائے۔بحران جب اُن کی ذہنی استعداد سے بڑھ جاتا ہے تو لاینحل ہو جا تا ہے۔اقبال نے اسی کا نوحہ لکھا تھا کہ 'زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن‘۔ یہ نتیجہ ہے کسی سماج کی علمی‘فکری‘سماجی اور سیاسی زوال کا۔سماج کی تشکیل جب پس منظر میں چلی جا تی ہے تو زندگی کے رواں نظام کی باگ نااہل لوگوں کے ہاتھ میں آجا تی ہے۔مثالی حل تو اس وقت ہی ممکن ہو گا جب سماج اپنی بنیاد پر کھڑا ہو جائے گا۔اس وقت تک نظام کو تو بہر حال چلنا ہے۔یہ لیکن اس طرح نہیں چل سکے گا جیسے ہم چلانا چاہتے ہیں۔اس کے لیے کسی خلافِ روایت حل کی طرف جانا ہو گا۔ یہ انسان کے تہذیبی قافلے سے بچھڑنے کی سزاہے کہ معمول کے حل ہمارے لیے سازگار نہیں رہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved