داتا گنج بخش سید علی ہجویری ؒکا مزار مبارک ہو یا امام بریؒ کی رحمتیں بکھیرتی ہوئی خانقاہ ،بابافرید شکر گنج ؒ کا روحانی مرکزہو یا پاکستان کی کوئی مسجد‘ عقیدت و احترام سے سجایا گیا کوئی مذہبی جلوس ہویا میلادِ رسول اﷲﷺ کی با برکت محفل ، کسی بھی اقلیت کی عبادت گاہ ہو یا جمعتہ المبارک کا روح پرور اجتماع ، ختمِ قرآن کی کوئی تقریب ہو یا اس دنیائے فانی سے رخصت ہونے والوں کی نماز جنازہ‘ غرض کسی بھی فرقے کی کوئی بھی روحانی اور مذہبی تقریب آج بھارتی ایجنٹوں اور پاکستان میں اس کے خریدے ہوئے دہشت گردوں کے خود کش حملوں سے محفوظ نہیں۔ کالی ماتا کے پجاریوں کو بے گناہ پاکستانیوں کے خون کی چاٹ لگ چکی ہے۔ اسے خون چاہیے‘ وہ بے شک پاکستان میں بسنے والے کسی سکھ کاہو‘ عیسائی کا‘ مسلمان کا یا پارسی کا۔ تکلف بر طرف‘ کھل کر کہنا ہو گا کہ پاکستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی بھارتی منصوبہ سازوں کی جانب سے کی جا رہی ہے اور کراچی سے لے کر خیبر تک ہر روز‘ ہر گھڑی پاکستان کی مائوں کی گودوں کو اُجاڑنے والوں کے دل میں مذہب نہیں بلکہ پاکستان دشمنی کا زہر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ چانکیہ کے وہ چیلے ہیں جنہوں نے بدقسمتی سے جنم تو کسی مسلمان کے گھر میں لیا ہو گا لیکن ان کا دین‘ ایمان‘ عزت اور غیرت بھارتی کفر کے ہاتھوں میں گروی رکھی جا چکی ہے۔ کالی ماتا کے ان خود کش بمباروں کا کوئی مذہب‘ کوئی رسول‘ کوئی کتاب نہیں اور کوئی خدا نہیں ہے۔ اگر ان کے پاس جاہلیت میں ڈوبا ہوا ضمیر ہے‘ جسے انہوں نے بھارت کو کروڑوں ڈالروں کے عوض بیچ دیا ہے۔ پاکستان میں بسنے والی ہر اقلیت کو جان لینا چاہیے کہ ان کو نشانۂ ستم بنانے والے وہی ہیں جو پاکستان کے ہر مسلم گھرانے کو خون میں نہلا کر قہقہے لگا رہے ہیں۔ ان کا اور ہمارا دشمن ایک ہے‘ جس کا ہم سب کو بحیثیت پاکستانی کے‘ مل کر مقابلہ کر نا ہو گا۔ اس حقیقت کو سب کو تسلیم کرنا ہو گا کہ پشاور کے چرچ پر خود کش حملہ کرتے ہوئے پاکستان کی 80 سے زائد مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں اور بیٹوں کو شہید کر نے والے عیسائیت کے نہیں بلکہ پاکستان کی سالمیت اور وحدت کے دشمن ہیں۔ بہاولپور کا چرچ ہو یا مردان کا‘ سانگلہ ہل ہو یا گوجرہ کی عیسائی بستی‘ گوجرانوالہ کی عزیزکالونی ہو یالاہور کے بادامی باغ کی جوزف کالونی ، قصور کی بستی ہو یا مری کا چرچ‘ یہ سب ایک ہی فکر اور ایک ہی سوچ کے نشانے پر ہیں اور اس سوچ کا منبع اور مرکز بھارتی ’’را‘‘ ہے‘ جو پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے در پے ہے ۔ دشمن کا منصوبہ یہ ہے کہ ہر اقلیت کو پاکستان سے اس قدر بد ظن اور متنفر کر دیا جائے کہ انہیں اسلام اور مسلمانوں کے مقابل آگ کا گولہ بنا دیاجائے تاکہ اپنے مکرو ہ مقاصد کے حصول کیلئے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کی اقلیتوں کو اس کے خلاف استعمال کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے ۔پاکستان اسلام کے نام پر ضرور قائم ہوا لیکن یہاں رہنے والا ہر شخص اسی طرح پاکستانی ہے جس طرح کوئی مسلمان۔ یہ ملک ہر اقلیت کا ہے‘ چاہے وہ سکھ ہو یا ہندو‘ عیسائی یا کسی بھی دوسرے فرقے یا عقیدے سے تعلق رکھنے والا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے صرف مسلمانوں ہی نے نہیں بلکہ عیسائیوں نے بھی بڑھ چڑھ کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پاک فضائیہ کی طرف ہی دیکھ لیں‘جس نے دشمن کی فضائی برتری کو خاک میں ملا دیا تھا تو ائر مارشل کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے ایرک گورڈن ہال پاکستان ایئر فورس کے چکلالہ کے کمانڈر کی حیثیت سے پاکستان کیلئے قابلِ فخر خدمات انجام دیتے رہے۔ پاکستان کے لیے ان کی خدمات رہتی دنیا تک بھلائی نہ جا سکیں گی‘ ان کی گراں قدر خدمات پر انہیں ستارہ جرأت سے نواز گیا۔ سکواڈرن لیڈر مرون لیزلی مڈل کوٹ نے دورانِ جنگ دشمن کی حدود کے اندر تک گُھس کر اس کی دفاعی تنصیبات کی تصاویر اُتارنے کا معرکہ سر کیا اور پاکستان کے فوجی مستقر کی حفاظت کے لیے نا قابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔ سکواڈرن لیڈر سیسل چودھری نے ستمبر65ء کی جنگ میں بھارت کے ہوائی اڈے ہلواڑہ کو تباہ کرنے میں بے مثال بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ 15ستمبر1965ء کو زمینی ریڈار سے ناکا فی اطلاعات کے با وجود فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چودھری نے پاکستان پر حملہ آور بھارتی طیاروں کو بھگاتے ہوئے ایک سو پچاس میل اندر تک دشمن کے علا قے میں ان کا پیچھا کرتے ہوئے ان کا ایک کینبرا طیارہ تباہ کر دیا۔ فلائٹ لیفٹیننٹ ولیم ڈی ہارلے کا دوران جنگ ایک ہاتھ زخمی ہو گیا تھا لیکن اس کے با وجود انہوں نے علاج اور آرام کی بجائے بھارت کے انبالہ، پٹھان کوٹ، آدم پور،ہلواڑہ اور جودھپور کے ہوائی اڈوں پر بھر پور حملے کیے۔ ان سب کا مذہب بے شک عیسائیت تھا لیکن وطن پاکستان تھا اور انہوں نے پاکستان کی حفاظت کے لیے اپنی جان نثار کرنے سے گریز نہیں کیا۔ بد قسمتی سے پاکستان میں بسنے والی ہر اقلیت کو نشانۂ ستم بنا نا ایک فیشن بن چکا ہے۔ کسی مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے والے چند انتہا پسند‘ جو اپنے علا وہ کسی دوسرے کو مسلمان ماننا تو دور کی بات ہے‘ مسلمانوں والے نام سے بلانا بھی پسند نہیں کرتے‘ دشمن کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ پھر ان کی کارروائیوں کا مقصد اقلیتوں کو پاکستان سے بد ظن کرنا ہوتا ہے۔ دشمن‘ جس نے ابھی تک ہمارے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا‘ ہمارے بچوں کو روزانہ کاٹ کاٹ کر پھینک رہا ہے اور دنیا کا کوئی ایک بھی ملک اس کا ہاتھ روکنے کے لیے آواز تک نہیں اٹھاتا اور یہ وہی سول سوسائٹی والے‘ انسانی حقوق کے ٹھیکیدار اور امن کے پرچارک ہیں جنہوں نے ممبئی حملوں کے بعد دہلی میں بھارتی لیڈروں کے پہلو میں کھڑے ہو کر پاکستان کو دھمکیاں دیں کہ اگر دوبارہ بھارت میں کوئی ایسا واقعہ ہوا تو ہم سے اور بھارت سے زیا دہ بُرا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔۔ لیکن آج جب پاکستان کے ہر گھر میں بھارتی خود کش حملوں کی وجہ سے چیخ و پکار کی دل ہلا دینے والی آوازیں گونج رہی ہیں‘ آج پاکستان میں بسنے والی کسی بھی اقلیت سے تعلق رکھنے والی ہر ماں کی گود اجاڑی جا رہی ہے تو ان سب کو نہ جانے کیوں چپ سی لگ گئی ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved