انتخابات سے قبل دہشت گردی کی لہر میں اضافہ تشویشناک ہے‘ اس ماحول میں سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابی مہم نہایت مشکل ہو جائے گی۔ 2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو دہشت گردی کی وجہ سے انتخابی مہم محدود کرنا پڑی تھی۔ اب اگرچہ ویسے حالات تو نہیں مگر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات نے کئی طرح کے سوالات کو جنم دیا ہے۔ دہشت گردی کے تانے بانے چونکہ افغانستان سے مل رہے ہیں اس لیے اطلاعات کے مطابق پاکستان نے افغان طالبان کے سامنے تین مطالبات رکھے ہیں۔ پہلا مطالبہ یہ ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف خود کارروائی کریں اور پاکستان کو مطلوب افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں‘ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مطلوب افراد کو پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی سے لاتعلقی کا اظہار کریں اور باقاعدہ فتویٰ جاری کریں۔ تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے اندر کارروائی کی اجازت دی جائے۔افغان طالبان ان تین مطالبات میں سے کسی ایک پہ بھی عمل درآمد کے لیے تیار نہیں۔
پاکستان کے لیے مشکل یہ ہے کہ ایک طرف اسے سکیورٹی اور معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ دوسری طرف ملک میں عام انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ سکیورٹی معاملات سفارتی سطح پر حل ہونے والے ہیں‘ جانے والی حکومت بالعموم اس طرح کے اہداف کو مؤخر کر دیتی ہے‘ اس لیے قوی امکان ہے کہ سکیورٹی چیلنجز موجود رہیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ مشکلات کے باوجود پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل برقرار ہے‘ تیسری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ تینوں جمہوری ادوار سیاسی غیریقینی اور سیاسی عدم استحکام سے عبارت رہے لیکن تمام تر خدشات کے باوجود ہم جمہوری سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے نامساعد حالات کے باوجود غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکا‘ بلاشبہ ان سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کی بقا کے لیے قربانیاں بھی دی ہیں۔ معاشی مشکلات کے باوجود سیاسی جماعتوں کا مزید اقتدار میں نہ رہنے کا فیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے۔ اس امر میں اب ابہام نہیں رہا کہ آئینی مدت پوری ہونے پر حکومت ختم ہو جائے گی لیکن اس حوالے سے خدشات بہرصورت موجود ہیں کہ عام انتخابات وقت پر نہیں ہوں گے۔ انتخابات پہ خدشات کی پہلی وجہ آئین میں درج واضح شقوں کے باوجود اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کا نہ ہونا ہے۔ خدشات کی دوسری وجہ نئی حلقہ بندیوں کا نہ ہونا اور مردم شماری کے نتائج کا سرکاری اعلان نہ کرنا بھی ہے۔ خدشات کی تیسری وجہ یہ ہے کہ ریاستی سطح پر الیکشن کا ماحول دکھائی نہیں دیتا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں کہیں بھی میدان میں نہیں‘ نہ جلسہ نہ جلوس‘ نہ ہی انتخابی حلقوں میں کسی قسم کی مہم نظر آتی ہے‘ حالانکہ سیاسی سرگرمیاں الیکشن کے سال کے آغاز سے شروع ہو جاتی ہیں۔ خدشات کی چوتھی وجہ ممکنہ سیلاب ہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے کچھ علاقے سیلاب کی لپیٹ میں ہیں؛ تاہم اگر خدانخواستہ پچھلے سال جیسے سیلاب آ گئے تو ممکن نہیں رہے گا کہ متاثرہ لوگوں کو نومبر تک اپنے اپنے علاقوں میں واپس لایا جا سکے۔ پانچویں وجہ نواز شریف کی واپسی نہ ہونا ہے۔ نواز شریف کی واپسی کو الیکشن کے ممکنہ انعقاد سے جوڑا جا رہا ہے۔ چھٹی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کو ایک سابق وزیراعظم کی گرفتاری سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب تک اینٹی سٹیٹ بیانیے کا قلع قمع نہیں ہو تا تب تک الیکشن نہیں ہو سکتے۔ ساتویں وجہ الیکشن کے انعقاد میں خدشات کی وجہ دہشت گردی کی نئی لہر ہے۔ طالبان کی طرف سے ایک سیاسی جماعت کی حمایت میں الیکشن خونی ہونے کی دھمکیوں کو بھی سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے‘ اس لیے لوگوں کا ماننا ہے کہ جب تک دہشت گردی پہ کنٹرول نہ ہو تب تک الیکشن کا ماحول سازگار نہیں ہو گا۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی تفصیل ہم انہی سطور میں لکھ چکے ہیں‘ خیبر پختونخوا کی صورتحال بھی مختلف نہیں ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں پولیس اور سکیورٹی اہلکار دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ 20 جولائی کو باڑہ بازار میں واقع پولیس سٹیشن کے مرکزی گیٹ پر دھماکا کیا گیا جس میں چار افراد شہید ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ حملے کے بعد آئی جی خیبرپختونخوا نے دھماکے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس حملے میں دو حملہ آور تھے‘ ایک نے پولیس سٹیشن کے مرکزی گیٹ پر حملہ کیا جبکہ دوسرے نے عقب سے حملہ کیا۔ دونوں حملہ آوروں کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ کسی طرح سے پولیس سٹیشن کے اندر جانے کا موقع مل جائے مگر پولیس کی بروقت کارروائی سے یہ منصوبہ ناکام ہو گیا اور دونوں حملہ آور پولیس سٹیشن میں گھسنے سے پہلے ہی مارے گئے۔ اگلے روز یعنی 21 جولائی کو پشاور میں پولیس چوکی پر رات کے اندھیرے میں حملہ کیا گیا۔ جھاڑیوں میں چھپے شدت پسندوں نے چوکی پر حملے سے پہلے ہی فائر کھول دیا۔ اس سے پولیس الرٹ ہو گئی اور فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ چھ سے سات دہشت گردوں نے پولیس سٹیشن کے قریب پہنچنے کی کوشش کی مگر پولیس نے اس منصوبے کو بھی ناکام بنا دیا۔ خوش قسمتی سے‘ پولیس پر ہونے والے یہ دو بڑے حملے ناکام بنا دیے گئے‘ خدانخواستہ اگر دہشت گرد پولیس سٹیشن میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے تو کافی نقصان ہوسکتا تھا۔ یہ واقعات ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں انہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری طرف آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے اثرات مہنگائی میں اضافے کی صورت سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ متوقع تھالیکن بنیادی ٹیرف میں حالیہ ساڑھے سات روپے تک کا اضافہ‘ جس کے بعد ایک یونٹ پچاس روپے تک پہنچ گیا ہے‘عوام کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط کی وجہ سے بجلی کے نرخ بڑھانا پڑے ہیں۔ دراصل پی ٹی آئی کی حکومت نے خسارہ پورا کرنے کے لیے بجلی کی قیمت آٹھ روپے بڑھانے کا معاہدہ آئی ایم ایف سے کیا تھا مگر بجلی کی قیمت بڑھانے کے بجائے پانچ روپے کم کر دی‘ اس کا مطلب یہ کہ خسارہ تیرہ روپے بڑھ گیا‘ تاہم 78فیصد کنزیومر کے لیے بجلی تین روپے فی یونٹ بڑھی ہے کیونکہ تین سو سے چار سو یونٹ والے صارفین غالب اکثریت میں ہیں۔ عوام یہ سننے کو تیار نہیں کہ اس حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ سکیورٹی اور معاشی چیلنجز کے ساتھ نگراں سیٹ اَپ کی تشکیل اور وزیراعظم کے نام پر سیاسی جماعتوں کا اتفاقِ رائے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اُدھر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنائے جانے کی خبریں زیر گردش ہیں۔ اگر عملی طور پر ایسا ہوا تو کیا دوسری سیاسی جماعتیں اس فیصلے کو قبول کر لیں گی؟ کیا اسحاق ڈار کے بطور وزیراعظم آنے سے اِن خدشات اور افواہیں کو تقویت نہیں ملے گی کہ انتخابات ساٹھ یا نوے روز سے زیادہ مدت میں ہو سکتے ہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved