یہ اداکار شیام کی کہانی ہے۔ وہی شیام جو سیالکوٹ میں پیدا ہوا‘ راولپنڈی میں پروان چڑھا‘ گورڈن کالج میں تعلیم حاصل کی‘ بمبئی کی فلمی دنیا کے آسمان پر شہابِ ثاقب بن کر چمکا اور جس کی یادوں کی چاندنی اب بھی دلوں میں روشنی بکھیرتی ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں راولپنڈی کے گورڈن کالج سے ایم اے انگلش کر رہا تھا۔ مجھے اس بات کا احساس تھا کہ یہ محض ایک کالج نہیں بلکہ ایک تاریخ‘ ایک ثقافت اور ایک روشن روایت کا نام ہے۔ گورڈن کالج کے برآمدوں اور راستوں پر چلتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میری ہر روز تاریخ سے ملاقات ہوتی ہے۔ کیسے کیسے لعل و گہر اس کالج میں آئے‘ سرخ اینٹوں سے بنی عمارتوں کے اس جھرمٹ میں تعلیم حاصل کی اور پھر زندگی کی بھیڑ میں شریک ہو گئے۔ اس تاریخی کالج سے تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اسی فہرست میں ایک جگمگاتا نام اداکار شیام کا ہے جو بمبئی کی فلمی صنعت کے آسمان پر چمکا اور 31 سال کی جواں عمری میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا۔ اس کی زندگی شہابِ ثاقب کی طرح تھی۔ مختصر مگر یاد رہ جانے والی۔
شیام پیدا تو سیالکوٹ میں ہوا لیکن اس کا بچپن‘ لڑکپن اور جوانی کا بیشتر عرصہ راولپنڈی میں گزرا۔ اس نے گورڈن کالج سے تعلیم حاصل کی۔ گورڈن کالج ایک مشنری کالج تھا جس کا آغاز 1893ء میں ہوا تھا۔ کالج کی خاص بات اس میں ہم نصابی سرگرمیاں تھیں۔ مباحثوں کے لیے ''بار‘‘ اور ''منروا‘‘ کے نام سے دو فورم تھے۔ مشاہرے‘ کھیل اور ڈرامے کالج کی زندگی کے لازمی اجزا تھے۔ یہ قیامِ پاکستان سے پہلے کی بات ہے جب شیام گورڈن کالج کی مسحور کن فضا میں داخل ہوا۔ شیام کو اداکاری کا شوق تھا‘ اس شوق کی پرورش گورڈن کالج ڈرامیٹک سوسائٹی نے کی۔ اس کا خواب فلموں میں کام کرنے کا تھا لیکن اس خواب کی تعبیر میں ایک رکاوٹ اس کے والد تھے۔ اس کی والدہ چرن دیوی اپنے وقت کی حسین خاتون تھیں۔ کہتے ہیں شیام کی وجاہت اور دلفریب شخصیت میں اس کی والدہ کا بڑا ہاتھ تھا۔ شیام گورڈن کالج سے فارغ ہوا تو اخبارات میں مضامین لکھنے لگا۔ کتابوں سے اس کی دلچسپی غیرمعمولی تھی۔ ادب کے ساتھ اس کا لگاؤ بہت گہرا تھا۔ اردو کے نامور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے اس کی دوستی میں اہم حصہ ادب سے اس کی دلچسپی کا تھا۔
شیام کی کالج کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی لیکن اس کا دل فلموں میں اٹکا ہوا تھا۔ پھر ایک دن فلموں میں اداکاری کا خواب اسے اپنے پلو سے باندھ کر راولپنڈی سے بمبئی لے گیا۔ پہلا مرحلہ آڈیشن کا تھا جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکا لیکن اس وقت کے ہدایت کار جی کے نندا نے اسے اپنے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کی پیشکش کی۔ یوں شیام کچھ عرصے کے لیے بمبئی میں ٹِک گیا۔ اسی دوران اسے لاہور میں ایک فلم میں اداکاری کا موقع ملا۔ یہ 1942ء کی بات ہے جب لاہور فلموں کا اہم مرکز تھا۔ یہ پنجابی فلم ''گوانڈی‘‘ تھی جو باکس آفس پر ایک کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کی کامیابی نے اس کے لیے امکانات کے نئے دریچے کھول دیے۔ اس نے بمبئی میں آڈیشن دینے کا فیصلہ کیا‘ اس دفعہ اس کے ہمراہ ایک کامیاب فلم میں اداکاری کا تجربہ اور اعتماد شامل تھا۔ اس بار وہ آڈیشن میں کامیاب ہو گیا اور بمبئی کی فلمی دنیا کے دروازے اس پر کھل گئے۔
اس کے بعد کی کہانی پریوں کی کہانی جیسی ہے۔ دلفریب اور ناقابلِ یقین۔ ایک کے بعد ایک فلم میں شیام نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور بمبئی کی فلمی دنیا کو چونکا دیا۔ ان فلموں میں بازار‘ پتنگا‘ دل لگی‘ آج اور کل‘ روم نمبر 9‘ من کی جیت‘ کنیز‘ مینا بازار‘ مجبور سمادھی‘ ناچ‘ چار دن اور مینا بازار شامل ہیں۔ اسے اپنے وقت کی مشہور اداکاراؤں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں ثریا‘ نرگس‘ نگار سلطانہ اور نسیم بانو شامل ہیں۔ ثریا کے ہمراہ فلم دل میں ثریا پر فلمایا گیا گیت ''تو میرا چاند میری تیری چاندنی‘‘ بالی وڈ کے لازوال گیتوں میں شامل ہے۔ اسی دوران اس کی دوستی سعادت حسن منٹو سے ہوئی۔ دونوں بمبئی ٹاکیز کے لیے کام کرتے تھے اور کچھ عرصہ تو ایک جگہ اکٹھے رہتے بھی رہے۔ منٹو نے شیام کا خاکہ لکھا ہے جو ''مرلی کی دُھن‘‘ کے عنوان سے منٹو کی کتاب ''گنجے فرشتے‘‘ میں شامل ہے۔ خاکہ کیا ہے ایک طویل افسانہ ہے جس کا اختتام منٹو کی مخصوص پنچ لائن پر ہوتا ہے۔ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور منٹو نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو اسے رخصت کرنے کے لیے شیام بمبئی کی بندرگاہ تک آیا تھا۔ شیام خود بمبئی رہ گیا جہاں فلموں کی چکا چوند نے اسے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ اس کے دلبر شہر سیالکوٹ اور راولپنڈی اب اس کے لیے خواب بن چکے تھے۔ منٹو کے نام ایک خط میں شیام لکھتا ہے: ''میرے اندر جو قسمت آزما‘ مہم جُو اور آوارہ گرد ہے‘ ابھی تک کافی طاقتور ہے۔ میں کسی مخصوص جگہ کا نہیں اور نہ ہی کسی مخصوص جگہ کا ہونا چاہتا ہوں۔ میں لوگوں سے محبت کرتا ہوں اور ان سے نفرت کرتا ہوں۔ زندگی یونہی گزر رہی ہے۔ دراصل زندگی ایک ایسی معشوقہ ہے جس سے مجھے محبت ہے‘‘۔
شیام نے زندگی کی معشوقہ سے واقعی ٹوٹ کر محبت کی تھی۔ پے در پے کامیاب فلموں سے اب اس کے مالی وسائل میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا تھا۔ اس کا لائف سٹائل بدل گیا تھا۔ بمبئی کے قریب ہی اس نے ایک خوبصورت بنگلہ بنا لیاتھا۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک روز منٹو کو پتا چلا کہ شیام لاہور آیا ہے۔ شیام کی خواہش پر منٹو نے اپنے دوست سے ملاقات کی۔ اسے کیا پتا تھا یہ ان کی آخری ملاقات ثابت ہو گی۔ اس ملاقات کو یاد کرتے ہوئے منٹو لکھتا ہے: ''شیام کی حالت عجیب و غریب تھی۔ اس کو لاہور میں اپنی موجودگی کا شدید احساس تھا۔ اس لاہور میں جس کا فاصلہ اب امرتسر سے ہزاروں میل کا ہو گیا تھا اور اس کا راولپنڈی کہاں تھا‘ جہاں اس نے لڑکپن کے دن گزارے تھے؟ لاہور‘ امرتسر اور راولپنڈی سب اپنی اپنی جگہ پر تھے مگر وہ دن نہیں تھے‘ وہ راتیں نہیں تھیں جو شیام یہاں چھوڑ گیا تھا‘‘۔
شیام نے اپنے زمانے کی خوبصورت فنکاراؤں کے ساتھ کام کیا لیکن اس کی نگاہِ انتخاب ممتاز قریشی پر جا کر ٹھہری جسے وہ تاجی کے نام سے پکارتا تھا۔ ممتاز قریشی فلموں میں اداکاری کرتی تھی۔ زندگی خوبصورت تھی اور شیام ان خوبصورت رنگوں میں جی رہا تھا۔ پھر اسے 1951ء میں شبستان فلم میں کام کی پیشکش ہوئی۔ فلم میں ایک سین گھڑ سواری کا تھا۔ سین شروع ہوا۔ شیام نے گھوڑے کو ایڑ لگائی‘ اس کے پیچھے دوسرے گھوڑے بھی دوڑ رہے تھے‘ اچانک لوگوں نے دیکھا کہ شیام اپنے گھوڑے سے گِر پڑا ہے اور اس کے پیچھے آنے والے گھوڑے اس کے جسم کے اوپر سے گزر گئے ہیں۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ اپنی جان کی بازی ہار چکا تھا۔ اس وقت شیام کی عمر صرف 31 برس تھی۔ اس مختصر عمر میں اس نے زندگی کے سارے رنگ دیکھ لیے تھے۔ اس کی موت کے بعد اس کی بیوی ممتاز قریشی اپنے دو بچوں کے ہمراہ لاہور آگئی اور پھر راولپنڈی میں ایک تاجر انصاری سے شادی کر لی۔ شیام کی بیٹی ساحرہ کاظمی نے بڑے ہو کر اپنے والد کی روایت کو آگے بڑھایا اور اداکاری اور ہدایت کاری کے میدان میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ اس کی شادی معروف اداکار راحت کاظمی سے ہوئی جن کے دو بچوں‘ علی اور ندا نے بھی ڈراموں میں کام کیا۔ یہ شیام کی کہانی کا تسلسل ہے ۔ وہی شیام جو سیالکوٹ میں پیدا ہوا‘ راولپنڈی میں پروان چڑھا‘ گورڈن کالج میں تعلیم حاصل کی‘ بمبئی کی فلمی دنیا کے آسمان پر شہابِ ثاقب بن کر چمکا اور جس کی یادوں کی چاندنی اب بھی دلوں میں روشنی بکھیرتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved