تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     26-07-2023

تعلیمی ادارے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار

تعلیمی اداروں کے قیام کا مقصد انسانوں کی تعلیم و تربیت کرنا ہے۔ والدین کی سرپرستی اور تربیت کے بعد تعلیمی ادارے اور اساتذہ انسان کی شخصیت کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ انسان خوش قسمت ہے جس کو اچھے اور باکردار اساتذہ میسر آ جائیں۔ اچھے اور باعمل اساتذہ انسان کی شخصیت کو نکھارتے ہیں جبکہ اس کے مدمقابل ناپختہ اساتذہ انسانی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کئی مرتبہ تعلیمی اداروں کے حوالے سے ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں جن کی وجہ سے ہر باشعور انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ معاشرے کے سب سے اعلیٰ اور معزز طبقے کی اخلاقی حالت اتنی کمزور ہے تو نجانے باقی طبقات کی حالت کیا ہو گی۔
اساتذہ انسان کے لیے ایک مثال کا درجہ رکھتے ہیں اور انسان شعوری اور لاشعوری طور پر اُن کی شخصیت سے رہنمائی حاصل کرتا اور اُن کی شخصیت کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر اساتذہ انسان کے لیے مثال بننے کے بجائے اس کو غلط راستے پر چلانے کی کوشش کریں یا اس کی شخصیت کو مسخ کرنے کی کوشش کریں تو اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہمارے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور مدارس کے بارے میں کئی مرتبہ اس قسم کی نامناسب باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ اساتذہ نے طلبہ کے ساتھ بداخلاقی کا ارتکاب کرنے کی کوشش کی یا اُن کو غلط راستوں کی طرف مائل کیا۔ حالیہ ایام میں ملک کے ایک معروف تعلیمی ادارے کے اساتذہ کے بارے میں نہایت نامناسب باتیں سننے کو ملی ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے کہ اگر تعلیمی اداروں میں طلبہ کی عزت محفوظ نہیں تو کسی اور جگہ پر عافیت کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔
ہر انسان کی یہ تمنا اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرے لیکن اس قسم کے واقعات کی وجہ سے والدین میں اپنی اولاد کے مستقبل کے بارے میں بے چینی اور بے قراری کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ تعلیمی اداروں میں اعلیٰ اخلاقی کردار کے فروغ کے لیے جہاں اساتذہ کی تعلیمی صلاحیتوں کو اہمیت دی جانی چاہیے‘ وہیں ان کی سیرت و کردار پر بھی خصوصی توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ معیاری تعلیمی اداروں میں اسناد کے ساتھ ساتھ کریکٹر سرٹیفکیٹ بھی دیا جاتا ہے۔ مقصد اس چیز کو ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ فارغ التحصیل طالب علم فقط تعلیم یافتہ نہیں بلکہ اچھی سیرت و اچھے کردار کا حامل بھی ہے۔
بہت سے بین الاقوامی معیار کے تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت اسناد سے کہیں بڑھ کر تزکیے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں موجودہ اخلاقی گراوٹ اور بے راہ روی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اساتذہ اور طلبہ اپنے حقوق و فرائض سے مکمل طور پر غافل ہو چکے ہیں۔ اس اخلاقی بحران سے باہر نکلنے کے لیے ہمیں اساتذہ کے حقوق و فرائض کے حوالے سے کتاب و سنت کی تعلیمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب کتاب و سنت کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اساتذہ کو بہت سی اہم ذمہ داریاں تفویض کی ہیں‘ جن میں سے دو اہم ذمہ داریاں درج ذیل ہیں:
1۔ تعلیم دینا: اساتذہ کی پہلی ذمہ داری طلبہ کو مفید علم دینا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے معلم انسانیت حضرت رسول اللہﷺ کے حوالے سے کلام اللہ میں اس بات کا ذکر کیا کہ وہ لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ علمی اعتبار سے پختہ اساتذہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ احسن اور سلیس انداز میں علم طلبہ تک منتقل کریں۔
2۔ تربیت و تزکیہ کرنا: اساتذہ پر دوسری اہم ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ طلبہ کی تربیت اور تزکیے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کریں۔ اساتذہ کو کتابیں پڑھانے کے ساتھ ساتھ انسانی اخلاق اور رویوں کو سلجھانے کے لیے بھی اپنی ذمہ داری کو نبھانا چاہیے۔ بالخصوص علوم اسلامیہ و دیگر سماجی علوم کے ماہرین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف زبان ہی کے ذریعے تربیت کا فریضہ انجام نہ دیں بلکہ اپنی سیرت و کردار کے ذریعے اپنے طلبہ کے لیے ایک مثال بنیں۔ نبی کریمﷺ جو معلم انسانیت تھے‘ اُن کے حوالے سے اس بات کو واضح کیا گیا کہ آپﷺ لوگوں کا تزکیہ فرمانے والے ہیں۔ جب نبی کریمﷺ نے حضراتِ صحابہ کرامؓ کی تربیت کی تو وہ اخلاقی اعتبار سے انتہائی بلند ہو گئے۔
جہاں اساتذہ کے کئی فرائض ہیں‘ وہیں اساتذہ کے بہت سے حقوق بھی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ اساتذہ کا ادب و احترام کرنا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ رحمن کی آیت نمبر 60 میں ارشاد فرمایا ہے: ''نہیں ہے احسان کا بدلہ مگر احسان ہی‘‘۔ چنانچہ جن لوگوں نے ہمیں تعلیم دینے کے لیے اپنے وقت اور صلاحیتوں کو صرف کیا ہو اور ہماری شخصیت کی نشو و نما میں کلیدی کردار ادا کیا ہو یقینا والدین کے بعد ان کا ادب اور احترام ہم پر لازم ہے اور ہمیں کوئی ایسا عمل نہیں کرنا چاہیے جس سے ان کی تنقیص یا بے ادبی ہوتی ہو۔
2۔ اساتذہ کی باتوں کو توجہ سے سننا: طلبہ کو دورانِ تدریس اساتذہ کی باتوں کو توجہ سے سننا چاہیے اور اپنی سوچ و فکر کو ان کی گفتگو کی طرف مرکوز رکھنا چاہیے۔ جو طلبہ اساتذہ کی گفتگو کو توجہ سے سنتے ہیں یقینا وہ اساتذہ سے علم و دانش کے موتیوں کو چننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس طرزِ عمل کی وجہ سے علم کے میدان میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ علم فقط کتب بینی سے ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ علم کے حصول میں اساتذہ کا حاصلِ مطالعہ اور تدریس نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ جو لوگ اساتذہ کے تجربات اور مطالعے سے استفادہ کرتے ہیں وہ کئی مرتبہ بہت سی کتابوں کے مطالعے سے بڑھ کر علمی نکات جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
3۔ ادب اور دلیل سے اختلاف کرنا: بسا اوقات اساتذہ کی کہی ہوئی بات علمی اعتبار سے مستند نہیں ہوتی۔ اس موقع پر ان پر طنز یا تنقید کرنے کے بجائے طالب علم کو دلیل کے ساتھ اپنے موقف کو اساتذہ کے سامنے رکھنا چاہیے جس سے علم اور تحقیق کا حق بھی ادا ہو جائے اور اساتذہ کی دل شکنی یا تنقیص بھی نہ ہو۔
4۔ اساتذہ کی ضرورت کے وقت ان کے کام آنا: اہلِ اسلام پر دوسرے مسلمانوں کی خیر خواہی اور ان کی معاونت لازم ہے۔ احادیث مبارکہ کے مطابق‘ بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے۔ ہمارے قرب و جوار میں بسنے والے لوگوں میں سے اساتذہ ہماری توجہات کے بہت زیادہ حق دار ہیں۔ بہت سے اساتذہ کئی مرتبہ مالی مشکلات یا کسی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے موقع پر اسلام اور انسانیت کے ناتے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی مالی مدد اور تیمارداری کریں۔ احادیث مبارکہ میں بیماروں کی تیماری داری کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی گئی ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے عظیم اساتذہ بیماری کے ایام میں تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جہاں ان کے اعزہ و اقارب ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں وہیں ان کے شاگرد بھی ان کی خبر گیر ی نہیں کرتے۔ یہ ایک بہت بڑا معاشرتی المیہ ہے جس کے ازالے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
5۔ اساتذہ کے لیے دعا کرنا: مسلمانوں کو جہاں دوسرے مسلمانوں کے لیے دعا کرنی چاہیے‘ وہیں اپنی دعاؤں میں اپنے محسنین اور اساتذہ کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے اور ان کے لیے دعائے خیر کرتے رہنا چاہیے۔ جو شخص غائب مومن کے دعا کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ ایک فرشتے کو مقرر فرماتے ہیں جو اس کے لیے بھی وہی دعا کرتا ہے۔اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح مسلم میں حضرت اُم درداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اپنے بھائی کی پیٹھ پیچھے اس کے لیے دعا کرے مگر ایک فرشتہ (ہے جو) کہتا ہے: تمہیں بھی اس کے مانند ملے۔
6۔ اساتذہ کے لیے کلمہ خیر کہنا: اساتذہ کے لیے کلمہ خیر کہنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ بہت سے لوگ اپنے اساتذہ کے احسانات کو فراموش کرکے ان کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتے اور ان کی تنقیص یا ان کا استہزا کرتے ہیں۔ یہ رویہ ہر اعتبار سے قابلِ مذمت ہے۔ انسان کو اپنے اساتذہ کی عدم موجودگی میں بھی ان کے لیے کلمہ خیر کہنا چاہیے اور لوگوں کو ان کے اچھے اخلاق، کار ہائے نمایاں اور شخصی احسانات سے بھرپور طریقے سے آگاہ کرنا چاہیے۔
7۔ اساتذہ کے ساتھ خوش اخلاقی سے ملاقات: اگر انسان کو زندگی کے کسی موڑ پر اپنے اساتذہ سے ملنا پڑے تو اپنی سماجی اور معاشی حیثیت کی وجہ سے ان کے ادب و احترام میں کسی قسم کی کمی و کوتاہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اساتذہ کے منصب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کی بھرپور عزت اور تکریم کرنی چاہیے اور ماضی کے ان لمحات کو ذہن میں رکھنا چاہیے جب بحیثیت استاد وہ انسان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کر رہے تھے۔
8۔ موت کے بعد دعائے مغفرت: اساتذہ کی موت کی صورت میں انسان کو ان کے جنازے میں شرکت کرنی چاہیے اور ان کے لیے دردِ دل سے دعائے مغفرت کرنی چاہیے اور اگر جنازے میں شرکت کرنا ممکن نہ ہو تو انسان کو ان کے لیے دعائے مغفرت کو جاری رکھنا چاہیے۔
اگر اساتذہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں اور طلبہ اُن کے حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کریں تو یقینا معاشرہ اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے ایک صحت مند معاشرے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے تعلیمی اداروں کے ماحول کو بہتر بنائے اور ہمیں غیر اخلاقی سرگرمیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved