فوجی اور سول کا فرق دنیا بھر میں موجود ہے۔ فوجیوں کا طرزِ زندگی‘ نظم و ضبط سمیت کئی اہم پہلوئوں سے سول طرزِ زندگی سے مختلف رہتا ہے۔ اس قدر مختلف کہ فوجیوں کے لطیفوں کے مجموعے تک الگ سے شائع ہوتے ہیں لیکن جس نوعیت کا فرق پاکستان میں ہے وہ خاصا منفرد ہے۔ یا کم از کم دکھائی ایسا ہی دیتا ہے۔ پاکستان میں کئی بار فوجی حکومتیں رہیں۔ فوجی حکومتوں کے دور میں کاروبار حکومت چلانے میں تقریباً اتنے ہی سویلین افسر اور ا ہلکار شامل رہے جتنے کہ کسی بھی سویلین حکومت کو چلانے میں شامل تھے۔ جھگڑا یہ رہتا ہے کہ ملک کے مستقبل کے لیے بڑے بڑے اور اہم فیصلے کون کرے گا۔ دنیا بھر میں قومی نوعیت کے بڑے بڑے فیصلے قومی قیادت کرتی ہے‘ اس کے لیے فوجی یا سویلین کی تخصیص نہیں۔ حکومتوں میں فیصلہ سازی کے ماہرین بتاتے ہیں کہ ملکوں میں Power game باسکٹ بال کے میچ کی طرح ہوتی ہے جس میں توقع کی جاتی ہے کہ ملک کا چیف ایگزیکٹو سب سے زیادہ پوائنٹ سکور کرے گا لیکن جو دوسرے کھلاڑی ہیں اُن کو بھی بال کو نیٹ میں ڈالنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ اسے سمجھنے کے لیے کہ اگر آپ امریکہ کی مثال لیں تو وہاں امریکی صدر ملک کا چیف ایگزیکٹو بھی ہوتا ہے اور عام حالات میں توقع کی جاتی ہے کہ ملک کے بڑے بڑے فیصلے وہی کرے گا مگر حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں کیونکہ پاور گیم کے دوسرے کھلاڑی اگر صدر سے پہلے کوئی اقدام کردیں تو وہ اقدام ریاست کا اقدام گنا جاتا ہے۔ صدر ریگن کے دور میں وائٹ ہائوس یہ چاہتا تھا کہ فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو اقوام متحدہ آنے کے لیے ویزہ جاری کردیا جائے مگر اس دور کے وزیر خارجہ جارج شلز نے پہلے ہی یاسر عرفات کو ویزہ دینے سے انکار کر کے اسی فیصلے کو وائٹ ہائوس کی مجبوری بنا دیا۔ امریکہ میں محکمہ دفاع یعنی پینٹاگون‘ امریکی محکمہ خارجہ یعنی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے سمیت کئی اہم ادارے ہیں جو پاور گیم کے کھلاڑی باور کیے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ پاور گیم میں امریکہ کے ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ اسی طرح اگر آپ امریکی نظام حکومت کی مزید تفصیل میں جائیں تو Lobbyists کے کردار بھی سامنے آئیں گے پھر تھنک ٹینک کتنا اثرو رسوخ رکھتے ہیں اس کا بھی پتہ چلے گا اور یوں آپ کو اندازہ ہوگا کہ فیصلہ سازی کتنا گنجلک اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اتنی پیچیدگیوں کے باوجود امریکہ میں قومی سطح کے امور پر اہم فیصلے ہوتے ہیں اور پاور گیم میں ملک کے اہم ادارے مؤثر انداز میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ یہ قومی ادارے‘ انتہائی مضبوط ادارے ہیں۔ تاہم جب قومی نوعیت کا کوئی فیصلہ ہو جاتا ہے تو یہ سب ادارے اس فیصلے کے پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس پس منظر کے بعد جب ہم اپنے ملک پر نظر ڈالتے ہیں تو دو کھلاڑی پاور گیم کا بڑاحصہ ہیں۔ محض دو کھلاڑی ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں پاور گیم کی شکل بظاہر فتح اور شکست کے کھیل جیسی دکھائی دینے لگتی ہے۔ قومی نوعیت کا کوئی فیصلہ کسی فوجی حکومت کے دور میں جب بھی ہوا ہمیں سیاستدان اس کے پیچھے دکھائی نہ دیے اور سول حکومتوں کے فیصلوں کے پیچھے ہمیں فوج کم ہی دکھائی دی۔ آج کل تاثر تو یہی دیا جا رہا ہے کہ سول حکومت اور فوجی قیادت باہم اشتراک و تعاون سے قومی نوعیت کے فیصلے کریں گی۔ آل پارٹیز کانفرنس میں سبھی موجود تھے؛ تاہم ابھی تک باہمی اشتراک کا کوئی عملی مظاہرہ سامنے نہیں آیا۔ ہمارے ہاں کہا تو جاتا ہے کہ ادارے مضبوط ہونے چاہئیں مگر ادارے ہوں تو مضبوط ہوں۔ کیا ہم اپنے دفتر خارجہ کو امریکی محکمہ خارجہ کی طرح ایک الگ ادارہ سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارا دفتر خارجہ تاحال تو بڑے کھلاڑیوں کے اشارے پر ہی چلتا ہے۔ ہمارے ملک کی اہم ترین ایجنسی کی کارکردگی بہترین گنی جاتی ہے مگر یہ وزیراعظم کے ماتحت ہونے کے باوجود ایک ذیلی ادارہ ہی رہتی ہے۔ اسی طرح انٹیلی جنس بیورو‘ سول حکومت کا ادارہ گنا جاتا ہے۔ بعض لوگ اعلیٰ عدلیہ کو پاور گیم میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ حقیقت نہیں۔ کسی طور بھی عدل و انصاف فراہم کرنے والا ادارہ پاور گیم کا حصہ نہیں بن سکتا۔ عدلیہ کو کسی طور بھی پاور گیم کا حصہ باور نہیں کیا جا سکتا۔ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات یا ان کے خلاف فوجی آپریشن‘ ایک بڑا فیصلہ ہے جو پاکستان کو درپیش ہے۔ یہ فیصلہ نہ سول قیادت تنہا کر سکتی ہے اور نہ فوجی قیادت تنہا۔ آج کل مذاکرات کی بات چل رہی ہے تو اس کے خلاف سازشوں کا ذکر بھی جاری ہے۔ دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات کو ان سازشوں کا حصہ کہا جا رہا ہے۔ طالبان خود ہی کمزور پڑ جائیں یا داخلی انتشار کا شکار ہو کر تتّر بتّر ہو جائیں تو الگ بات ہے لیکن اس فتنے کو ختم کرنا کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں بلکہ تمام اداروں کو یکجا ہونا ہوگا۔ دہشت گرد جب بھی کوئی واردات کرتے ہیں اس میں بہت زیادہ نظم دکھائی دیتا ہے۔ اگر یہ لوگ ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے اکٹھے ہیں تو ہم لوگ جن کا یہ وطن ہے اور جو اس کی مٹی سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں بھی آپس میں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ محض حکومت یا فوج پر ذمہ داری ڈالنا مناسب نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ملک کے بچے بچے کو کھڑا ہونا ہوگا‘ تبھی اس میدان میں جیت ممکن ہوگی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved