دِل سیاسی کھیل سے آزردہ ہو جائے تو کھیل کے میدانوں میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ مدتوں بعد پاکستانی کرکٹ پر وہ ماہ و سال اترے ہیں جس میں ہر کچھ دن بعد اچھی خبریں مل رہی ہیں۔ حالیہ برسوں میں ٹیم ایک بار پھر بلندیوں کی طرف گئی ہے۔ ٹی 20ورلڈ کپ ہو‘ ایشیا کپ ہو یا ٹیسٹ میچز‘ کامیابیوں کے ایک ہموار تسلسل نے اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔ کرکٹرز کے اعتماد ہی میں نہیں‘ ان پر قوم کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کولمبو میں اس وقت پاکستان اور سری لنکا کے بیچ ٹیسٹ میچوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان ایک میچ جیت چکا اور دوسرے کی جیت کے آثار ہیں۔ اسی درمیان کولمبو ہی میں ایشیا ایمرجنگ کپ میں پاکستان اے ٹیم نے ہندوستان کو کم و بیش ایک یکطرفہ مقابلے میں باآسانی شکست دی تو ان نوعمر کھلاڑیوں نے کپ نہیں‘ گویا دِل جیت لیا۔ اسی ایمرجنگ کپ کے گروپ میچ میں انڈیا پاکستان کو پچھاڑ چکا تھا۔ صائم ایوب‘ طیب طاہر سمیت ہر ایک کھلاڑی نے بہت بہتر کارکردگی دکھائی اور فائنل کا پریشر نہیں لیا۔ یہ نفسیاتی دباؤ بھی نہیں لیا کہ پہلے بھارت سے ہار چکے ہیں۔
بھارت اور ویسٹ انڈیز کا میچ ڈرا ہو جانے اور پاکستان کے سری لنکا کو پہلے ٹیسٹ میچ میں ہرا دینے کے بعد اب آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں پاکستان پہلے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ میں حالیہ برسوں میں پاکستان کے اہم میچ اور کارکردگی دیکھتا رہا ہوں۔ ایک بلندی کی طرف گامزن عروج کافی برسوں سے نظر آرہا ہے۔ پاکستان نے عالمی کرکٹ میں واپسی کی ہے۔ بابر اعظم‘ رضوان احمد‘ شاہین آفریدی تو اب انفرادی کارکردگی کے لحاظ سے رینکنگ میں سب سے اوپر کے ناموں میں نظر آتے ہیں لیکن نسیم شاہ‘ افتخار احمد‘ سعود شکیل‘ ابرار احمد اور صائم ایوب وغیرہ بھی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان سب نے یہ ثابت کیا ہے کہ بڑے ٹورنامنٹس میں اور کانٹے کے میچوں میں ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور یہ بڑی بات ہے۔ بات صرف بیٹنگ ہی کی نہیں‘ صرف باؤلنگ ہی کی نہیں‘ فیلڈنگ کی بھی ہے جس میں نظر آتا ہے کہ کھلاڑی جان مارتے ہیں‘ ایک اور پہلو کپتانی بھی ہے جو میچ جتوانے میں نہایت اہم ہے۔میں سوچتا رہا کہ یکایک گزشتہ عشرے میں جو مجموعی طور پر ملکی سیاست کے بدترین اکھاڑ پچھاڑ کا عشرہ تھا‘ کیا ایسی جوہری تبدیلی ہوئی جس نے اس کھیل کو بھی عروج بخشا ہے اور کرکٹ بورڈ کو بھی نیک نامی دی ہے۔ کرکٹ بورڈ میں ایسی کونسی جوہری تبدیلی آئی ہے ؟ کیا کھلاڑیوں کے پر نکل آئے ہیں؟ یا بیٹسمن نے لوہے کے بیٹ استعمال کرنا شروع کردیے ہیں؟ یا باؤلرز نے اپنی گیندوں میں جی پی آر ایس کی چپ لگوائی ہے؟ یا فیلڈرز نے ہاتھوں میں مقناطیس فٹ کروا لیے ہیں؟
کرکٹ بورڈ پر کتنی بھی تنقید کی جائے‘ اس کی داد دینا پڑے گی کہ سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد جب پاکستان میں عالمی کرکٹ ختم ہوکر رہ گئی تھی‘ بورڈ نے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر مسلسل شامل رکھنے میں بہت اہم اور بروقت کردار ادا کیا۔ دبئی اور ابو ظہبی میں بین الاقوامی میچز‘ ٹیموں سے ربط ضبط بہت فائدہ مند ثابت ہوئے۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر پاکستان سپر لیگ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ان مقابلوں نے ایک طرف تو کرکٹ کے میدان آباد کیے‘ دوسری طرف بین الاقوامی کھلاڑیوں کو پاکستان میں آنے اور تعلقات بڑھانے کے مواقع فراہم کیے۔ تیسری طرف پی ایس ایل کی بدولت نیا ٹیلنٹ سامنے آیا۔ وہ ٹیلنٹ جس نے پاکستان کو بہت سے اہم نام دیے۔ مقبول کھیل ہونے کے باعث کرکٹ کو کئی فوائد حاصل ہوئے۔ پی ایس ایل نے جیسے جیسے مقبولیت حاصل کی‘ اسے سرپرست ملتے گئے۔ کھیل میں پیسہ آتا گیا تو بورڈ پر بھی دباؤ بڑھتا گیا۔ بین الاقوامی کھلاڑی بھی شامل ہو چکے تھے اور ٹیموں کے مالکان اور سپانسرز بھی۔ اب بورڈ اپنی من مانی نہیں کر سکتا تھا۔ اس صورتحال نے کئی جہات میں بہتری کی۔ بورڈ پر تنقید کئی طرف سے ہونی لازمی تھی‘ اس لیے کارکردگی کے بغیر گزارا نہیں تھا۔ میدان میں موجود کھلاڑیوں کا بھی اور بورڈ میں بیٹھے سابقہ کھلاڑیوں کا بھی۔ ایک تو سفارش اور پسند ناپسند کا عمل دخل نہایت کم ہوکر رہ گیا۔ دوسرے اقربا پروری کا امکان نہ رہا کیونکہ میدان میں رشتے داری نہیں چل سکتی۔ اپنے آپ کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ قوم کی کرکٹ سے بے حد وابستگی نے من مانے فیصلوں کیلئے گنجائشیں بہت کم کر دیں۔ پی ایس ایل کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ان علاقوں سے بیٹر اور باؤلرز سامنے آنے لگے جہاں کی پہلے نمائندگی ہوتی ہی نہیں تھی۔ کے پی‘ وزیرستان اور دیگر علاقوں سے نوجوان خون شامل ہوا اور میرٹ پر اپنے آپ کو منوانے لگا۔ لیکن یہ سب آسان نہیں تھا۔ سخت مقابلے کے ماحول میں صرف بیٹنگ‘ صرف باؤلنگ ہی کافی نہیں تھی‘ جسمانی فٹنس کے بغیر فیلڈنگ نہیں کی جا سکتی تھی اور فیلڈنگ کے بغیر محض بیٹنگ اور باؤلنگ ناکافی تھی۔ ہر پی ایس ایل ٹیم میں ایک جگہ کیلئے بیسیوں قابل امیدوار موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ آپ قومی ٹیم میں ایک ایک انچ پر مقابلے کا تصور کر سکتے ہیں۔ اس سطح پر جہاں نوجوان کھلاڑیوں میں ایک ایک بلکہ آدھے آدھے نمبروں سے برتری جانچی جارہی تھی‘ جسمانی اور اعصابی مضبوطی لازمی تھی۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ پی ایس ایل اور اندرون ملک مسابقت نے کھلاڑیوں کو مانجھ کر اوپر کی سطح پر پہنچا دیا۔ بہتری کی ایک بڑی وجہ بیٹنگ‘ باؤلنگ اور فیلڈنگ کوچز ہیں جنہوں نے کھلاڑیوں پر سخت محنت کی اور اب کافی مدت سے ٹیم کی فیلڈنگ بھی قابلِ داد ہوگئی ہے۔
بھارت کا کرکٹ بورڈ نہایت مالدار ہے چنانچہ کھلاڑیوں کو بھی بہترین کنٹریکٹ ملنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ انڈین پریمئر لیگ یعنی آئی پی ایل کا مالی حجم پی ایس ایل سے کئی گنا بڑا ہے لیکن حالیہ برسوں میں میدان میں یہ فرق بالکل نظر نہیں آیا بلکہ اکثر برتری پاکستان کی رہی۔ تیز باؤلنگ میں پاکستان ہمیشہ سے آگے رہا ہے جبکہ یہ بھارت کا ہمیشہ سے کمزور شعبہ ہے اور اب بھی انڈیا کو میچ وِنر باؤلرز کی تلاش ہے۔ جبکہ پاکستان کے پاس عالمی سطح کے وہ باؤلرز موجود ہیں جن کے بیچ انتخاب بھی ذرا کٹھن کام ہے۔ ان میں اکثر باؤلرز پی ایس ایل کی دین ہیں۔
تمہیدہی اتنی طویل ہوگئی کہ جو اصل بات کہنی تھی اس کیلئے جگہ بہت کم رہ گئی۔ کہنا یہ تھا کہ اسی معاشرے میں‘ انہی لوگوں کے بیچ‘ سفارشوں‘ ناانصافیوں‘ اقربا پروری کے درمیان‘ اگر کرکٹ ٹیم کو ایک بار پھر عروج مل سکتا ہے تو ہاکی کو کیوں نہیں؟ سکواش‘ ٹیبل ٹینس‘ فٹبال‘ بیڈ منٹن وغیرہ کو کیوں نہیں؟ یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ کرکٹ میں لوگوں کی دلچسپی ہے‘ باقی کھیلوں میں نہیں۔ کرکٹ ٹیم زوال کا شکار تھی تو اسی قسم کی باتیں اس کے متعلق بھی کی جاتی تھیں۔ لیکن کامیابی سارے منہ بند کردیتی ہے۔ درست فیصلے‘ درست طریقۂ کار‘ اچھے نتائج لازما پیدا کرتا ہے۔ قومی کھیل ہاکی کا یہ حال کردیا گیا ہے کہ لوگ کوئی میچ دیکھنا پسند ہی نہیں کرتے۔ مدتیں ہو گئیں‘ حسرت ہے کہ ہاکی میں بھی کسی بڑی جیت کی خبر آئے۔ یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے کہ ہاکی کو بھی سفارش‘ اقربا پروری اور پسند ناپسند سے پاک کرکے ایک بار پھر دنیا کی توجہ حاصل کی جائے۔ اگر ہمسایہ ملک میں آئی پی ایل کے بعد ہمارے ہاں پی ایس ایل شروع ہوکر اس سے بہتر نتائج دے سکتا ہے تو ہاکی فیڈریشن کس انتظار میں ہے؟ ہاکی میں پی ایس ایل کی طرح کے ٹورنامنٹ کیوں نہیں ہو سکتے؟ سرپرست کیوں نہیں مل سکتے؟ ہاکی کی نرسریاں دوبارہ کیوں نہیں بن سکتیں؟ سب ہو سکتا ہے اگر کوئی کرنا چاہے۔ کام کرنے کے ہزار راستے ہیں اورنہ کرنے کے سو بہانے۔ طے کریں کہ آپ نے راستہ بنانا ہے یا بہانہ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved