دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے گروپ جی 20 کی صدارت رواں سال بھارت کے پاس ہے۔ حالیہ اجلاس میں سعودی عرب نے فوسل فیول کے محدود استعمال کے حوالے سے اجلاس میں اتفاقِ رائے نہیں ہونے دیا۔ اس معاملے پر سعودی عرب کو روس کی حمایت بھی حاصل تھی۔ روس اور سعودی عرب بھارت کو تیل فراہم کرنے والے بڑے ممالک ہیں۔ سعودی عرب کی قیادت میں کئی ممالک نے جی 20 ممالک کی جانب سے فوسل فیول کے استعمال میں کمی کی تجویز کی مخالفت کی۔ فوسل فیول میں کمی کے سلسلے میں کیے جانے والے اقدام کو مستقبل میں تیل، گیس اور کوئلے کے کردار پر عالمی تناؤ کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ دنیا موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے دوچار ہے۔ اس اجلاس میں 2030ء تک قابلِ تجدید توانائی کی صلاحیت کو تین گنا کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ سعودی عرب اور روس کے علاوہ سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرنے والے ملک چین کے ساتھ کوئلہ برآمد کرنے والے ممالک جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا نے بھی اس تجویز کی مخالفت کی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور روس کو اس پر اعتراض کیوں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جب بھی قابلِ تجدید توانائی کے وسائل کی طرف بڑھنے کی بات ہوتی ہے، اوپیک پلس گروپ کے ممالک اصولی طور پر اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن عملی اقدامات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں یہ ممالک ایسے اقدامات کی مکمل حمایت نہیں کرتے۔ اس کی وجہ ان کی معیشت کا فوسل فیول پر انحصار ہے۔کوئی ملک بھی اپنی آمدنی کو دائو پر لگانے کے لیے تیارنہیں ہے۔ خصوصی طور پر ان حالات میں تیل کی برآمدات پر کوئی سمجھوتا نہیں کرنا چاہتا۔ روس یوکرین جنگ نے روس کی مالی مشکلات میں پہلے ہی اضافہ کر رکھا ہے۔ روس کا یہ بھی خیال ہے کہ موجودہ حالات میں ان معاملات پر زور دینا بلاوجہ نہیں ہے۔ یہ امریکہ اور یورپ کی روس کو کمزور کرنے کی ایک منظم سازش ہے۔ جہاں تک معاملہ سعودی عرب کا ہے تو وہ اس وقت چین اور روسی لابی کا حصہ ہے۔ ترکیہ کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں اور ایران کے ساتھ معاملات بھی بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ سعودی حکومت نے نیوٹرل رہنے کے بجائے کسی ایک طرف کھڑے رہنے کو ترجیح دی ہے لیکن بھارت نے اس مرتبہ پھر نیوٹرل رہتے ہوئے نہ اس معاملے کے حق میں ووٹ دیا اور نہ ہی اس کی مخالفت کی۔ بھارت کی کوشش ہے کہ جس طرح بالی کانفرنس کامیاب ہوئی تھی‘ اسی طرح گوا کی جی 20 بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بالی سَمٹ کے وقت روس یوکرین جنگ اس سطح پر نہیں پہنچی تھی جہاں آج ہے۔ اب صورتحال بہت بدل چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوا کانفرنس کے بالی سمٹ کی سطح پر کامیابی کے امکانات کم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر اتفاقِ رائے نہ ہو تو کامیابی نہیں مل سکتی۔ آج عالمی سطح پر جی 20 کے لیے جو رکاوٹیں ہیں وہ بالی سربراہی اجلاس کے دوران نہیں تھیں۔ بالی سمٹ کے دوران ایندھن، خوراک اور پیداوار کا اتنا بڑا بحران نہیں تھا اور اب روس بحیرۂ اسود کے اناج کے معاہدے سے بھی نکل آیا ہے۔ اس کا اثر پوری دنیا میں نظر آ سکتا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بھارت نے بھی چاول کی برآمدات پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ تمام حالات دنیا کو نئی پیچیدگیوں کی طرف دھکیل رہے ہیں اور بھارت کو اس کا معاشی اور سفارتی نقصان ہو سکتا ہے۔
بھارت عالمی معاشی مسائل کو سلجھانے کے لیے کردار ادا کرنے والے ملکوں کی صف میں کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ ہم ملکی مسائل کو بھی حل کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دے رہے۔ حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں ساڑھے سات روپے فی یونٹ تک اضافے کے بعد بجلی کے بلوں میں ہو شربا اضافہ عوام کی مالی مشکلات میں اضافے کا سبب بنے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ 200 یونٹ تک کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، 63 فیصد گھریلو صارفین پر بوجھ نہیں پڑے گا، 31 فیصد صارفین کو جزوی سبسڈی دی گئی ہے۔ ماہانہ 100 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کیلئے بجلی کا ٹیرف 3 روپے اضافے کے بعد 16 روپے 48 پیسے ہو گا۔ سو سے 200 یونٹس تک کا ٹیرف چار روپے اضافے سے 22 روپے 95 پیسے ہو گا۔ 201 سے 300 یونٹس تک کا ٹیرف 5 روپے اضافے سے27 روپے 14 پیسے اور ماہانہ 301 سے400 یونٹس کا ٹیرف 6 روپے 50 پیسے اضافے کے بعد 32 روپے 3 پیسے فی یونٹ ہو جائے گا۔ ماہانہ401 سے500 یونٹ کا ٹیرف 7 روپے 50 پیسے اضافے سے35 روپے 24 پیسے اور ماہانہ 501 سے 600 یونٹ تک کا ٹیرف 7 روپے 50 پیسے اضافے کے بعد 37 روپے 80 پیسے فی یونٹ ہو جائے گا۔ ماہانہ 700 یونٹ سے زیادہ کا ٹیرف7 روپے50 پیسے اضافے کے بعد 42 روپے 72 پیسے فی یونٹ تک پہنچ جائے گا جس میں سیلز ٹیکس شامل کرنے کے بعد اس کی قیمت 50 روپے فی یونٹ تک پہنچ جائے گی۔ یہ بوجھ صرف گھریلو صارفین پر نہیں بلکہ انڈسٹری پر بھی ہے۔ اب کون سی انڈسٹری ایسی ہے جو صرف دو سو یونٹس پر چلتی ہو؟ جب انڈسٹری کے بجلی کے بلوں میں اضافہ ہو گا تو اس کا اثر ہر امیر‘ غریب پر برابر پڑے گا۔ وزیراعظم صاحب اس کا ذمہ دار آئی ایم ایف کو قرار دیتے ہیں لیکن اس ناکامی کا اعتراف نہیں کر رہے کہ حکومت بجلی چوری روکنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے بجلی کی قیمتیں بڑھانا پڑ رہی ہیں۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں کئی ایسے فیڈرز ہیں جہاں 99 فیصد تک ریکوری نہیں ہے لیکن کوئی بھی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے‘ جہاں حکومت کے ساتھ اپوزیشن کا کردار بھی مؤثر ہوتا ہے۔ حکمرانوں سے گلہ ایک طرف‘ ہمارے ملک میں بجلی چوری کے حوالے سے اپوزیشن کی بھی کوئی قابلِ ذکر آواز نہیں اٹھی۔ اب عوامی سطح پر بھی یہ شعور پایا جاتا ہے کہ بجلی کی قیمتیں بڑھانا مسئلے کو حل کرنا نہیں‘ بلکہ اس پر مٹی ڈالنے کے مترادف ہے۔ اگر قیمتیں بڑھانے سے خسارے پورے ہو سکتے تو کئی سال قبل مطلوبہ مقصد حاصل کیا جا چکا ہوتا۔ حکمرانوں کو شاید یہ حقیقت سمجھ نہیں آ رہی یا وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ پاکستان کے انرجی مسائل کا مستقل حل نئے ڈیمز کی تعمیر ہے۔ فرنس آئل سے بجلی پیدا کرکے ملکی معیشت کو کامیابی سے چلانا اب ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔
دوسری جانب فارن ایکسچینج کے حوالے سے سرکار کی معاشی پالیسی کیا ہے‘ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ڈالر کو انتظامی طور پر بھی کنٹرول نہیں کریں گے اور دوسری طرف سٹیٹ بینک نے ملک میں ڈالر کی دستیابی کے فروغ کے لیے اہم سرکلر جاری کیا ہے جس کے مطابق سٹیٹ بینک نے ملک بھر کی تمام ایکسچینج کمپنیوں کو ملک میں نقد ڈالر لانے کی اجازت دے دی ہے۔ ایکسچینج کمپنیاں ڈالر کارگو سروس کے ذریعے نقد ڈالر امپورٹ کر سکتی ہیں۔ کرنسی ایکسپورٹ کی مد میں 50 فیصد نقد ڈالر منگوایا جا سکتا ہے۔ ٹیلی گرافک ٹرانسفر کے علاوہ وہ شمپنٹ کے 50 فیصد حصے کے مطابق نقد ڈالر منگوانے کی مجاز ہوں گی۔ یہ اجازت 31 دسمبر 2023ء تک دی گئی ہے۔ ایکسچینج کمپنیوں کا ڈالر امپورٹ کرنا انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے فرق کو کم کر سکتا ہے لیکن آئی ایم ایف اسے ڈالر ریٹ کو کنٹرول کرنے میں مداخلت قرار دے سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس کا اثر انٹربینک ریٹ پر بھی پڑ سکتا ہے یا صرف اوپن مارکیٹ ہی متاثر ہو گی۔ اگر منی ایکسچینجرز کے پاس ڈالرز کی سپلائی زیادہ ہو جائے تو وہ انٹربینک کو سرنڈر کرنے کے پابند ہوتے ہیں اور اکثر ایسا کیا بھی جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بینکوں کے ڈالرز ذخائر میں اضافہ ہو سکتا ہے اور انٹربینک ریٹ کم ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سٹیٹ بینک کے نوٹیفیکیشن پر من و عن عملدرآمد ہو اور منی ایکسچینجرز اس سے پیسہ بنانے کا نیا راستہ نہ نکال لیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved