جس طرح رومی نے عشق کو مکمل حقیقت کے طور پہ پیش کیا اسی طرح برہمن بھی‘ جو برہما کی نسبت سے برہمن کہلاتے ہیں‘برہما کو کسی شخصیت کیلئے نہیں بلکہ کامل حقیقت کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ برہمنوں کا یہ عقیدہ ہے کہ برہما ہی لامحدود حقیقت ہے‘انسانوں کی علیحدگی فریب ہے(وحدت الوجود)جب آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کی شخصیت پگھل رہی ہے اور آپ بحر وجود میں مطمئن ہو کر تیر رہے ہوں اور اس جذبے کے علاوہ ہر چیز آپ کو حقیر معلوم ہو‘تب آپ کو معلوم ہو گا کہ مذہب کیا ہے اور خدا کیا ہے ۔صوفیا کے اسی گروہ نے تخّیلات کی ایسی پیچیدہ دنیا تخلیق کی جس میں رب تعالیٰ سے براہِ راست تعلق کا احساس پیدا کرنے کے شوق میں اپنی ذات سمیت ہر ظاہری و مخفی حقیقت کی نفی کر بیٹھے۔جس طرح مولانا رومیؒ 30ویں اصول میں فرماتے ہیں کہ صوفی تو خود اپنے نفس سے معدوم ہے؛چنانچہ وہ کیسے کسی کو اپنا دشمن یا مخالف سمجھے‘ جب وہاں صرف اور صرف ایک ہی واحد ذات کی جلوہ نمائی ہے؟پھر 32 ویں اصول میں یہ کہہ کر کہ امام‘ پادری‘ ربّی اور اخلاقی و مذہبی قائدین میں سے کوئی بھی رب اور تمہارے بیچ حائل نہیں ہونا چاہیے‘ ایمانیات‘ عقائداورسلاسل علم کے پورے نظام کو اجاڑ کے رکھ دیا۔ صوفیا کرام کے ہاں خدا کا تصور تخیلات کی ایسی جولانی ہے جسے کوئی پہچان سکتا ہے نہ اس کی اصابت کو جانچنے کا کوئی اصولی‘علمی پیمانہ موجود ہے۔ رومیؒ اپنی بیباک عقل‘عمیق وجدان اور حواس کے بے نظم فیصلوں سے مدد لے کر تخیلات کی ایسی راہیں تراش لیتے ہیں جہاں جذبات‘ احساسات اور کیفیا ت کے علاوہ کوئی سنگِ میل ملتا ہے نہ آسمانی ہدایت کا چراغِ راہ میسر ہے۔چالیس چراغِ عشق ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ عشق بجائے خود ''شئے‘‘ ہے یا ''لا شئے‘‘ اگر یہ محض کیفیت اور حالت ہے تو پھر یہ کبھی صراطِ مستقیم نہیں پا سکتا کیونکہ سیدھی راہ کیلئے عقلی مشاہدہ کی قوت کا ہونا لازمی ہے۔
عشق اگر جذبہ و جنوں ہے تو پھر یہ خیر و شر کا ادراک نہیں پا سکتا۔یہ اضطراب عقل اور فساد روح کی گوناں گونی ہے جو کبھی کسی واحد حقیقت سے منسلک رہ سکتی ہے نہ کسی ایک کی پیروی پہ قانع ہو گی۔رومیؒ نے اپنے حسن کلام اور زورِ بیان سے جس عشق کی لافانیت سے بھی ماورا قرار دیا‘ اس میں دل و دماغ کی تقسیم کے مابین واقع خطِ امتیاز پہ وہ ایک قسم کا لامکاں فرض کرکے وہاں ایسے درجات ِسلوک متعین کر لئے‘جنہیں نہ دل محسوس کرسکتا ہے نہ عقل شناخت کر سکے گی۔اسی مقام پہ بیٹھ کر وہ زندگی کے موجودات اور موت کی تباہ کاریوں کا استرداد کرتے ہیں۔انہی عجائبات کو مولانا رومی نے 38 ویں اصول میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ''ہر لمحہ ‘ ہر آن ‘ اورہر سانس کے ساتھ ہمیں اپنی تجدید کرتے رہنا چاہیے‘نیا جنم لیتے رہنا چاہیے اور نیا جنم لینے کیلئے ایک ہی طریقہ ہے‘موت سے پہلے مرجانا‘‘۔یوں مولانا رومیؒ انسان کو خیر آمیز فریب سے ہمکنار کرکے قسمت پرستانہ فلسفۂ حیات کا غلام بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔وہ ایک قسم کی پُر ہجوم تنہائی کے خُوگر اور حکمت و تدبیر سے انحراف کی ایسی کیفیت کے قائل ہیں جس میں مرض اپنا علاج خود کرتا ہے۔وہ دنیا کی کسی چیز کو حقیقی نہیں سمجھتا‘ حالانکہ زندگی کے مقاصد کیلئے اتنا کافی ہے کہ ہم ان مشاہدات کو حقیقی سمجھیں جن کے متعلق مختلف لوگ ایک جیسی شہادت دیں‘گویا حقیقت اجتماعی طور پر مربوط احساس ہے‘ کیونکہ یہی اجتماعی دانش ایسی متغیر حقیقت ہے‘جس نے کائنات کو مسخرکر لیا اور موت دراصل اسی حقیقت کی تصدیق کرتی ہے۔جب ہم زندگی کو فریب اور خواب کہتے ہیں تو لاشعوری طور پہ اس عظیم کارخانۂ قدرت کو بیکار سمجھنے کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں جسے حقیقتِ ابدی نے وجود بخشا‘ لیکن صوفی صرف اپنے مفروضوں کی تصدیق اور اپنی امیدوں کی تسکین پہ قناعت کرتے ہیں۔علیٰ ہذالقیاس ‘ جس طرح خدا لافانی ہے اسی طرح اس کی تخلیق کردہ روح بھی ابدی ہو گی‘ شاید اسی لئے خالقِ کائنات نے صرف انسان کو عقل جیسی نعمت سے نوازا تاکہ کوئی اسی کی حکمت کا ناقد اور اس کی قدرت کی شعوری ثناکرنے والا ہو ۔گویاکائنات کا خالق خدا اور اس کائنات کا شاہد صرف عقل ہے۔اسی لئے اللہ کے ہر نبی نے طاقت کے بجائے صداقت کو پسند کیا کیونکہ صداقت دھڑے بندی نہیں کرتی اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ انسان معاشرے کے جنگل میں راہ بھٹک نہ جائے۔
لاریب ‘سچ یہ ہے کہ رومیؒ کا تخیل اور مشاہدہ بے مثال ہے لیکن اس کے ہاں کوئی متعین نظام فکر نہیں جس میں اس کی اپنی اور بنی نوع انسان کی زندگی کا کوئی مقصد شامل ہو‘اس لئے وہ تحقیق سے زیادہ تکلم کو پسند کرتا ہے ‘اس کی غایت یہ نہیں کہ سننے والے کو معقول کرے بلکہ یہ ہے کہ عوام کے تخیل پہ اس کی گرفت مضبوط ہو۔ بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ ''چالیس چراغ عشق‘‘ کے تمام مفروضے ماورائے عقل اور محال ہیں‘ جنہیں دائرۂ ادارک میں لا کر کسی عملی نمونہ میں ڈھالنا ممکن نہیں ہے۔ یہ فلسفیانہ میتھالوجی کی دل آویز تمثیل ضرور ہے جو روح میں اضطراب اور ذہنی ابہام کو بڑھاتی ہے۔جس طرح نطشے نے فوق الانسان کے ہاتھوں سب سے بڑے دیوتا کو قتل کرا کے طاقت کو خیر کا برتر مقام عطا کیا‘ اسی طرح رومیؒ نے عشق کو بجائے خود مطلوب و مقصود بنا کر شریعت کو لاتعلق کر دیا۔ اگرچہ اقبالؒ کے ہاں بھی نطشے اور رومی کے وظائفِ ذہنی کی تکرار ملتی ہے لیکن اس سب کے باوجود اقبالؒ نے خدا کو فراموش کیا نہ دامنِ رسول عربیﷺ کو چھوڑا۔ فرمایا:
خودی کا سِرِّ نہاں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خودی ہے تیغ، فَساں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
اور
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است
کہہ کر اپنی فکری زندگی کو معنی عطا کر دیئے‘ بلکہ اقبالؒ نے جس بے ریا انکساری کے ساتھ
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی نا گزیر
از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر
کہہ کر حضورﷺ کے قدموں پہ اپنے عجزِ دانش کا جو ہدیہ نچھاور کیا اس نے اقبالؒ کو نطشے اور رومیؒ سے بلندتر کر دیا۔بلاشبہ وہ مکمل زاویہ نگاہ جس کی صوفی فلسفۂ تصوف میں جستجو کرتے ہیں مگر اپنے تجریدی خیالات کے پھندوں اور غیرمتعلق راہوں سے بچ کر نہیں نکل سکتے‘ لیکن ذرا سی کسرِ نفسی اور تھوڑی سی دیانت ہمیں اس بات کا یقین دلانے کیلئے کافی ہے کہ زندگی اور کائنات کا تنوع اور بوقلیمونی ہمارے محدود اذہان کے احاطہ سے باہر ہے۔(ختم )
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved