(3)امام ابن جریر طبری متوفّٰی 310ہجری لکھتے ہیں: ''(عصر کی) نماز کے بعد آپؓ نے لوگوں کی طرف رخ کیا‘ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: '' لوگو! اگر تم اللہ کا خوف کرو اور حق داروں کے حق کو پہچانو‘ تو تمہارا یہ عمل اللہ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہوگا‘ ہم اہلِ بیتِ رسول ہیں‘ یہ لوگ جو تم پر حکومت کرنے کے دعوے دار ہیں‘ اس کا اُنہیں حق نہیں ہے‘ یہ تمہارے ساتھ ظلم اور تعدّی سے پیش آتے ہیں‘ ان کی نسبت ہم حکومت کے زیادہ حق دار ہیں‘ کیا تم ہمیں پسند نہیں کرتے‘ ہمارے حق سے واقف نہیں ہو‘ جبکہ تم نے اپنے خطوط میں اور قاصدوں کی زبانی مجھے پیغامات بھیجے ہیں‘ اب اگر تمہاری رائے تبدیل ہو گئی ہے تو میں واپس چلا جاتا ہوں‘‘۔ یہ سن کرحُر بن یزید نے کہا: خدا کی قسم! جن خطوط کا آپ ذکر کر رہے ہیں‘ اُن کا مجھے کوئی علم نہیں ہے‘ امام حسینؓ نے عقبہ بن سمعان سے کہا: ان کے خطوط والے دونوں تھیلے لے کر آئو‘ عقبہ وہ دونوں تھیلے نکال لا ئے‘ دونوں میں خطوط بھرے ہوئے تھے‘ آپؓ نے سب کے سامنے ان خطوط کو بکھیر دیا‘ حُر نے کہا: ہم وہ نہیں جنہوں نے آپ کو خطوط لکھے تھے‘ ہم کو حکم ملا ہے: ہم جہاں آپ کو پائیں‘ ابنِ زیاد کے پاس لے چلیں اور اس کے بغیر آپؓ کو نہ چھوڑیں۔ امام حسینؓ نے فرمایا: اس مقصد کو حاصل کرنے کی نسبت تمہارے لیے مر جانا زیادہ آسان ہے‘ پھر آپؓ نے اپنے اصحاب کو سوار ہونے کا حکم دیا‘ سب سوار ہو گئے اور انتظار کرنے لگے حتیٰ کہ ان کی مستورات بھی سوار ہوگئیں‘ آپؓ نے اپنے اصحاب سے کہا: ہم سب کو واپس لے چلو‘ پس جب وہ واپس جانے لگے تو حُر کا لشکر مقابل آگیا‘ اس پر امام حسینؓ نے کہا: تیری ماں تجھ پہ روئے‘ تو کیا چاہتا ہے‘ حُر نے کہا: اللہ کی قسم! اگر اہلِ عرب میں سے کسی اور نے ایسا کلمہ میرے بارے میں کہا ہوتا‘ تو چاہے وہ کوئی بھی ہوتا‘ میں بھی اس کی ماں کا ذکر اسی طرح کرتا‘ مگر خدا کی قسم! میری مجال نہیں کہ میں حد درجہ تعظیم کے بغیر آپؓ کی ماں کا ذکر کروں۔ امام حسینؓ نے کہا: تم کیا چاہتے ہو‘ اس نے کہا: میں آپؓ کو عبید اللہ بن زیاد کے پاس لے جانا چاہتا ہوں‘ امام حسینؓ نے کہا: اللہ کی قسم ایسا نہیں ہو سکتا‘ میں تیری پیروی نہیں کروں گا، (تاریخ الطبری:ج: 5،ص: 402)‘‘۔
(4)عقبہ بیان کرتے ہیں: امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اور حُر بن یزید کے اصحاب کو مقامِ بیضہ میں خطبہ دیا‘ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: ''لوگو! رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص ایسے بادشاہ کو دیکھے جو ظالم ہو اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھتا ہو‘ اللہ کے عہد کو توڑتا ہو‘ رسولﷺ کی سنتوں کی خلاف ورزی کرتا ہو‘ بندگانِ خدا کے ساتھ ظلم و سرکشی کے ساتھ پیش آتا ہو اور پھر عملی یا زبانی طور یہ شخص ایسے حاکم پر اعتراض نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص بھی اس کے عمل میں شریک سمجھا جائے گا۔ آگاہ ہو جائو! ان حاکموں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی ہے اور خدا کی اطاعت کو ترک کر دیا ہے‘ فساد کو ظاہر اور حدودِ شرع کو معطل کر دیا ہے‘ مالِ غنیمت کو غصب‘ حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر رکھا ہے‘ ان پر اعتراض کرنے کا سب سے زیادہ مجھے حق ہے‘ تمہارے خطوط میرے پاس آئے‘ تمہارے قاصد میرے پاس تمہاری طرف سے بیعت کرنے کے لیے آئے کہ تم میرا ساتھ نہ چھوڑوگے‘ مجھے دشمنوں کے حوالے نہیں کروگے‘ اگر تم اپنی بیعت کو پورا کرتے ہو تو بہرہ مند رہو گے‘ میں حسین ہوں‘ علی و فاطمہ بنت رسول رضی اللہ عنہما کا فرزند ہوں‘ میری جان تمہاری جانوں کے ساتھ اور میرے اہل و عیال تمہارے اہل و عیال کے ساتھ ہیں‘ میں تمہارا پیشوا ہوں‘ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور عہد و پیمان کو توڑا اور میرے بیعت کو اپنی گردن سے اتار پھینکا تو میری جان کی قسم! یہ تمہارے لیے کوئی نئی بات نہیں‘ یہی سلوک تم نے میرے باپ‘ میرے بھائی اور میرے چچا زاد مسلم بن عقیل کے ساتھ کیا ہے۔ میں نے تم پر بھروسا کرکے دھوکہ کھایا‘ جس نے بدعہدی کی‘ اس کا وبال اسی کے سر ہوگا‘ عنقریب اللہ تعالیٰ مجھے تم سے بے نیاز کردے گا۔
(5)مقامِ ذی حَسم پر آپؓ نے خطبہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: ''تم لوگ دیکھ رہے ہو کیا حال ہو رہا ہے‘ دنیا بدل چکی ہے‘ پہچانی نہیں جاتی‘ نیکیاں روگرداں ہو گئیں‘ اب صرف برتن کا دھووَن باقی رہ گیا ہے‘ بدترین اور ناگوار زندگی‘ کیا تم دیکھتے نہیں! حق پر عمل نہیں ہوتا‘ باطل سے پرہیز نہیں کیا جاتا‘ مومن کو اب چاہیے: حق پر رہ کر خدا سے ملاقات کرے‘ میں دیکھتا ہوں: مر جانا شہادت ہے اور ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا ناگوار امر ہے‘ (تاریخ الطبری:ج: 5،ص: 403)‘‘۔
خطبۂ یومِ عاشور: امام ابن کثیر متوفّٰی 774ہجری لکھتے ہیں: ''پھر امام حسینؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہوگئے‘ قرآنِ کریم کو اٹھاکر اپنے سامنے رکھا‘ پھر قوم کی طرف رُخ کیا‘ آپؓ ہاتھ اٹھائے ہوئے یہ دعا مانگ رہے تھے: ''اے اللہ! ہر مصیبت میں میرا بھروسا تیری ہی ذات پر ہے‘ ہر مشکل میں تو ہی میری امید ہے‘‘، پھر آپ کے شہزادے علی بن حسین احمق نامی گھوڑے پر سوار ہوئے‘ وہ کمزور اور بیمار تھے‘ امام حسینؓ نے بلند آواز میں فرمایا: ''لوگو! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں‘ توجہ سے سنو! سب لوگ خاموش ہوگئے‘ امامِ عالی مقامؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا:'' لوگو! اگر تم مجھ سے نصیحت قبول کرتے ہو اور میرے ساتھ انصاف کرتے ہو تو یہ تمہارے لیے سعادت کی بات ہوگی‘ میرا تم پر کوئی زور نہیں ہے‘ اگر تم میری نصیحت قبول نہیں کرتے تو تم اپنے (خود ساختہ) آقائوں کے ساتھ مل کر سازش کو پختہ کر لو تاکہ تمہیں اپنے فیصلے میں کوئی تذبذب باقی نہ رہے‘ پھر تم جو کچھ میرے خلاف کر سکتے ہو وہ کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو،(یونس:71)‘‘۔ ''بے شک میرا مددگار اللہ ہے‘ جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک لوگوں کی مدد کرتا ہے، (الاعراف:196)‘‘۔ جب آپؓ کی بہنوں اور بیٹیوں نے یہ سنا تو وہ بلند آواز سے رونے لگیں‘ اس پر آپؓ نے کہا: اللہ تعالیٰ ابن عباس پر رحم فرمائے‘ انہوں نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ اپنے ساتھ خواتین کو لے کر نہ جائیں اور معاملات درست ہونے تک ان کو مکہ میں رہنے دیں پھر اپنے بھائی عباس کو بھیجا تو اس نے ان کو خاموش کر دیا‘ پھر آپؓ نے لوگوں کو اپنی (ذاتی) فضیلت‘ نسب کی عظمت‘ مرتبے کی بلندی اور بزرگی بیان فرمائی‘ آپؓ نے فرمایا: اپنے ضمیر کو ٹٹولو اور اپنا محاسبہ کرو‘ کیا تمہارے لیے مجھ جیسے شخص کا قتل جائز ہے اور میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا ہوں‘ روئے زمین پر میرے سوا کسی نبی کی بیٹی کا کوئی بیٹا نہیں‘ علی رضی اللہ عنہ میرے والد ہیں‘ جعفر ذو الجناحین رضی اللہ عنہ میرے چچا ہیں‘ حمزہ سید الشہداء رضی اللہ عنہ میرے والد کے چچا ہیں‘ میرے اور میرے بھائی کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ''یہ دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں‘ اگر تم میری بات کی تصدیق کرتے ہو تو میں سچ کہتا ہوں‘ اللہ کی قسم! جب سے میں نے جانا ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ پر ناراض ہوتا ہے‘ میں نے جھوٹ نہیں بولا‘ اگر ایسا نہیں ہے تو رسول اللہﷺ کے اصحاب سے اس بارے میں پوچھ لو‘ جابر بن عبداللہ‘ ابو سعید خدری‘ سہل بن سعد‘ زید بن ارقم اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم تمہیں اس بارے میں بتا دیں گے‘ تم پر افسوس ہے‘ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے‘ کیا یہ میرا خون بہانے سے تمہارے لیے رکاوٹ نہیں ہے۔ شمر نے کہا: ان کی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں‘ ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا‘ اس کے جواب میں حبیب بن مطہر نے کہا: تیرے ستّر چہرے ہیں‘ اللہ نے تیرے دل پر مہر لگا دی ہے اور ہمیں امام حسینؓ کی باتیں بخوبی سمجھ آرہی ہیں‘ پھر امام عالی مقامؓ نے فرمایا: ''لوگو! مجھے چھوڑ دو تاکہ میں ایسی جگہ لوٹ جائوں جہاں میرے لیے امان ہو‘ کوئی خوف وخطر نہ ہو‘ انہوں نے کہا: آپ اپنے چچا زاد کی بیعت کیوں نہیں کرتے‘ آپؓ نے فرمایا: معاذاللہ! میں ہر متکبر سے جو حساب کے دن پر ایمان نہیں رکھتا‘ اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں، (غافر:27)‘‘۔ پھر آپؓ نے اپنی سواری کو بٹھایا‘ عقبہ بن سمعان کو حکم دیا تو اس نے سواری کو باندھ دیا‘ پھر فرمایا: مجھے بتائو کیا میں نے تم میں سے کسی کو قتل کیا ہے‘ جس کا تم مجھ سے مطالبہ کرتے ہو یا میں نے تمہارا مال کھایا ہے یا میرے ذمے کسی کا قصاص ہے‘ اس پر وہ لوگ خاموش ہوگئے۔ راوی کہتا ہے: پھر آپؓ نے بلند آواز سے پکارا: اے شبیث بن رَبعی‘ اے حجار بن اَبجُر‘ اے قیس بن اَشعث‘ اے زید بن حارث‘ کیا تم نے مجھے نہیں لکھا: پھل پک چکے ہیں‘ درخت سبز ہو چکے ہیں‘ آپ ہمارے پاس تشریف لائیں‘ آپ ایک تیار فوج کے پاس تشریف لائیں گے۔ انہوں نے کہا: ہم نے ایسا نہیں کہا‘ آپؓ نے فرمایا: خداکی قسم ! تم نے ایسا ہی کہا ہے‘ پھر فرمایا: لوگو! جب تم مجھے ناپسند کرتے ہو تو مجھے چھوڑ دو تاکہ تمہارے پاس سے چلا جائوں‘ تو قیس بن اشعث نے کہا: تم اپنے چچا زاد کی بیعت کیوں نہیں کرتے‘ وہ تمہیں تکلیف نہیں دیں گے‘ آپ ان کو اچھا پائیں گے‘ امام حسینؓ نے فرمایا: تم اپنے بھائی کے بھائی ہو‘ کیا تم چاہتے ہو کہ بنوہاشم تم سے مسلم بن عقیل کے خون سے زیادہ کا مطالبہ کریں‘ نہیں اللہ کی قسم! میں ذلیلوں کی طرح اس کی بیعت نہیں کروں گا اور نہ غلاموں کی طرح اس کو تسلیم کروں گا،(البدایہ والنہایہ:ج:8،ص:180)‘‘۔
ستم یہ ہے کہ محبتِ حسینؓ کے دعوے دار تو بہت ہیں اور اپنے اپنے انداز میں ان کی یاد بھی مناتے ہیں‘ ان کا غم بھی تازہ کرتے ہیں مگر اُن کی اقدار کو زندہ کرنے والے آج بھی کم یاب بلکہ نایاب ہیں‘ علامہ اقبالؔ نے سچ کہا تھا؛
قافلۂ حجاز میں‘ ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ‘ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved