محرم الحرام‘ امام حسینؓ کی تاقیامت زیست اور یزید کی ابدی ہلاکت کی یاد تازہ کرتا ہے۔کربلا کا ذبیحہِ عظیم دراصل دینِ اسلام کی کسوٹی تھا جسے سب سے پہلے غزوۂ بدر میں پرکھا گیا ‘جس میں صرف 313مسلمان نبی کریمﷺ کے ساتھ کافروں کے مقابل جہاد کے لیے نکلے۔ اس کے بعد ایمان کی یہی کسوٹی غزوۂ احد‘ غزوۂ خندق‘ غزوۂ خیبر‘ غزوۂ حنین‘ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ میں پرکھی گئی اور وہ لوگ جو قرآن پاک کی آیاتِ مبارکہ کا ترجمہ پڑھتے ہیں‘ ان سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ حیاتِ نبیﷺ میں بھی کس طرح منافقین جہاد میں شرکت سے بھاگنے کے لیے بہانے بناتے تھے۔ میدانِ کربلا بھی آزمائش کے ساتھ ساتھ ایمان کی کسوٹی تھا۔ بے شک نبی پاکﷺ کو باطنی طور پر علم تھا کہ سچا اُمتی کون ہے لیکن دنیا کو حقیقت سے آشنا کروانا بھی ضروری تھا کیونکہ بہت سے لوگ اُس وقت تک بھی منافق تھے جن کے بارے میں قرآن پاک میں آیاتِ مبارکہ موجود ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو سزا دینے کے لیے ان پر حجت قائم کرنا تھی تاکہ جھوٹ اور سچ عیاں ہو جائے۔
کربلا میں اہلِ بیت پر ظلم و بر بریت کی انتہا کرنے والوں کو قرآن پاک کی مباہلہ والی وہ آیت مبارکہ نہ جانے کیوں یاد نہیں آئی جس میں مباہلہ کے حوالے سے اللہ تعالی نے اپنے محبوبﷺ سے کہا تھا ''پھر جو شخص آپ سے جھگڑا کرے تو آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں‘ پھر ہم مباہلہ (یعنی گڑگڑا کر دعا) کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں‘‘ (آل عمران 61)۔
مباہلہ کے لیے نبی پاکﷺ اپنی قیا دت میں خاندان کی چار پاکیزہ شخصیات کو لے کر گئے اور پانچویں آپﷺ خود تھے۔ عیسائیوں نے دیکھا کہ حضورﷺ کی گود مبارک میں حضرت امام حسینؓ، دستِ مبارک میں حضرت امام حسنؓ کا ہاتھ اور سیدہ فاطمہ الزہرہؓ اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ حضورﷺ کے پیچھے پیچھے تشریف لا رہے ہیں۔ مقامِ مباہلہ پر پہنچتے ہی نبی پاکﷺ نے ان چاروں پاکیزہ شخصیات سے فرمایا کہ جب میں دعا مانگوں تو تم سب نے آمین کہنا ہے۔ اس وقت نجران کا سب سے بڑا نصرانی عالم بھی وہاں موجود تھا‘ اس نے جیسے ہی ان سب ہستیوں کی جانب نظر اٹھا کر دیکھا تو بے ساختہ پکار اٹھا؛ اے جماعتِ نصاریٰ آج میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ سے پہاڑ ہٹا دینے کی دعا بھی کریں گے تو اللہ پہاڑ کو اس جگہ سے ہٹا دے گا‘ ان سے کبھی بھی مباہلہ نہ کرنا ورنہ سب ہلاک ہو جائو گے۔ کیا اس آیت مبا رکہ سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ کہ یہ چار نورانی چہرے اللہ اور اس کے حبیبﷺ کو کتنے پیارے تھے اور انہی کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اپنے محبوب نبیﷺ کے بیٹے اور ان کی اولاد کہہ کر پکارا ہے۔ کیا دنیا میں اللہ تعالیٰ اور اس کی کتابِ مقدس قرآن پاک سے معتبر گواہی کوئی اور ہو سکتی ہے؟
امام عالی مقامؓ کے نزدیک ارادۂ خداوندی‘ حکمِ خداوندی اور خوشنودیٔ خداوندی کے علاوہ چوتھی کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔ اسی لیے امام عالی مقامؓ ارادۂ خداوندی سے مدینہ منورہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے اور حکمِ الٰہی سے میدانِ کربلا میں کھڑے رہے اور اپنے اہلِ خانہ کے شہید ہونے کا یقین ہونے کے باوجود میدانِ کربلا نہیں چھوڑا اور اس وقت صرف خوشنودیٔ خداوندی پر آپؓ کی نظر تھی۔ علامہ اقبال کی اردو اور فارسی شاعری میں امام حسینؓ اور کربلا ایک ایسا استعارہ ہے جو ظلم و ستم کے خلاف استقامت اور اسلام کے حقیقی رہبر کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ کربلا اور امام عالی مقامؓ کو حق و وحدت کا دبستان اور حق و باطل کا میزان قرار دیتے ہیں ان کی حق شناس آنکھ کربلا کے واقعہ کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر نہیں دیکھتی بلکہ وہ امام حسینؓ کی صدا کے احتجاج اور ان کی لازوال قربانی کو اسلام کی بقا اور حیات قرار دیتے ہیں۔وہ ''رموزِ بے خودی‘‘ میں فرماتے ہیں:
زندہ حق از قوتِ شبیری است
باطل آخر داغِ حسرت میری است
چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت
خاست آں سر جلوہ خیر الامم
چوں سحاب قبلہ باراں در قدم
یعنی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ حق قوتِ شبیری سے زندہ رہتا ہے اور حضرت امام حسینؓ جیسی بلند مرتبت شخصیت ہی ایسی خدمت انجام دے سکتی ہے۔ باطل شکست و نامرادی سے دوچار ہوتا ہے اور قوتِ خیر سے حق کا بول بالا ہوتا ہے۔ باطل قوتوں کا انجام ذلت و خواری ہے۔ اقبال مزید فرماتے ہیں کہ جب خلافت کا رشتہ قرآن سے منقطع ہوگیا اور مسلمانوں کے نظام میں حریتِ فکر نہ رہی تو امام حسینؓ اس طرح اُٹھے جیسے قبلے کی جانب سے گھنگھور گھٹا اُٹھتی ہے اور اُٹھتے ہی جل تھل کر دیتی ہے۔ یہ گھنگھور گھٹا کربلا کی زمین پر برسی اور ویرانوں کو لالہ زار بنا دیا۔ '' رموزِ بے خودی‘‘ ہی میں مزید فرماتے ہیں:
رمزِ قرآں از حسینؓ آموختیم
ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم
شوکتِ شام و فر بغداد رفت
سطوت غرناطہ ہم از یاد رفت
تار ما از زخمہ اش لرزاں ہنوز
تازہ از تکبیر او ایماں ہنوز
یعنی ہم نے قرآن کے اسرارو رموز امام حسینؓ سے سیکھے ہیں اور انہی کی روشن کی ہوئی آگ سے شعلے سمیٹ رہے ہیں۔ دنیا کی کئی حکومتیں آئیں اور مٹ گئیں‘شام کی شوکت مٹ گئی اور بغداد کا جاہ و جلال ختم ہوگیا غرناطہ کی سطوت اور رعب بھی رخصت ہوگیا مگر اس کے مقابلے میں کربلا کی یاد آج بھی زندہ ہے۔ امام حسینؓ کی مضراب ہمارے ساز کے تاراب تک چھیڑ رہی ہے اور اب تک نعرہ تکبیر کی صدا سے ہمارے ایمان تازہ ہو رہے ہیں۔
علامہ اقبالؔ امام حسینؓ کو ظلم و استبداد کے خلاف ایک مثالی کردار بنا کر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپؓ نے قیامت تک ظلم و استبداد کے راستے بند کر دیے اور اپنے خون کی سیرابی سے رہگزاروں کو چمنستان بنا دیا۔
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
اسوۂ حسینیؓ کو زندہ کرنے اور شہادت حسینؓ کا حقیقی مقصد سمجھنے کی جتنی ضرورت آج ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ آج مسلمان کشمیر‘ فلسطین‘ میانمار اور بھارت میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں‘تاہم یہ مقامِ افسوس ہے کہ مسلمانوں کی کئی بڑی قوتیں ان مقہور اور مجبور مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے کے بجائے اغیار کی سازشوں کا شکار ہو کر باہم دست و گریباں اور ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔ مسلمان حکمران ان سازشوں کا ا دراک کریں اور باہمی اختلافات بھلا کر باطل قوتوں کے خلاف ڈٹ جائیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved