زندگی کو روشنی درکار ہے۔ اس کے لیے سورج کافی نہیں۔ دل کے آسمان پر بھی ایک سورج ہونا چاہیے اور اسی کی روشنی آنکھوں کو روشن رکھتی ہے۔ دل کے آسمان پر چمکنے والے سورج کی کرنیں زندگی کے ہر گوشے‘ ہر پہلو کو منور رکھتی ہیں۔ ہمیں اللہ کی طرف سے سورج کی شکل میں ہونے والی روشنی سے ہٹ کر بلکہ بڑھ کر اور کون سی روشنی درکار ہے؟ علامہ اقبالؔ نے کہا ہے ؎
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
جناب‘ یہ دل کی روشنی ہی اصل روشنی ہے۔ آنکھ کا نور بھی بہت کام کا ہے مگر حقیقی معنوں میں کام آنے والی روشنی تو دل کی روشنی ہے۔ دل کی روشنی کئی چیزوں سے مل کر بنتی ہے۔ ایمان‘ تشکّر‘ سکینت‘ امید‘ امکان وغیرہ وغیرہ۔ دل کی توانائی کا مدار ایمان‘ تشکّر اور امید پر ہے۔ ان تینوں کے مجموعی بطن سے مثبت سوچ پیدا ہوتی اور پنپتی ہے۔ مثبت سوچ امکان کے بارے میں سوچنے تک لے جاتی ہے۔
ہم زندگی بھر یہی سوچتے رہتے ہیں کہ کیا ہو سکے گا اور کیا نہیں ہو سکے گا۔ کیا واقعی زندگی اسی لائق ہے کہ اسے گومگو یا کشمکش کی نذر ہونے دیا جائے؟ زندگی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ نعمت ہی تو آخرت میں ہمارے حوالے سے حتمی فیصلے کی راہ ہموار کرے گی۔ اس دنیا میں قیام کے لیے ملنے والی میعاد دراصل مہلتِ عمل ہے۔ ہم جو کچھ بھی یہاں کریں گے وہی آخرت میں ہمارے کام آئے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی حوالے سے امید کا دامن چھوڑنا کسی بھی درجے میں قابلِ قبول نہیں۔ اللہ نے ہمیں زندگی اس لیے عطا نہیں کی کہ ہم مایوسی کی نذر ہو رہیں۔ مایوسی کفر ہے اور کفر کے ہوتے ہوئے ایمان ہم تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟
انسان کسی بھی حوالے سے کامیاب اسی وقت ہو پاتا ہے جب وہ مایوسی سے دامن چھڑانے میں کامیاب ہوکر اپنے آپ کو مثبت سوچ کے حوالے کرتا ہے۔ مثبت سوچ انسان کو کسی بھی معاملے میں حوصلہ شکنی سے بچاتی ہے۔ معاملات مثبت سوچ کے نتیجے میں حوصلہ افزا ہوں تو انسان امکان کے بارے میں سوچتا ہے۔ امکان کے بارے میں سوچنا ہماری ناگزیر ضرورت ہے مگر ہم سے معدودے چند ہیں جو امکان کے بارے میں سوچنے کے عادی ہیں۔ کسی بھی ناموافق صورتحال میں ہم مایوسی کو حتمی آپشن کے طور پر اپنانے لگتے ہیں۔ انسان کو مختلف آپشنز کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ جب معاملات حل ہوتے دکھائی نہ دیں اور کچھ خاص سمجھ میں نہ آرہا ہو تب تو انسان کا مایوس ہو رہنا سمجھ میں آتا ہے مگر یہ کیا کہ جیسے ہی کوئی پریشانی لاحق ہو‘ صرف اور صرف مایوسی اور عدمِ امکان کو حتمی آپشن کے طور پر اپنایا جائے یا ایسا کرنے کے بارے میں سوچا جائے؟
امکان کی روشنی صرف ذہن و دل کو نہیں بلکہ پورے وجود کو منور رکھنے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ کیا کسی بھی انسان کو یہ بات زیبا ہے کہ کسی بھی مشکل مرحلے میں مایوس ہو رہے‘ امکان کے بارے میں سوچنا چھوڑ دے؟ یہ بات کسی بھی باشعور اور عمل پسند انسان کو زیبا نہیں۔ جن کی تربیت ہی نہ ہوئی ہو وہ اگر ایسا کریں تو بات بہت حد تک سمجھ میں آتی ہے مگر یہ کیا کہ انسان اچھی خاصی تربیت کا بھی حامل ہو اور ذرا سی مشکل صورتحال کے وارد ہوتے ہی ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دے! یہ تو کسی بھی مرحلے اور درجے میں انسان کے شایانِ شان نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو امکانات کے دھارے میں بہنے کے لیے خلق کیا ہے۔ امکانات کے بارے میں سوچنا‘ بلکہ سوچتے رہنا اس لیے ناگزیر ہے کہ یہ کائنات امکانات سے عبارت ہے۔ کہیں بھی کچھ ایسا نہیں جس کے بارے میں ناممکن کے لفظ کا حتمی اطلاق کیا جا سکے۔ انسان کے لیے پوری کائنات کو مسخر کردیا گیا ہے۔ اللہ نے اپنے کلام کے ذریعے بھی ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ جنہیں کچھ کر دکھانے کا شوق ہو ان کے لیے اس کائنات میں قدم قدم پر امکانات ہیں۔ انسان کو ذہن عطا کرکے سوچنے کا پابند کیا گیا ہے۔ اگر کوئی انسان زیادہ غور و فکر نہیں کرتا تو اللہ کی ایک بڑی نعمت کا حق ادا کرنے سے انکار کرتا ہے۔ سوچنا کیا ہے؟ امکانات تلاش کرنا۔ مصیبت یہ ہے کہ لوگ سوچ بچار بھی عدمِ امکان کے بارے میں کرتے ہیں۔ کوئی مشکل سر پر آن پڑے تو ہمیں اس کے تدارک کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے یعنی یہ کہ بچ نکلنے کی راہ کون کون سی ہو سکتی ہے۔ یہاں مشکل یہ ہے کہ لوگ صرف یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کہاں کہاں پھنس سکتے ہیں‘ کن راستوں پر چل کر بند گلی میں پہنچ سکتے ہیں! یہ سب کچھ خدشات کی شکل میں ہوتا ہے۔ پس ماندہ معاشروں میں اکثریت صرف اندیشوں اور خدشات کے گھیرے میں رہتے ہوئے جینے کی عادی ہو چکی ہے۔ یہ تو فکر و نظر کی توہین کا معاملہ ہوا۔ ذہن اس لیے عطا کیا ہی نہیں گیا کہ اسے اندیشوں میں گھرا رہنے دیا جائے‘ امکانات کے بارے میں سوچنے پر مائل ہی نہ کیا جائے۔ماحول انسان کو بہت کچھ دے رہا ہوتا ہے۔ یہ انسان کو بہت کچھ کرنے کی تحریک بھی دیتا ہے اور کچھ بھی نہ کرنے پر بھی اکساتا رہتا ہے۔ انسان کو کس نوعیت کی سوچ زیب دیتی ہے؟ اندیشے پالنے کی یا امکانات کو پروان چڑھانے کی؟ آپ بھی تسلیم کریں گے کہ دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ سب کا سب امکانات کے بارے میں سوچنے کا نتیجہ ہے۔ امکانات کے بارے میں سوچنے ہی سے انسان ایجاد اور دریافت کی منزل تک پہنچتا ہے۔ اگر ہر وقت مایوسی کو ذہن پر طاری کرتے ہوئے جینے کی کوشش کی جائے تو؟ کیا نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے؟ سیدھی سی بات ہے‘ ایسی سوچ انسان کو عدمِ امکان کی طرف دھکیلتی ہے‘ وہ صرف بند گلی میں پھنسے رہنے کا خدشہ ہی پالتا رہتا ہے۔ اس طور جینے میں کسی بھی اعتبار سے راحت کا سامان نہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے‘ کامیابی اسی وقت ممکن بنائی جا سکتی ہے جب انسان عدمِ امکان کے بارے میں سوچنے سے محض گریز نہ کرے بلکہ ایسا کرنے سے شدید نفرت بھی کرے۔ ذہن و دل کی شکل میں عطا ہونے والی نعمت امکانات کی تلاش میں نکلنے بلکہ نکلتے رہنے کے لیے عطا کی گئی ہے۔
یہ دنیا صرف ان کے لیے ہے جنہیں امکانات سے پیار ہے۔ امکانات کے دھارے میں بہنے والے ہی کسی کام کے کنارے تک پہنچ پاتے ہیں۔ ہر وقت مایوسی کا شکار ہوکر عدمِ امکان کے بارے میں سوچنے سے شخصیت کا قامت گھٹتا چلا جاتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں بہت کچھ ہے۔ یہ سب کچھ صرف اُن کے لیے جو امکانات کے بارے میں سوچنے کے عادی ہیں۔ امکانات کے بارے میں سوچنے والے ہی کچھ کر پاتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشرے اس اعتبار سے قابلِ رحم ہیں کہ یہاں کسی بھی معاملے میں مایوسی پر مبنی سوچ کو پروان چڑھانا کچھ مشکل نہیں۔ لوگ مایوسی کو گلے لگانے کے لیے تیار ہی رہتے ہیں۔ ایسے میں انہیں بس تھوڑا دھکّا دینے کی دیر ہوتی ہے۔ جن قوتوں کو ہماری زندگی کا سکون راس نہیں وہ دن رات مایوسی پر مبنی سوچ کو پروان چڑھانے پر کمر بستہ ہیں۔ ایک زمانے سے پاکستانی معاشرے کے مجموعی مزاج کو تلپٹ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اب یہ کوششیں بہت حد تک رنگ بھی لارہی ہیں۔ آج پاکستانی معاشرے میں امکانات کے حوالے سے سوچنے سے گریز عام ہے۔ لوگ کسی بھی مسئلے کا حل تلاش کرنے کے نام پر ذہن کو صرف عدمِ امکان کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں۔ ایسا کرنا اب بہت حد تک آسان مشغلے کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ لوگ امکانات کے بارے میں کم اس لیے سوچتے ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے ذہن پر زور دینا پڑتا ہے۔ اس نوع کی مشقت سے لوگ بھاگتے ہں۔ ذہن پر زور دینے کی عادت ہی نہیں رہی۔ عدمِ امکان کی تلاش کے لیے ذہن کے گھوڑے دوڑانے نہیں پڑتے۔
ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو آپ کی زندگی کو عدمِ امکان کے اندھیرے کی طرف دھکیلتا رہتا ہے۔ آپ کو مستقل بنیاد پر لڑتے رہنا ہے۔ عدمِ امکان کے اندھیروں کو ہرانا ہے اور امکانات کی روشنی کو زندگی کا حصہ بنائے رہنا ہے۔ فکر و عمل کا سارا حسن اور ساری راحت اسی عمل میں پوشیدہ ہے۔ طے کیجئے کہ امکانات کے بارے میں سوچنا ہے اور عدمِ امکان کی سوچ کو مکمل طور پر تج دینا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved