ضابطہ فوجداری میں 164کا اعترافِ جرم لکھنے کی اگلی شرط بیان کرنے سے پہلے میں آپ کو بھٹو کیس کی دوسری جھلکی کی طرف لے چلتا ہوں۔ جواں سال ایم انور بار ایٹ لاء بھٹو کیس میں سپیشل پبلک پراسیکیوٹر بنائے جانے کے بعد دن رات شہادتوں کے پیچھے لگے رہے۔ لیکن اصل کیس کو پراسیکیوٹ کرنے سے پہلے ہی مشکوک حالات میں ان کی موت واقع ہو گئی۔ دوسرے سپیشل پبلک پراسیکیوٹر مرحوم اعجاز بٹالوی مقرر ہوئے۔ اب ذرا آگے چلیے۔
ڈی سائفر پوائنٹ نمبر4: جہاں ہمیں دیکھنا ہوں گی وہ شرائط جو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 265-J میں Pre-conditionکے طور پر بیان کی گئی ہیں‘ جن کے الفاظ یہ ہیں۔ 164کا بیان صرف اسی صورت میں قانونی سمجھا جائے گا اور اسے پراسیکیوشن کی شہادتوں میں شامل کیا جا سکے گا جب بیان لکھتے وقت عدالت میں موجود ملزم کو گواہ پر جرح کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اعظم خان کے مبینہ بیان کے وقت چیئرمین تحریک انصاف کو نہ طلب کیا گیا‘ نہ ان کو کوئی نوٹس جاری ہوا تھا اور نہ ہی انہیں یہ بیان لکھے جانے کے بعد جرح کرنے کا موقع دیا گیا۔ محض تہمت لگانے‘ الزام دھرنے سے کوئی شخص کسی جرم کا سزا وار نہیں ٹھہر جاتا۔ اسی لیے ضابطہ فوجداری کے 265-Jمیں اگلی شرط بھی شامل کر دی گئی ہے جسے یہاں لکھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ جرم خواہ کوئی بھی ہو‘ ملزم کے بارے میں پوری دنیا میں ایک ہی اصولی قانون رائج ہے۔ An accused person is innocent, unless proven guilty۔ یعنی ہر ملزم‘ ہر جرم میں بے گناہ سمجھا جائے گا جب تک اس کے خلاف قابلِ ادخال شہادت قانون میں لکھے ہوئے طریقے کے ذریعے عدالت میں اس کا جرم ثابت کرنے کے لیے مواد کافی ہو اور شک سے پاک بھی ہو۔
اگر اوپر بیان کی گئی شرائط پوری ہو جائیں تو پھر 164کا ایسا بیان ہی بیان سمجھا جائے گا If such witness is produced and examined, be treated as evidence in the case for all purposes subject to the provision of evidence (Act II of Act 1872)۔ اعظم خان کے 164کے مبینہ بیان میں چونکہ قانون میں موجود کوئی بھی شرط سرے سے پوری نہیں کی گئی‘ اس لیے اس بیان کی حیثیت ردی کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں۔
ردی کے ٹکڑے سے یاد آیا‘ جس 164کے بیان کو بنیاد بنا کر پیڈ کانٹینٹ والے اتنا شور مچا رہے ہیں‘ اس اعترافی بیان کو دیکھا کس نے ہے؟ اسی تسلسل سے دوسرا سوال یہ ہے کہ اس بیان کی کاپی ٹرائل کورٹ میں پہنچنے سے پہلے کس نے جوڈیشل فائل سے اڑائی اور اسے قاسم کے والد کے میڈیا ٹرائل کے لیے استعمال کیا؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اعظم خان سے منسوب اس بیان میں آخر ہے کیا؟ یہ جاننے کے لیے قارئینِ وکالت نامہ کو ٹامک ٹویاں مروانے سے بہتر ہوگا کہ سوشل میڈیا پر پہلی ٹویٹ‘ جس کے ذریعے یہ بیان پبلک کیا گیا تھا‘ وہ آپ سے شیئر کر دوں۔ 164 کا اعترافِ جرم کہلانے والے اس بیان Aسے لے کر Fتک چھ پیراگراف ہیں۔ جن پر نہ کسی عدالت کا نام ہے‘ نہ بیان لکھنے والے مجسٹریٹ کا اَتا پتا۔ نہ تاریخ درج ہے اور نہ کسی بیان کنندہ کے دستخط پائے جاتے ہیں‘ جو قانون کے مطابق ہر صفحے پر لازمی ہیں۔ بلکہ ساتھ انگوٹھا لگانا بھی ضروری ہے۔ پھر بھی چلیے! اس ٹائپ شدہ پرچی کو اعترافِ جرم جان کر اس کے چار حصے آج کے کالم میں شامل کرتے ہیں۔
a. On 8 March, Foreign Secretary approached MAK and informed regarding cypher. which was sent to him at his residence on the same evening. Foreign Secretary informed him that FM Qureshi had already discussed the cypher with IK, which IK confirmed next day when MAK presented the cypher to him. Upon seeing the cypher IK was euphoric and termed the language as US Blunder while saying that cypher can now be manipulated for creating a narrative against establishment and opposition.
b. Ik also told MAK that cypher can be used to divert general public's attention towards foreign involvement in NCM by opposition.
c. Thereafter, IK asked MAK to hand over the cypher to him, which he did. (there are instructions and regulations for handing over of crypto documentation, visibly there was a violation here).
d. As per confession of MAK, the cypher copy was retained by IK and next day (10 Mar 2022) when he asked for it IK replied that he has misplaced it (here may add video clip of IK where he says he does not know where cypher copy is).
اب ایک بار پھر واپس چلیے خود دفعہ 164کی طرف‘ یہ دیکھنے کیلئے کہ کیا اس میں164 کے بیان کو ملزم کے خلاف قابلِ ادخال شہادت بنانے کیلئے کوئی Pre-conditionsموجود ہیں؟ یا پھر یہ بیان میڈیا‘ ٹویٹر اورفیس بک پر ڈھول بجانے سے ازخود گواہی کی صف میں کھڑا ہو جائے گا۔ دفعہ 164کے ذیلی سیکشن 2کا آخری حصہ کہتا ہے کہ ایسا کوئی بھی اعترافِ جرم جو لکھا گیا‘ وہ فوری طور پر اس مجاز عدالت کو بھجوایا جائے گا جس نے مقدمے کا ٹرائل کرنا ہے۔عمران خان کے خلاف سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر کے مبینہ بیان کو لکھنے والے دن تک کسی عدالت میں کوئی مقدمہ زیر سماعت نہیں تھا۔ آسان لفظوں میں آپ اسے مولوی مشتاق والے متنازع Murder of a Trialکا سیزن 2کہہ سکتے ہیں۔ وہی مولوی مشتاق جس کو تدفین کیلئے لے جاتے وقت شہد کی مکھیوں نے قدرتی انصاف کا نشانہ بنایا تھا۔
ڈی سائفر پوائنٹ نمبر5: اوپر ہم نے پروہت اور پجاری واردات کا تازہ شاہکار انگریزی زبان میں آپ سے شیئر کیا ہے۔ اس کے پہلے جملے میں 8مارچ 2020ء کو USAمیں پاکستان کے ایمبسیڈر اسد مجید کی طرف سے بھیجے گئے سائفر کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس اعتراف کے الفاظ یہ ہیں۔
''8مارچ 2020ء کے دن سیکرٹری فارن افیئرز نے ''MAK‘‘ یعنی ''میک‘‘ سے رابطہ کیا اور اسے اطلاع دی کہ مجھے سائفر ملا ہے‘‘۔ میرے عزیز ہم وطنو! اب جو میں کرنے جا رہا ہوں اسے اردو زبان میں تکسیرِ لفظی اور قانون و انصاف کے جہان میں Applying the Tool of interpretation کہتے ہیں۔ آپ164کی اوپننگ لائن کو ذرا غور سے دیکھیں تو ظاہر ہو جائے گا کہ یہ بیان اعظم خان کا سرے سے کہا ہی نہیں جا سکتا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ مثلاً میں اگر بیان دوں تو میں Deponent (بیان کنندہ) کہلاؤں گا۔ یعنی جس نے حلف پر بیان دیا۔ میں اپنے لیے کہوں گا میں حلفیہ اقرار کرتا ہوں اور ساتھ یہ کہ فلاں سیکرٹری نے مجھ سے رابطہ کیا۔ یہ ''مسٹر میک‘‘ کون ہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved