34برس کی کشیدگی کے بعد امریکہ اور ایران کے تعلقات میں بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں۔ اس کی بنیاد ایرانی صدر حسن روحانی کے وہ بیانات ہیں جو انہوںنے منتخب ہونے کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی خصوصاً امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں دئیے۔ امریکہ میں ان بیانات سے یہ تاثر لیا جارہا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام اور عالمی برادری کے ساتھ روابط پر اپنے سابق غیر لچک دار رویے کو تبدیل کر رہا ہے۔اس لیے صدر بارک اوباما نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہوں نے سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے ایرانی ہم منصب سے رابطہ کر کے ایران اور امریکہ کے درمیان باقاعدہ بات چیت کی راہ ہموار کریں۔عالمی حلقوں میں صدر اوباما کے اس فیصلے کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں پر محیط طویل عرصہ کے دوران ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی نے جہاں دونوں ملکوں کے مفادات کو نقصان پہنچایا وہاں دنیا کے دو اہم خطوں یعنی مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس میں حالات خراب رہے۔ شام،مصر،عراق اور فلسطین میں جنگ، دہشت گردی اور عدم استحکام میں اضافہ ہوا۔خطے میں واقع دوسرے ممالک میں غیر یقینی صورتحال اور خوف نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے تھے۔امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری سے پورے خطے میں کشیدگی کم ہوگی۔پاکستان کے لیے اس اقدام کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے‘اس لیے کہ ایران کے ساتھ ہم اپنے تعلقات کو کسی قیمت پر خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ایران کے خلاف قوت کے استعمال کی بھر پور مخالفت کرتے ہوئے امریکہ اور ایران کے درمیان مسائل کو بات چیت اور پرامن ذرائع سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فضا کو بہتر بنانے کا کریڈٹ صدر حسن روحانی کو جاتا ہے جنہوں نے صدارتی مہم کے دوران اور منتخب ہونے کے بعد سے اب تک متعدد مواقع پر ایران کی طرف سے امریکہ کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے امن اور محبت کا پیغام دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی عوام جن مشکلات سے گزر رہے ہیں،ان کی مذمت بھی کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم سے پوری دنیا کو پیغام دیتے ہوئے انہوں نے واشگاف الفاظ میں ایران کے اس موقف کو دہرایا ہے کہ ان کا ملک بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اور جوہری ہتھیار بنانے کے خلاف ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے اس مسئلے پر عالمی برادری کے خدشات دور کرنے کے لیے امریکہ اور ایران کے درمیان بات چیت کی تجویز پیش کی اور ساتھ اس پر اصرار بھی کیا کہ ایران کو پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کی صلاحیت کے حصول کا حق ہے اور اگراس پر امریکہ یا عالمی برادری کو کچھ تحفظات ہیں تو ایران بات چیت کے لیے تیار ہے۔ایران کی کوشش ہو گی کہ مذاکرات طول نہ کھینچیں اور ان کا نتیجہ جلد از جلد دنیا کے سامنے آجائے۔ سب سے زیادہ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ صدر روحانی نے اپنے پیش رو احمدی نژاد کے برعکس اسرائیل اور دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی کی طرف سے یہودیوں کے قتلِ عام(Holocaust)کی مذمت کی اور کہا ہے کہ ایران کسی کی بھی جان لینے کے حق میں نہیں خواہ وہ مسلمان ہو،عیسائی ہو یاہندوہو۔اس کے علاوہ انہوں نے سابق صدر کے ان بیانات سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے کہ ایران اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔انہوں نے بالکل درست فرمایا ہے کہ دوسری جنگ عظیم سے اب تک ایران بیرونی مداخلت اور جارحیت کا شکار رہا لیکن ایران نے کبھی کسی ملک پر حملہ نہیں کیا‘اس لیے ایران کیسے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کر سکتا ہے۔ 1979ء میں اسلامی انقلاب سے ایران امریکہ تعلقات متاثر ہونا لازمی تھا کیونکہ سابق شاہ ایران نے اپنے ملک کو مکمل طور پر امریکہ کی جھولی میں ڈال رکھا تھا۔امریکی سراغ رساں ادارے سی آئی اے نے ایشیا بھر میں اپنی سرگرمیوں کوجاری رکھنے کے لیے ایران میں اپنا ہیڈ کوارٹر بنارکھا تھا۔ خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے علاقوں میں شاہ ایران، امریکہ کے پولیس مین کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ انقلاب کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت ان پالیسیوں کو جاری نہیں رکھ سکتی تھی اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کا متاثر ہونا لازمی تھا‘ لیکن تعلقات کو بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں نئی اور بہتر بنیادوں پر استوار کیا جاسکتا تھا‘ اگر امریکہ تکبر اور طاقت کے گھمنڈ پر مبنی پالیسی کو نہ اپناتا۔یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ معاشی اور فوجی لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی طاقت‘ جس کے مفادات پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں‘ نہ تو ایران کے جغرافیائی محلِ وقوع پر مبنی اہمیت کو تسلیم کر سکی اور نہ ہی ایران کے تاریخی اور ثقافتی کردارکا ادراک کر سکی۔ اسرائیل نے امریکہ ایران اختلافات کو ہمیشہ ہوا دینے کی کوشش کی اور انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن برسوں کی محاذ آرائی کے بعد فریقین اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بقائے باہمی اور ایک دوسرے کے مفادات کے احترام کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ امریکہ نے ایرانی انقلاب کو سبوتاژ کرنے اور ملک میں اپنی پسند کی حکومت لانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔اسرائیل نے غلط پروپیگنڈے کے ذریعے مغرب خصوصاً امریکہ کو مشتعل کرکے ایران کو عراق کی طرح جارحیت کا نشانہ بنانا چاہالیکن منہ کی کھائی۔خود ایران میں بھی یہ احساس قوی ہوتا جا رہا ہے کہ ایرانی عوام کی ترقی اور خوشحالی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے اور اس راستے میں جو بھی رکاوٹیں ہیںان کو دورکرنا حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔اس وقت ایران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے عالمی برادری نے ایران کے خلاف جو اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں،ان سے ایرانی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔اور اس کا براہ راست اثر ایرانی عوام پر پڑ رہا ہے۔اس کا ذکر کرتے ہوئے صدر روحانی نے جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں سے عام ایرانی کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔صدارتی انتخابات کے دوران اپنی تقاریر میں صدر روحانی نے ایرانی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ منتخب ہونے کی صورت میں ایرانی عوام کو ان مشکلات سے نکالنے اور ایران اور عالمی برادری کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔صدر روحانی سمجھتے ہیں کہ ووٹ دے کر ایرانی عوام نے دراصل انہیں ایران کی بین الاقوامی برادری سے دوری(Isolation)ختم کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایرانی صدر نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقاریر اور CNNکے ساتھ اپنے انٹرویو میں نرم اور مصالحانہ رویہ اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی حکومت ایران اور عالمی برادری کے تعلقات کو ایک نئی اور صحت مند بنیاد پر استوار کرنا چاہتی ہے۔ اگرچہ صدر روحانی کے مصالحانہ رویے کو بین الاقوامی حلقوں میںخوب سراہا جا رہا ہے او ر امریکہ نے اس کا خیر مقدم کرنے ہوئے ایران کے ساتھ باقاعدہ بات چیت کے لیے پہل کر دی ہے، اور عنقریب دونوں ملکوں میں براہ راست بات چیت کا آغاز ہو سکتا ہے‘ لیکن بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ ایران اور امریکہ کے تعلقات میں کسی فوری اور ڈرامائی بریک تھرو کی امید نہیں کی جا سکتی‘ کیونکہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ پر محیط سرد مہری یکدم گرم جوشی میں تبدیل نہیں ہو سکتی۔ایران اور امریکہ کے درمیان اختلافات کی جڑیں بڑی گہری ہیں اور ان کے کئی پہلو ہیں‘ اس لیے یہ دھیرے دھیرے سدھر یں گے۔مگر براہ راست ایران امریکہ بات چیت کا آغاز اور اس میں دونوں ملکوں کی غیر معمولی دلچسپی ایک انتہائی خوش آئند اقدام ہے جس سے اختلافات سے مکدر فضا کو صاف ہونے میں مدد ملے گی۔پاکستان یقینا اس پیش قدمی کا خیر مقدم کرے گا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ‘ جو امریکی مخالفت کی وجہ سے التوا کا شکار تھا‘ قابل عمل ہو جائے گا‘ کیونکہ اگر بات چیت کا آغاز ہوتا ہے تو ایران امریکہ کی طرف سے خیر سگالی اور اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر سب سے پہلے اقتصادی پابندیوں کو نرم کرنے پر زور دے گا۔ اس سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے پر عمل درآمد کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved