انسانوں کی ایک کثیر تعداد زندگی کی حقیقت اور اپنے مقصدِ تخلیق پر غور نہیں کرتی۔ انسان بالعموم اپنے جبلی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو صرف کرتا رہتا ہے۔ مال کو اکٹھا کرنا، اپنے اور اپنی اولاد کے لیے اچھی خوراک، اچھے لباس اور اچھی رہائش کے حصول کے لیے تگ ودو کرنا انسانوں کی غالب اکثریت کا بنیادی مقصد بن چکا ہے۔ اگر انسان توجہ سے اپنی زندگی پرغور کرے تو اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ انسان کی زندگی مختلف طرح کی ناہمواریوں کا شکار ہے۔ انسان کو کبھی مالی مشکلات،کبھی مختلف طرح کی بیماریوں،کبھی پھلوں، کھیتیوں اور کاروباری نقصان اور کبھی اپنے اعزہ واقارب کی جدائی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ان پریشانیوں سے نکلنے کے لیے ہر انسان اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق تگ ودو کرتا ہے اور کئی مرتبہ ان مصائب سے نکلنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے؛ تاہم کئی مرتبہ یہ مصیبتیں، پریشانیاں اور بیماریاں طول پکڑ جاتی ہیں اور انسان لمبے عرصے تک ان مصائب میں مبتلا رہتا ہے۔کتاب وسنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مصیبتیں درحقیقت ہماری سوچ اور فکر کی اصلاح کرنے اور ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے آتی ہیں۔ لیکن انسان بالعموم ان مصائب کے باوجود اپنی تگ ودو کا رُخ اور اپنی نگاہ کے زاویے کو درست نہیں کرتا اور مال کی کثرت اور دنیاداری میں مسابقت کے حوالے سے سرگرم رہتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التکاثر میں اس حقیقت کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''غافل کر دیا تمہیں باہمی کثرت کی خواہش نے۔ یہاں تک کہ تم نے جا دیکھیں قبریں۔ ہر گز نہیں! عنقریب تم جان لو گے۔ پھر ہرگز نہیں! عنقریب تم جان لو گے۔ ہرگز نہیں! کاش تم جان لیتے یقین کا جاننا۔یقینا ضرور تم دیکھ لو گے جہنم کو۔ پھر یقینا ضرور تم دیکھ لو گے اسے یقین کی آنکھ سے۔ پھر ضرور بالضرور تم پوچھے جاؤ گے اس دن نعمتوں کے بارے میں‘‘۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ انسانوں کی بڑی تعداد دنیا کی زندگانی کو حرفِ آخر سمجھ لیتی ہے اور اپنے انجام کو یکسر فراموش کیے رکھتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کی اس کوتاہ بینی کا ذکر سورۃ الاعلیٰ کی آیات نمبر 16تا 19 میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''بلکہ تم ترجیح دیتے ہو دنیوی زندگی کو۔ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور زیادہ پائیدار۔ بے شک یہ (بات) یقینا پہلے صحیفوں میں ہے۔ (یعنی) ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ کے صحیفوں میں‘‘۔
دنیا میں رہتے ہوئے دین اور دنیا میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کرنا اور دنیا وآخرت کی بھلائی کے لیے سرگرم رہنا کسی بھی طور نامناسب نہیں بلکہ آخرت کو مقدم رکھتے ہوئے انسانوں کو دنیا کے حصول کے لیے بھی ساتھ ساتھ تگ ودو کرنی چاہیے۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 201 میں مسلمانوں کی ایک بہترین دُعا کا ذکر فرماتے ہیں : ''اے ہمارے رب ہمیں دے دنیا میں بھلائی اور آخرت میں (بھی) بھلائی اور ہمیں بچا لے آگ کے عذاب سے‘‘۔ اس کے مدمقابل دنیا کو حرفِ آخر سمجھ کر اپنی تمام تر جدوجہدفقط حصول ِ دنیا کے لیے صرف کر دینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی نظروں میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الکہف کی آیات 103تا 105میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے کیا ہم خبر دیں تمہیں زیادہ خسارہ پانے والوں کی اعمال کے اعتبار سے۔ یہ وہ لوگ ہیں (کہ) ضائع ہو گئی ان کی کوشش دنیوی زندگی میں حالانکہ وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ بہت اچھے کام کررہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکار کیا اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا۔ تو ضائع ہو گئے ان کے اعمال‘ سو نہیں ہم قائم کریں گے ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن‘‘۔
زندگی کی حقیقت جہاں باریک بینی سے کتاب وسنت کے مطالعے سے واضح ہوتی ہے وہیں انسان کی زندگی میں آنے والے نشیب وفراز بھی انسان کی رہنمائی اسی حقیقت کی طرف کرتے ہیں۔ میری عمر فقط 15برس تھی جب والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ مینار پاکستان کے عقب میں واقع راوی روڈ پر ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بم دھماکے میں شدید زخمی ہو گئے ‘ بعدازاں آپ کو چند روز زخمی رہنے کے بعد علاج کے لیے سعودی دارالحکومت ریاض کے ملٹری ہسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ اس سانحے نے میری زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس صدمے کے اثرات ابھی زائل بھی نہ ہوئے تھے کہ والدہ مرحومہ بھی دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔ اُن کی وفات کا صدمہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میری پوری زندگی اندھیروں کی لپیٹ میں آ گئی ہے۔ والدہ مرحومہ کے انتقال کے کچھ عرصہ کے بعد دادا جان بھی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ اُن کے بعد بھی بہت سے نیک بزرگوں اور رشتہ داروں کو دنیا ئے فانی سے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اپنے سسر اور خوشدامن کی وفات پر بھی میں نے انتہائی رنج، کرب اور غم کو محسوس کیا اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے ایک مرتبہ پھر میرے والدین اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے ہیں۔ قریبی اعزہ واقارب میں سے محترم چچا محبوب الٰہی اور چچا شکور الٰہی کا انتقال بھی یقینا زندگانی کی حقیقت کو سمجھانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔ کئی اکابر علماء‘ جن سے محبت اور شفقت والا تعلق تھا‘ اُن کو بھی قبروں میں جاتے دیکھ کر اس بات کا احساس ہوتا رہا کہ یہ دنیا ناپائیدار ہے اور یہاں کسی کو بھی دوام اور بقا حاصل نہیں۔ اگر دنیا میں ہمیشہ کسی نے رہنا ہوتا تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے نبی کریمﷺ اس دنیائے فانی سے کبھی رخصت نہ ہوتے لیکن آپﷺ کی رحلت نے اس بات کو ثابت کیا کہ دنیا میں کوئی شخص ہمیشہ نہیں رہے گا۔
کچھ عرصہ قبل کالج کے زمانے کے ایک انتہائی قریبی دوست معین اختر کے انتقال نے اعصاب پر بہت زیادہ اثرات مرتب کیے اور اُن کے انتقال کی خبر سن کر دل بہت زیادہ بوجھل ہو گیا۔ اس طرح کے واقعات وقفے وقفے سے انسان کو آخرت کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ انہی واقعات کے اندر ایک اور افسوس ناک واقعے کااضافہ اُس وقت ہوا جب میرے داماد انجینئر حافظ عبدالنافع نے مجھے اس بات کی اطلاع دی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُس کو بیٹے سے نوازا ہے لیکن یہ بچہ پیدائش کے وقت ہی سانس کے مرض میں مبتلا تھا۔ ڈاکٹرز بچے کے علاج پر بھرپور توجہ دیتے رہے اور ہم بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار کرتے رہے لیکن وہ خوبصورت بچہ محض 29 گھنٹے اس دنیائے فانی میں رہنے کے بعد یہاں سے کوچ کر گیا۔ ایک معصوم کلی پھول بننے سے پہلے ہی مرجھا گئی۔ اُس کی وفات نے بھی اعصاب کو بری طرح متاثر کیا۔ اُس کے جنازے اور تدفین کے دوران ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ دنیا میں کسی نے بھی باقی نہیں رہنا۔
نجانے انسان دوسروں کو فنا کے گھاٹ اترتا دیکھ کر بھی اس کوتا ہ بینی کا شکار کیوں رہتا ہے کہ شاید میں ہمیشہ اس دنیا میں رہوں گا۔ انسان کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ ہمیں بھی جلد یابدیر اپنے پروردگار عالم کے پاس جانا ہو گا اور اُس کی بارگاہ میں جانے کے بعد ہمیں اپنے اعمال کے حوالے سے جوابدہ ہونا ہو گا۔
دنیا ایک امتحان گاہ ہے جس کا حقیقی نتیجہ یومِ حساب کے دن ہر انسان کو تھما دیا جائے گا۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 185میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور بے شک تمہیں پورا پورا دیا جائے گا تمہارے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن؛ پس جو بچا لیا گیا (جہنم کی) آگ سے اور و ہ داخل کر دیا گیا جنت میں‘ تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا اور نہیں ہے دنیاوی زندگی مگر دھوکے کا سامان‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت کے دن دائیں پلڑے کے بھاری ہونے کے بعد ہمیشہ کی کامیابی کی نوید سنائی اور بائیاں پلڑا بھاری ہونے پر جہنم کے انگاروں کا ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ القارعہ کی آیات 6 تا 11میں ارشاد فرماتے ہیں : ''پس رہا وہ جو (کہ) بھاری ہو گئے اس کے پلڑے۔ تو وہ پسندیدہ زندگی میں ہو گا۔ اور رہا وہ جو (کہ) ہلکے ہو گئے اس کے پلڑے۔ تو اُس کا ٹھکانا ہاویہ ہے۔ اور آپ کیا جانیں وہ (ہاویہ) کیا ہے۔ آگ ہے دہکتی ہوئی‘‘۔
سورۃ النازعات میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے کامیاب اور ناکام گروہوں کا ذکر کیا۔ ناکام گروہ کے حوالے سے سورۃ النازعات کی آیات 37تا 39 میں ارشادہوا: ''پس رہا وہ جس نے سرکشی کی۔ اور اس نے ترجیح دی دنیوی زندگی کو۔ تو بے شک جہنم ہی (اس کا) ٹھکانا ہے‘‘۔ اس کے مدمقابل اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی سورہ مبارک میں کامیاب جماعت کا بھی ذکر کیا؛چنانچہ سورۃ النازعات کی آیت نمبر 40 تا 41 میں ارشاد ہوا: ''اور رہا وہ جو ڈر گیا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اور اس نے روکا(اپنے) نفس کو (بُری) خواہش سے۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہے‘‘۔
اِن آیات مبارکہ سے یہ بات سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ جو لوگ دنیا کے حصول کے لیے ہر جائز وناجائز ذریعے کو اختیار کرتے ہیں وہ ضرور بالضرور ناکام ہوں گے اور ان کے مدمقابل کامیابی اُنہی لوگوں کو حاصل ہو گی جو اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنی خواہشات کو دباتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے پیشی کے احساس کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری رہنمائی کرے اور ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرمائے جو دُنیا سے اِس انداز میں رخصت ہوں کہ اُخروی کامیابی کی نوید اُن کو بوقت رخصت ہی سنائی جا رہی ہو اور وہ ہمیں ناکام اور نامراد لوگوں میں شامل ہونے سے بچا لے، آمین !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved