ہمارے لیے ہر اعتبار سے سب سے بڑی دُنیوی دولت وقت ہے۔ وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ہر انسان اپنے سیاق و سباق کے دائرے میں رہتے ہوئے سوچتا ہے۔ وقت کے بارے میں اُس کا تاثر اور تصور بھی اپنے حالات و واقعات کے تناظر ہی میں قائم ہوتا ہے۔ وقت ایسی دولت ہے جو انتہائی قیمتی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی محدود بھی ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے قدرت نے جتنا وقت طے کردیا ہے اُس سے ایک پل بھی زیادہ نہیں جیا جاسکتا۔ ہر انسان بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ اِس دنیا میں اُس کا قیام ایک خاص مدت تک ہے۔ اُس مدت کے ختم ہوتے ہی یہاں سے بوریا بستر لپیٹنا پڑتا ہے۔ اِس کے باوجود یہ امر انتہائی حیرت انگیز ہے کہ انسان جن نعمتوں کو یکسر نظر انداز کرکے چلتا ہے اور جن کے لیے ذرا سی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا اُن میں وقت بھی شامل ہے۔ اور اِس سے بھی زیادہ حیرت انگیز و افسوس ناک امر یہ ہے کہ سب سے زیادہ نظر انداز کی جانے والی اور بالکل سرسری طور پر لی جانے والی نعمت وقت ہی ہے۔ انسان کے پاس ہزار کاموں کے لیے وقت ہے، اگر نہیں ہے تو بس وقت کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ وقت کے معاملے میں ہم خاطر خواہ یا نمایاں حد تک سنجیدہ کیوں نہیں ہوتے؟ وقت کو مسلسل نظر انداز کرتے جانا آخر کیوں اس قدر عام ہے؟ پیدائش سے موت تک انسان بس جیے ہی جاتا ہے۔ سانسیں ملتی رہتی ہیں اور خرچ ہوتی رہتی ہیں۔ اُنہیں پانے کے لیے کچھ دینا تو پڑتا نہیں۔ جس چیز کے لیے کچھ دینا نہ پڑے اُس کے بارے میں انسان کا غیر سنجیدہ ہو رہنا فطری امر ہے۔ یہی سبب ہے کہ وقت کے بارے میں بہت کچھ جاننے اور پڑھنے کے بعد بھی انسان اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے بارے میں سوچنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اِس کے لیے غیر معمولی نوعیت کی نفسی تربیت درکار ہوتی ہے۔ وقت کے بارے میں اہلِ دانش نے ہر دور میں غیر معمولی نوعیت کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وقت کی اہمیت اُجاگر کرنے کی خاطر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ وقت کو نعمت کا درجہ دینے پر مائل کرنے والی سوچ پیدا کرنے کی خاطر بہت سی فلمیں بنائی گئی ہیں، بہت سے ڈرامے اور ناول لکھے گئے ہیں۔ اہلِ نظر کی نظر میں وقت ہی سب کچھ ہے۔ خدا کی ہر نعمت اپنی جگہ بہت خوب؛ تاہم وقت سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ لوگ صحت کے بارے میں بھی یہی سوچ رکھتے ہیں یہ درست ہے مگر وقت نہ ہو تو قابلِ رشک صحت بھی کچھ نہیں دے پاتی۔ کسی بھی زاویے سے دیکھیے اور سوچئے، حتمی تجزیے میں آپ اِسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ جو کچھ بھی ہے وہ وقت ہی ہے۔
زندگی کو معیاری انداز سے بسر کرنے کے بارے میں سنجیدہ رہنے والے مرتے دم تک ٹائم مینجمنٹ کے پھیر میں رہتے ہیں یعنی وقت کی ترتیب و تقسیم کے حوالے سے غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیا کسی بھی اعتبار سے وقت کا نظم و نسق اور تطبیق ممکن ہے؟ کوئی بھی انسان وقت پر تصرف پاسکتا ہے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ محض واہمہ ہے۔ کوئی ایک بھی انسان وقت پر تصرف نہیں پاسکتا۔ وقت کے نظم و نسق کا معاملہ صرف اتنا ہے کہ انسان اپنے وجود کے نظم و نسق پر متوجہ رہتے ہوئے ترجیحات کا تعین کرتا رہتا ہے تاکہ وقت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جاسکے۔ کچھ لوگ یہ سوچ کر خوش ہو رہتے ہیں کہ اُنہوں نے وقت کو نظم و نسق کی منزل سے گزار لیا ہے۔ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ نظم و نسق اور ترتیب و ترجیح کے مراحل سے انسان گزرتا ہے نہ کہ وقت۔ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جب کسی بھی موضوع کو ڈھنگ سے سمجھنے کے لیے درکار سبھی کچھ آسانی سے دستیاب ہے۔ وقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں جو کچھ چاہیے وہ بھی ہماری دسترس میں ہے۔ انٹرنیٹ کی مدد سے وقت کے بارے میں تمام بڑے اذہان کے نتائجِ فکر ہم سے محض ایک کلک کی دوری پر ہیں۔ وقت کے بارے میں ناول، تجزیاتی کتابیں، ڈرامے اور فلمیں اِتنی بڑی تعداد میں دستیاب ہیں کہ انسان کے لیے انتخاب کا مسئلہ بھی کھڑا ہو جاتا ہے۔ انتخاب کا مسئلہ تو خیر سے اب کم و بیش تمام ہی معاملات میں پایا جاتا ہے۔
قدرت نے ہمارے لیے جو چند کام انتہائی بنیادی حیثیت میں لازم کر رکھے ہیں اُن میں وقت کی تطبیق سب سے نمایاں ہے۔ قدرت ہمیں وقت تو دیتی ہے مگر اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لانے کا کوئی مینوئل یا ہدایت نامہ نہیں دیتی۔ زندگی کس طور بسر کی جانی چاہیے یہ تو ضرور بتایا گیا ہے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ اِس سلسلے میں ہم وقت کو کیونکر بروئے کار لائیں۔ یہ ہمیں خود ہی طے کرنا ہے۔ جے آر آر ٹولکین (J. R. R. Tolkien) نے ''The Fellowship of the Ring‘‘ میں لکھا ہے ''کامیابی کا مدار ہر اعتبار سے اِس امر پر ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ کس معاملے میں؟ وقت کے معاملے میں، اور کیا؟ وقت ہمیں مفت ملتا ہے۔ قدرت اِس معاملے میں فیاض اور عادل ہے۔ سب کو برابری کی بنیاد پر وقت ملتا ہے اور عمومی طور پر ہر انسان کے لیے اِتنا وقت ہوتا ہے کہ ڈھنگ سے جی سکے۔ ہمیں تو صرف یہ طے کرنا ہے جو وقت ہمیں عطا کیا گیا ہے اُسے کس طور بروئے کار لانا ہے‘‘۔
وقت کی حقیقی قدر و قیمت کا تقریباً درست اندازہ لگانا اور اپنے حصے کے وقت کو زیادہ سے زیادہ معیاری انداز سے بروئے کار لانا ہر عہد اور ہر ماحول و معاشرے کے انسان کا بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ آج یہ مسئلہ کچھ زیادہ پیچیدہ شکل اختیار کرچکا ہے۔ گزرے تمام ادوار میں انسان کے لیے وقت کو سمجھنا مشکل تھا مگر اب یہ معاملہ دردِ سر کے درجے میں ہے۔ آج کا انسان شدید ذہنی الجھن اور دباؤ کی زد میں ہے۔ وقت کم اور مقابلہ سخت کا مفہوم لوگوں کی سمجھ میں اب آیا ہے۔ آج ہر انسان کو ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کا دورانیہ کچھ ہے ہی نہیں۔ وقت کے گزرنے کا احساس بدل چکا ہے۔ ہر انسان کو ایسا لگتا ہے کہ وقت کو پَر لگ گئے ہیں۔ سبھی کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ زندگی بجلی کی سی رفتار سے گزر رہی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لڑکپن گزرتا ہے۔ پھر جوانی کا بھی یہی معاملہ ہوتا ہے اور ادھیڑ عمر آ جاتی ہے۔ اِس کے بعد؟ بڑھاپا یعنی دی اینڈ۔ یہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور بہت تیزی سے ہو رہا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ طے ہی نہیں کر پاتے کہ قدرت کی طرف سے عطا کیے جانے والے وقت کا کرنا کیا ہے۔
وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے مسئلے نے آپ کو بھی بہت پریشان کیا ہوگا۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ اس معاملے میں رعایت کے مستحق ٹھہرائے گئے ہوں۔ وقت سے کماحقہٗ مستفید ہونے کے معاملے میں جو بھی دباؤ پایا جاتا ہے وہ سب کے لیے ہے، آپ کے لیے بھی۔ آپ اس حقیقت کو کسی طور نظر انداز کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار نہ لانے کی صورت میں تمام معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ یہ ڈومینو ایفیکٹ کا معاملہ ہے۔ ایک چیز گری تو اُس سے جڑی ہوئی تمام چیزیں گرتی چلی جاتی ہیں۔ وقت کو محض نعمت نہیں بلکہ سب سے بڑی نعمت کے درجے میں رکھیں گے تو آپ بھی کچھ سوچ اور کر پائیں گے۔ وقت کا ضیاع روکنا ہر انسان کا مسئلہ ہے۔ آپ کا وقت بھی کسی نہ کسی صورت ضائع ہوتا رہتا ہے۔ اگر آپ حقیقی اور مکمل سنجیدگی اختیار کریں گے تو ہی وقت کا ضیاع روکنے کے حوالے سے کچھ کر پائیں گے۔
آج کا انسان وقت کے معاملے میں انتہائی نوعیت کے دباؤ کا شکار اس لیے ہے کہ پُرلطف زندگی بسر کرنے کے لیے مطلوب تمام چیزیں دستیاب ہیں مگر اُنہیں خریدنا اور اُن سے مستفید ہونا بیشتر کے بس کی بات نہیں۔ وقت آپ سے بھی سنجیدگی چاہتا ہے۔ اِسے بروئے کار لانے کے معاملے میں کسی غفلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved