چین کے نائب وزیراعظم ہی لی فینگ کی پاکستان آمد پر جب وفاقی دارالحکومت میں استقبال کی تیاریاں ہو رہی تھیں‘ شہر اقتدار کو برقی قمقموں سے سجایا جا رہا تھا تو اس وقت مغربی سرحد کے قریب خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام(ف) کے ورکرز کنونشن میں خود کش حملے کے نتیجے میں درجنوں افراد کو خون میں نہلا دیا گیا۔ تادم تحریر شہدا کی تعداد 46 ہو چکی ہے۔ شہید ہونے والوں میں سیکرٹری اطلاعات جمعیت علمائے اسلام باجوڑ حاجی مجاہد اور ان کا بیٹا ضیا الدین بھی شامل ہیں۔جے یو آئی تحصیل خار کے امیر مولانا ضیا اللہ جان اور تحصیل ناواگئی کے جنرل سیکرٹری حمیداللہ حقانی بھی شامل ہیں۔ ہم اپنے کالموں میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسندی کی مسلسل نشاندہی کر تے رہے ہیں؛ تاہم باجوڑ کے واقعے کو معمول کی دہشت گردی کا واقعہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ تاریخ گواہ ہے جب بھی چین کی اعلیٰ قیادت پاکستان کے دورہ پر آئی یہاں حالات خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ کبھی سیاسی انتشار کی فضا قائم کی گئی تو کبھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے‘ یہ سب محض اتفاقیہ نہیں ہے۔
باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام(ف) کے ورکرز کنونشن میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے میں ٹی ٹی پی سے زیادہ بیرونی عوامل کے ملوث ہونے کے خدشات ہیں۔ وقوعہ کے فوری بعد افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے آفیشل نمبر سے مجھے وَٹس ایپ پر تعزیتی پیغام ارسال کیا ۔ ذبیح اللہ مجاہد نے باجوڑ وقوعہ پر اظہار ِافسوس کرتے ہوئے مرنے والوں کے لیے شہید کے الفاظ استعمال کئے‘ زخمیوں کی صحت یابی کیلئے دعا کی اور اس طرح کے واقعات سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کیا۔خیبرپختونخوا کے سکیورٹی ذرائع نے باجوڑ وقوعہ کے حوالے سے بتایا کہ اس میں داعش کے خراسان گروپ کے ملوث ہونے کا قوی امکان ہے۔ اعلیٰ سکیورٹی ذرائع نے کہا کہ ہمیں دہشت گردی کی لہر کا سامنا ہے‘ تاہم پولیس اس کے خلاف فرنٹ لائن پر کردار ادا کر رہی ہے۔ باجوڑ میں جمعیت کے کارکنوں کے ساتھ سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں اس سے قبل ضلع خیبر میں علی مسجد میں شدت پسندوں کا تعاقب کرنے والے عدنان آفریدی ایڈیشنل ایس ایچ او شہید ہو گئے۔ پولیس نے دو مشکوک افراد میں سے ایک کو گرفتار کیا تو اس نے اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کیا‘ عدنان آفریدی اس حملہ آور کے پیچھے بھاگے اور جب حملہ آور جمرود کی مسجد میں داخل ہوا تو اس نے خود کو اُڑا لیا یوں عدنان آفریدی شہید ہو گئے۔ باجوڑ میں داعش کے ملوث ہونے کا امکان اس لئے بھی زیادہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے مفتی نور ولی گروپ کی باجوڑ میں فعالیت نہیں ہے‘ اس کی نسبت مولوی فقیر محمد گروپ کی موجودگی زیادہ ہے۔بہر کیف شرپسندی میں جو عناصر بھی ملوث ہوں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کی سرکوبی کرے۔سیاسی جماعتوں کو اب شدت پسندعناصر کیلئے نرم گوشہ ترک کرنا ہو گا۔کھل کر ان عناصر سے لاتعلقی کا اظہار کرنا ہو گا۔ ایک سیاسی جماعت کے بارے تاثر عام ہے کہ وہ شدت پسند ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے‘ وہ باجوڑ جیسے ناخوشگوار واقعات کی مذمت کیوں نہیں کرتی ہے؟ٹی ٹی پی نے کس جماعت کے بارے کہا تھا کہ اگر اسے انتخابات سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی تو انتخابات خونیں ہوں گے۔ قارئین یاد کر سکیں تو ہم تواتر کے ساتھ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے خطرات سے آگاہ کر رہے تھے‘ آج باجوڑ میں خود کش حملے کے بعد ثابت ہو گیا کہ صوبے کے لوگوں کی جان کی حفاظت کتنا بڑا چیلنج ہے۔ ایسا نہیں کہ سکیورٹی ادارے اور پولیس نے حفاظتی انتظامات نہیں کیے تھے‘ مگرحقیقت یہ ہے کہ جب پورے ملک میں سیاسی جلسے شروع ہوں گے تو سکیورٹی اداروں کیلئے وسیع پیمانے پر حفاظتی انتظامات کر کے ہزاروں افراد کو چیک کرنا آسان نہیں ہو گا۔
پاکستان میں جاری دہشت گردی اور عدم استحکام کو عالمی تناظر سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ پاکستان کی سیاست اور معیشت پر منظم انداز سے حملے کئے جا رہے ہیں۔دو روز قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی ایک مانیٹرنگ رپورٹ میں کہا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور القاعدہ الحاق کیلئے کوشاں ہے تاکہ وہ تشکیلِ نو کے بعد جنوبی ایشیا میں تمام عسکریت پسند گروپوں کی سرپرستی کر سکے۔ اگر کالعدم ٹی ٹی پی دیگر عسکریت پسندوں کو شیلٹر فراہم کرتی ہے تو اس گٹھ جوڑ سے پاکستان کو خطرات لاحق ہوں گے۔امریکہ اور افغان طالبان قطر میں مذاکرات کر رہے ہیں۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں وفد قطر پہنچا۔ افغان حکام کی طرف سے بتایا گیا کہ وفد نے امریکی حکام سے پابندیوں‘ بلیک لسٹ کے خاتمے اور افغان بینک کے منجمد اثاثے جاری کرنے کے مطالبات پیش کئے۔ اس موقع پر دیگر کئی ممالک کے حکام بھی قطر پہنچے تھے جنہوں نے اپنے مطالبات پیش کئے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں کارروائیاں کی جا رہی ہیں‘ عالمی سطح پر پاکستان کے مؤقف کی تائید کی گئی ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے ہمیں کسی کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے مسائل کا مقامی سطح پر خود ہی حل نکالنا ہو گا۔
باجوڑ حملے کا دوسرا پہلو معاشی ہے۔ اس دھماکے کی ٹائمنگ ایسی ہے کہ چین کے نائب وزیراعظم اسلام آباد پہنچے ہیں جو سی پیک کے دس سال پورے ہونے پر تقریبات میں شرکت کیلئے آئے ہیں‘ چین کے نائب وزیراعظم ہی لی فینگ صدر شی جن پنگ کے نمائندہ خصوصی ہیں۔ ان کے دورے کا مقصد دوطرفہ اقتصادی تعاون کو وسعت دینے کے معاہدوں پر دستخط کرنا ہے۔ دوسری طرف پاکستان چین کے اشتراک سے معاشی بحالی کے متعدد پروگرام کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔ہمارے بدخواہ بخوبی جانتے ہیں کہ معاشی بحالی کا سفر امن قائم کئے بغیر پورا نہیں ہو سکتا ہے اس لئے بدامنی پیدا کر کے ہماری راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ چینی نائب وزیر اعظم کا دورہ موجودہ حالات میں بے حد اہم ہے۔ اس سے نہ صرف سی پیک کو boost ملے گا بلکہ مجموعی طور پہ معیشت میں بھی بہتری آئے گی۔ چین کے سرمایہ کار اب دوبارہ پاکستان آنا شروع ہو گئے ہیں۔ جلد ہی پاکستان کے ایئرپورٹس اور ہوٹلوں میں چینی مرد و خواتین کی گہما گہمی نظر آنے لگے گی۔ چین اور عربوں کی سرمایہ کاری آنے سے دنیا کے دیگر سرمایہ کار بھی راغب ہوں گے‘ تاہم اس سب عمل کے شروع ہونے سے پہلے پاکستان میں توانائی کا بحران ختم کرنا ہو گا۔ گردشی قرضوں کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے تاکہ تمام پاور کمپنیاں اپنی full capacityپہ چل سکیں۔ بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی کے بغیر سرمایہ کاری ممکن نہیں ہو گی۔ کچھ نہ کچھ ٹیکس چھوٹ بھی دینی پڑے گی لیکن سب سے اہم بات سکیورٹی ہے۔ چین کا سب سے بڑا مسئلہ ان کے شہریوں کی اس ملک میں سکیورٹی ہے جس کا حصول ہر قیمت پہ ضروری ہے۔ ہمیں چین کی دوستی کا فائدہ ان سے تجارت بڑھا کے اٹھانا چاہیے۔ چین ہر لحاظ سے خوراک کی ایک بڑی منڈی ہے‘ دوسرا چین کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے اچھا ماحول دینا ہے۔
جس اذیت سے چین کی کمپنیوں کو سابق دور میں گزارا گیا ہے اسے یقین دہانی کرانی ہو گی کہ اب ایسا نہیں ہو گا۔ حکومت سنجیدگی سے ایسے قوانین بنا رہی ہے جس کی بدولت غیر ملکی کمپنیوں کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔ سکیورٹی چیلنجز پر قابو پانا سرمایہ کاری ایجنڈے میں سرفہرست ہونا چاہئے ورنہ سرمایہ کاری کیلئے تمام تر کاوشیں رائیگاں جائیں گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved