یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں راولپنڈی کی معروف درس گاہ گورڈن کالج میں پڑھتا تھا۔ کیا زمانہ تھا‘ کیا بے فکری کے دن تھے جب ہم دوست کلاس کے بعد کبھی گورڈن کالج کے عقب میں کالج روڈ پر واقع زم زم کیفے میں بیٹھتے اور کبھی گرمیوں کی طویل شاموں میں بے مقصد گھومتے رہتے۔ کالج روڈ کے قریب ہی عالم خان روڈ ہے‘ جسے پرندوں والی سڑک بھی کہتے ہیں‘ جہاں سڑک کے دونوں اطراف رنگ برنگ پرندوں کی دکانیں ہیں۔ اکثر لوگ ان پرندوں کو خرید کر آزاد کرا دیتے ہیں۔ یہ ایک طریقے سے اپنی منت پوری ہونے پر شکرانے کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی سڑک پر بائیں ہاتھ ایک عمارت نظر آتی ہے‘ ایک پُرشکوہ عمارت جس میں لکڑی کا کام نمایاں ہے۔ کبھی اس گھر کے مکینوں میں بلراج ساہنی اور بھیشم ساہنی شامل تھے۔ بلراج نے اداکاری اور بھیشم نے ادب کے میدان میں اپنے فن کا جادو جگایا۔ میں پہلے انہی صفحات میں بلراج ساہنی کے بارے میں لکھ چکا ہوں۔ بھیشم ساہنی اس سے دو برس چھوٹا تھا۔ وہ بچپن سے ہی بیمار رہتا تھا اور اکثر سکول سے چھٹی کرکے گھر پہ ہی رہتا تھا۔ یوں اسے اپنی ماں کے ساتھ وقت گزارنے کا زیادہ موقع ملتا۔ ماں گھر کے کام کرتے ہوئے اکثر گیت گنگناتی رہتی۔ بھیشم کو یاد ہے یہ گیت گہری اداسی میں ڈوبے ہوئے ہوتے۔ اُس وقت بھیشم کو خبر نہیں تھی کہ اس اداسی کی وجہ کیا ہے۔ وہ دو بہنیں اور دو بھائی تھے‘ بعد میں اُسے پتا چلا کہ اس کی تین بڑی بہنیں بھی تھیں جن کا انتقال ہو گیا تھا۔ ماں کے گیتوں میں اداسی کا سبب یہی تھا۔ ان کے آباؤ اجداد بھیرہ سے راولپنڈی آئے تھے۔ بھیرہ میں اب بھی ساہنیوں کا محلہ ہے۔
آٹھ اگست 1915ء کو اس گھرانے میں بھیشم پیدا ہوا۔ اس وقت کسے معلوم تھا کہ ایک وقت آئے گا جب ساہنیوں کا یہ لڑکا ایک افسانہ نویس‘ ناول نگار‘ ڈرامہ نویس‘ مترجم‘ استاد‘ اداکار اور ہدایت کار کے روپ میں شہرت کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکے گا۔ بھیشم شروع سے ہی اپنے بڑے بھائی بلراج ساہنی سے متاثر تھا۔ بلراج اس کا رول ماڈل تھا جو ایک تخلیقی ذہن اور آزادانہ سوچ کا مالک تھا۔ دونوں بھائی ایک ساتھ سکول جاتے اور زیادہ تر وقت اکٹھے گزارتے۔ بھیشم ہاکی کھیلنے کا شوقین تھا۔ اس کے ساتھ ٹیم میں زیادہ تر کھلاڑی مسلمان تھے۔ راولپنڈی میں مسلمان‘ ہندو‘ سکھ‘ اور عیسائی رہتے تھے۔ بھیشم کے گھر کے گردو نواح میں مسلمانوں کی اکثریت تھی‘ اسے یاد ہے اس کی ماں دیوار کے دوسری طرف اپنی مسلمان پڑوسن سے ڈھیروں باتیں کرتی تھی۔ بھیشم کی عمر گیارہ یا بارہ سال ہو گی جب راولپنڈی میں ہندو مسلم فساد ہوا اور اناج منڈی کو آگ لگا دی گئی۔ شعلوں سے اٹھتا دھواں دُور دُور تک پھیل گیا تھا۔ وہ گرمیوں کے دن تھے۔ گرمیوں میں لوگ پنجاب میں چھتوں پر چار پائیاں بچھا کر سوتے ہیں۔ اُس دن بھیشم کو اپنے گھر کی چھت سے آگ کے شعلے اور دھواں صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اُس روز کا منظر ساری عمر کے لیے اُس کے دل میں ٹھہر گیا تھا۔
مسلمان دوستوں کے ساتھ اُسے کبھی بیگانگی کا احساس نہیں ہوا۔ اُسے یاد ہے جب رمضان کا مہینہ آتا تو ان کی گلی میں ایک فقیر آتا اور بلند آواز سے لوگوں کی سحری کے لیے جگاتا۔ بھیشم بھی ٹین بجا کر سحری کے لیے لوگوں کو بیدار کرتا تھا۔ سکول کا زمانہ ختم ہوا تو بھیشم کا بھائی بلراج مزید تعلیم کے لیے لاہور چلا گیا جہاں اس نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش کیا۔ بھیشم بھی بلراج کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے گورنمنٹ کالج پہنچ گیا اور وہاں سے ایم اے انگلش کی ڈگری حاصل کی۔ لکھنے کا شوق اُسے شروع سے تھا‘ اس کی پہلی کہانی ''آبلہ‘‘ شائع ہوئی تو وہ دسویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ گورنمنٹ کالج کے رسالے ''راوی‘‘ میں بھی اس کی تحریریں شائع ہوئیں۔ لاہور میں ادبی ذوق کے ساتھ اس کا سیاسی شعور بھی پروان چڑھا۔ ایم اے کرنے کے بعد وہ واپس راولپنڈی آگیا اور اپنے والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگا۔
ایک بار جب وہ الہ آباد سے دہلی جانے والی ٹرین پر سفر کر رہا تھا تو اُسے خیال آیا کیوں نہ راستے میں کانپور اُتر جاؤں اور وہاں کچھ کام نپٹا کر دہلی جاؤں لیکن اُسے معلوم نہ تھا کہ وہ کانپور میں رکنے کے بعد اسی ٹکٹ پر دہلی جا سکتا ہے۔ گاڑی جب کانپور سٹیشن پر رکی تو بھیشم نے اُتر کر آفس میں کلرک بابو سے پوچھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ قطار میں اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ پیچھے سے ایک گورا فوجی افسر آیا۔ اس کی پیٹی کے ساتھ پستول لٹک رہا تھا اس نے بھیشم کو ہاتھ سے ایک طرف ہٹایا اور خود آگے چلا گیا۔ بھیشم نے احتجاج کیا تو گورے نے بھیشم کو گردن سے پکڑ کر دھکا دیا اور وہ لڑھکتا ہوا دُور جا گرا۔ جب بھیشم اُٹھ کر کھڑ کی تک پہنچا تو کلرک بجائے اس کی حمایت کرنے کے الٹا بھیشم سے شکایت کرنے لگا کہ اس نے صاحب بہادر کو کیوں ناراض کیا۔
اُس دن بھیشم کو شدت سے احساس ہوا کہ حاکم اور محکوم کا تعلق کیا ہوتا ہے۔ بھیشم اس غلامی کے دور کے خاتمے کے لیے آزادی کی تحریک میں شامل ہو گیا۔ اس نے ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں باقاعدہ حصہ لیا۔ یہ 1942ء کا سال تھا جب وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر گرفتار کر لیا گیا۔ یہ دوسری عالمگیر جنگ کا زمانہ تھا جب ہندوستان میں بسنے والا ہر ذی شعور شخص تحریکِ آزاد ی کا حصہ بن گیا تھا۔ بھیشم والد کے کاروبار میں ہاتھ بھی بٹا رہا تھا۔ اس کے لیے اسے ہندوستان کے کئی شہروں کا سفر کرنا پڑتا۔ کئی کئی دن گھر سے دور رہنا پڑتا لیکن جب راولپنڈی کے گھر لوٹ کر آتا تو یوں لگتا اس کے سفر کی ساری تکان دور ہو گئی ہے۔ گھر واپسی پر اس کے ماں باپ‘ بہن بھائی‘ بیوی اور بچے اس کی راہ تک رہے ہوتے۔
آزادی کی تحریک اب تیز ہو گئی تھی۔ برطانوی راج کا سنگھاسن لڑکھڑانے لگا تھا۔ آخر کار وہ دن آ ہی گیا جب فرنگیوں نے ہندوستان چھوڑ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ تقسیم کا باقاعدہ اعلان 14اگست کو ہونا تھا لیکن راولپنڈی میں فسادات کا سلسلہ پہلے سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ بھیشم اُن ریلیف ٹیموں کا حصہ تھا جو فسادات سے متاثر ہونے والے لوگوں کی مدد کر رہی تھیں۔ اور پھر 13اگست کا دن آگیا جب بھیشم اور اس کے والد راولپنڈی کے گھر میں اکیلے تھے۔ بلراج بمبئی میں تھا اور بھیشم کی والدہ‘ بیوی اور بیٹی سرینگر میں تھیں۔ بھیشم کی خواہش تھی کہ آزادی کا جشن دیکھنے کے لیے وہ دہلی جائے۔ اُس نے اپنی خواہش کا اظہار اپنے والد سے کیا جنہوں نے بخوشی اسے اجازت دے دی۔ بھیشم اپنے والد سے مل کر گھر سے نکلا۔ اسے دہلی میں آزادی کا جشن دیکھنا تھا اور پھر اپنے گھر واپس آجانا تھا۔ اسے کیا خبر تھی کہ وہ اس گھر میں کبھی واپس نہ آسکے گا۔ جب ٹرین میرٹھ کے سٹیشن پر پہنچی تو پتا چلا کہ ٹرینوں کی آمدورفت بند ہو گئی ہے۔ واپسی کے راستے بھی بند ہو چکے تھے۔ یہ عجیب صورتحال تھی‘ وہ میرٹھ میں تھا‘ اُس کی والدہ اور بیوی سرینگر میں تھے۔ والد راولپنڈی والے گھر میں اور بڑا بھائی بلراج بمبئی میں۔ میرٹھ کے ریلوے سٹیشن پر بیٹھے‘ اس نے سوچا زندگی بھی کتنی بے اعتبار ہے‘ ہم کیا کیا خواب دیکھتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہر خواب کی تعبیر بھی ملے۔ اس نے دیکھا لوگ تیز تیز اپنے گھروں کو جا رہے تھے جہاں ان کے پیارے ان کے منتظر تھے۔ اس وقت میرٹھ کے ریلوے سٹیشن پر بیٹھے شام کے ڈھلتے رنگوں میں اسے شدت سے اپنے گھر کی یاد آئی۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved