سکیورٹی کے غیرمعمولی انتظامات کے جلُو میں عشرۂ محرم باعافیت گزر گیا۔ موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پہ پابندی اور بعض مقامات پر موبائل فون سروس کی بندش سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ بالخصوص خیبرپختونخوا میں جہاں گورننس کے مسائل پیچیدہ وگمبھیر ہیں‘ شہریوں کی تکالیف دو چند تھیں تاہم طوعاً و کرہاً اس صورتحال کو بسر و چشم قبول کر لیا گیا۔ خیبر پختونخوا کی روایات ہی دراصل انتظامی اتھارٹی کے مزاج کا تعین کرتی ہیں۔ انہی روایات کے تقاضوں میں یہ شامل ہے کہ اختیارات اور وسائل پہ تصرف کا حق تو انتظامی افسران کا ہوگا لیکن قیامِ امن کی ذمہ داری اس سفید پوش اشرافیہ کے کندھوں پہ ہو گی جو معمول کے دنوں میں پولیس اور انتظامیہ سے وابستگی کے ذریعے معاشرے میں اپنی حیثیت استوار رکھتی ہے۔ دورِ غلامی کی یادگار ''Diarchy‘‘ سے مماثل یہ بندوبست سابق قبائلی علاقوں میں تو کافی گہری جڑیں رکھتا تھا‘ قبائلی علاقوں کو ضم کرنے کے پانچ سال بعد وہاں کے عمائدین آج بھی خود کو اس وقت تک باوقار نہیں سمجھتے جب تک انتظامیہ سے وابستگی کا اہل ثابت کرنے کے لیے رضا کارانہ طور پہ وہ ذمہ داریاں اپنے سر نہ لاد لیں جن کے وہ اصولاً مجاز ہیں نہ اس کام کی انہیں کوئی اُجرت ملتی ہے۔ اسی سے ملتی جلتی روایات خیبر پختونخوا کے بندوبستی اضلاع کے انتظامی ڈھانچے میں بھی پائی جاتی تھیں اور اب بھی موجود ہیں‘ تاہم صدر پرویز مشرف کے ابتدائی ایام میں بندوبستی اضلاع میں ڈپٹی کمشنر کے منصب کو غیرمؤثر کرکے امنِ عامہ کا اختیار پولیس کو تفویض کرنے کے بعد ان سماجی روایات کی بنیادیں ہل گئیں۔ ایک تو پولیس کے پاس انتظامی امور چلانے کی وہ مہارت نہیں تھی جو ڈی ایم جی افسران کا خاصہ تھی‘ اگر پولیس سے کوئی شہری بحث و مباحثہ یا دلائل دینے کی جسارت کرے تو تھانیدار کا ہاتھ غیر ارادی طور پہ اس کی طرف اٹھتا ہے کیونکہ اسے صرف قوت کا استعمال سکھایا گیا‘ یہاں فنِ حکمرانی کے لیے درکار وہ ذہنی لچک معدوم ہے جو انتظامی اتھارٹی کا جوہر سمجھی جاتی ہے۔ دوسرے سوشل میڈیا کی حرکیات نے اس نفسیاتی حصار کو توڑ ڈالا جو کبھی انتظامیہ کی رِٹ کو برقرار رکھنے میں بالواسطہ طور پہ اہم کردار اداکرتا تھا؛ چنانچہ پولیس کی لاٹھی کے سہارے کھڑا چوتھا مارشل لاء ناکام ہو کر فورسز کو عوام کے مقابل لے آیا۔ حالانکہ یہی کام یعنی موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پہ پابندی یا موبائل فون سروس کا تعطل بہتر طریقہ سے بھی سرانجام دیا جا سکتا تھا۔ پولیس اگر مقامی سیاسی لیڈر شپ‘ علما کرام‘ عمائدینِ شہر اور تاجروں کی لیڈرشپ کو بلا کر ان سے تجاویز مانگتی اور انہی کے تعاون سے ایسے ناگزیر اقدامات پیشگی عوام کے علم میں لا کر انہیں ذہنی طور تیار کر لیتی تو ان پابندیوں کے نفاذ کو عوام بخوشی قبول کر لیتے اور شہریوں اور ریاست کے مابین عمرانی معاہدہ متاثر نہ ہوتا۔
عشرۂ محرم میں تمام مکاتب فکر میں یکجہتی کا ماحول پروان چڑھا‘ مذہبی رواداری کے اس مثبت عمل کے نتائج کو دیر پا بنانے کا تقاضا یہی تھا کہ ماحول کو ہموار اور فضا کو خوشگوار رکھا جائے مگر افسوس کہ انتظامیہ کی جانب سے بغیر کسی حکمتِ عملی کے اچانک سختیاں کرکے دونوں مکاتب فکر کے شہریوں کو ناراض کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان اور جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کی کامیابی کا انحصار سول بیوروکریسی کی مہارت پہ استوار تھا۔ عوام اور مقتدرہ کے درمیان کشن کا کام کرنے والی بیوروکریسی نے اپنی مینجمنٹ کی مہارت سے شہریوں کے بنیادی حقوق‘ سماجی آزادیوں اور معاشرتی روایات کو متاثر ہونے سے بچا کر عوام اورا فواج کے مابین وفاداری کا رشتہ برقرار رکھا‘ جس سے مملکت کا انتظامی ڈھانچہ مضبوط‘ معاشرہ مربوط اور پولیس سمیت دیگر فورسز کو عوام سے براہِ راست ڈیلنگ کے جنجال سے نجات مل جاتی تھی۔ سول انتظامیہ کا یہی منظم ڈھانچہ پچاس برسوں تک مارشل لاء کو قابلِ برداشت بنانے کے علاوہ شہری زندگی اور معاشرتی نظام کو ریگولیٹ کرتا رہا۔اگر ہم پلٹ کر دیکھیں تو انگریز کا عہد بھی کوئی جمہوری دور نہیں تھا بلکہ گوروں نے تو مارشل لاء سے بھی زیادہ سنگین آمریت قائم رکھی‘ لیکن اپنی حاکمیت کو عوام کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے انہوں نے بتدریج سول بیوروکریسی کا ایسا منظم ڈھانچہ تعمیر کیا جو عوام اور ریاست کے مابین کمیونیکیشن کا مؤثر وسیلہ بن گیا۔ امر واقع یہ ہے کہ 1757ء میں جب پہلی بار ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کا انتظام سنبھالا تو وہاں ٹیکس اکٹھا کرنے کی خاطر ڈپٹی کلکٹر (ڈی سی) کا عہدہ تخلیق کیا گیا جس کے پاس فقط ٹیکس جمع کرنے کااختیار تھا‘ بعد میں جب کچھ لوگ ٹیکس دینے سے انکاری ہوئے تو برٹش پارلیمنٹ نے ڈی سی کو ٹیکس نادہندہ کو گرفتار کرنے کا اختیار بھی تفویض کر دیا‘ بعد میں یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ گرفتاری کے باوجود اگر نادہندہ ٹیکس دینے سے انکاری ہو تو اسے ڈسپوز آف کیسے کیا جائے؟ چنانچہ ایسے میں ڈی سی کو پہلے ایک ماہ‘ پھر دو ماہ اور آخرکار ملزم کو تین ماہ تک قید رکھنے کا اختیار مل گیا۔ یوں 1857ء تک پورے سو سال میں بتدریج کم و بیش ایک سو بارہ اختیارات تفویض کرکے ڈپٹی کمشنر کا وہ طاقتور انسٹیٹیوشن استوار کیا گیا جس نے عظیم ہندوستان پہ گورنمنٹ کی رِٹ قائم رکھنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ 2001ء تک ڈپٹی کمشنر کا یہ ادارہ پوری آب و تاب کے ساتھ گورنمنٹ کا چہرہ اور ریاستی املاک کا جائز وارث (سرکار خاطر مدار) بنا رہا لیکن صدر پرویز مشرف نے 14 اگست 2001ء کی شام صرف ایک اعلان کے ذریعے دو سو برسوں کے تجربات پہ محیط نظام کو گرا کر نیا شہری سسٹم مسلط کر دیا‘ جو وقت کی صرف ایک کروٹ کے ساتھ ناکارہ ہو گیا۔ اگر وہ چاہتے تو اس نئے نظام کو چاروں صوبوں کے ایک ایک ضلع میں نافذ کرکے پہلے آزماتے اور عملی تجربات کے ذریعے خامیوں کو دور کرکے بتدریج اس کے نافذ کا دائرہ عمل بڑھا سکتے تھے لیکن وہ مہارت اور تجربات کے بجائے طاقت کے بل بوتے مسخر کرنے کے جوش میں آزمودہ اور مربوط نظام کو تحلیل کرکے مملکت کو حالات کے ایسے منجدھار میں چھوڑ گئے جہاں سے وہ واپس پلٹ نہیں سکتی۔ ڈپٹی کمشنر کا مؤثر عہدہ ختم کرکے شہری انتظام کو پولیس فورس کے سپردکرنے کے نتیجہ میں عملاً گورنمنٹ کا وجود معدوم ہو گیا اور پورا معاشرہ سول و ملٹری فورسز کی قوتِ قہرہ (Cursive power) کے درمیان پسنے لگا۔ پولیس فورس حکمت اور مہارت کے بجائے ڈنڈے سے شہریوں کو ڈیل کرنے لگی تو ریاست کے ساتھ عوام کی وفاداری کا تعلق کمزور اور باہمی ہمدردی کا جذبہ کم ہوتا گیا‘ جس سے گورننس بتدریج کمزور ہوتے ہوتے اس مقام تک آ پہنچی کہ اب اگر حکومت صرف تجاوزات ہٹانے کے جسارت کرے تو بغاوت کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔
انگریز دور کے قائم کردہ تقسیمِ اختیارات کا مضبوط ڈھانچہ ٹوٹنے کے بعد اختیارات کی کھینچا تانی میں ڈی سی‘ ایس پی اور نظام انصاف سمیت ہر ادارہ اپنی قانونی حدود و قیود گنوا بیٹھا۔ اس وقت کوئی ادارہ درست طور پہ اپنا کام کرے نہ کرے لیکن دوسرے محکموں کی حدود میں مداخلت کے ذریعے بگاڑ پیدا کرنے میں آزاد ہے۔ انتظامی مہارتیں دراصل قیادت کی منظم شکل ہیں اور انتظامی قیادت‘ جو شہریوں پر اثرانداز ہونے کا وہ عمل ہے جو ان کی کوششوں کو مقاصد اور اہداف کے حصول کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی کام ڈسٹرک مینجمنٹ ڈھائی سو سال تک سر انجام دیتی رہی‘ یہ ڈپٹی کمشنر تھا جو کاشت کاری کے لیے حقوقِ آبپاشی سے لے کر حیوانات کے تحفظ‘ بازاروں کی تجارت‘ خرید و فروخت کی منڈیوں اور صنعتی ڈھانچوں کو ریگولیٹ کرکے پیداواری عمل کو نتیجہ خیز بناتا تھا اور اسی انتظامی و سماجی عمل کے دوران پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی خاطر نئے آئیڈیاز تخلیق کرکے ایسی فعالیت کو مہمیز دیتا جو پیداواریت اور کارکردگی کو بہتر بناتی تھی۔ ڈیرہ جات جیسے ان دامانی علاقوں میں رود کوہی نظامِ آبپاشی کی تخلیق اسی اُپچ کی کلاسیکی مثال ہے‘ جہاں پینے کا پانی تک میسر نہیں تھا۔ ڈی سی نئی پالیسیوں اور طریقہ کار کے ساتھ مستقبل کے مسائل کو روکنے کی صلاحیت سے بھی بہرور تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved