تحریک انصاف کے تقریباً ساڑھے تین سالہ اقتدار کے بعد پی ڈی ایم حکومت نے بھی تقریباً ڈیڑھ سال گزار لیا۔ اب حکومت کے جانے کا وقت ہے اور اس کی جگہ نگران سیٹ اَپ آئے گا۔ نگران حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری غیر جانبدار رہتے ہوئے عام انتخابات کرانا ہے اور اس کام میں آئینی طور پر بااختیار الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہے۔ آئین کے مطابق منتخب حکومت کے جانے کے بعد 60دن میں الیکشن کرانا ہوتے ہیں اور اگر حکومت آئینی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی اسمبلیاں تحلیل کر دے تو انتخابات کا انعقاد 90روز میں کرانا ہوتا ہے۔ اسی طرح سے صاف اور شفاف الیکشن کرانا بھی آئینی تقاضا ہے لیکن اس وقت بنیادی سوال یہ ہے کہ الیکشن کب ہوں گے؟ اور اگر ہوں گے تو نئی مردم شماری پر ہوں گے یا پرانی مردم شماری پر ہوں گے؟ نئی مردم شماری پر الیکشن ہوئے تو کیا نئی حلقہ بندیاں کرائی جائیں گی؟ نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں نشستوں کا تناسب کیا ہوگا؟ کیا آئین میں ترمیم بھی کرنا پڑے گی؟ اس پر سیاسی جماعتیں متفق ہوں گی؟ اور کیا اس سارے عمل کے نتیجے میں انتخابات وقت پر ممکن ہوں گے یا پھر تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں؟
وزیراعظم شہباز شریف نے اگلے روز اس حوالے سے ایک نجی ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے بہت کچھ واضح کردیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں نئی مردم شماری کے تحت ہی الیکشن میں جانا ہے‘ جب نئی مردم شماری ہوئی ہے تو انتخابات اسی کے تحت ہونے چاہئیں اور الیکشن میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی صوابدید ہے۔نئی مردم شماری کے نتائج جونہی مکمل ہوتے ہیں تو ہم اس کو مشترکہ مفادات کونسل کے پاس لے کر جائیں گے۔وزیراعظم کے اس بیان کا بغور جائزہ لیں تو اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ مردم شماری کے نتائج مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیے جائیں گے۔ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی اس میں موجود ہوں گے‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نمائندگی نگران وزرائے اعلیٰ کریں گے۔ پھر مردم شماری کے منظور ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مردم شماری منظور ہوتی ہے تو گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہوگا۔ پھر گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہوگی جو انتخابات کرانے کے لیے حتمی اتھارٹی ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا مؤقف ہے کہ الیکشن سے فرار کسی صورت ممکن نہیں‘ یہ ملک کی ضرورت ہے۔ نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کروانے کی صورت میں الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں کرنا ہوں گی۔ اس صورت میں الیکشن 90 دن سے آگے جاسکتے ہیں کیونکہ 90 دن میں الیکشن کرانے ہیں تو پرانی مردم شماری پر کرانا ہوں گے۔2018ء کے الیکشن سے پہلے بھی اسی طرح کا مسئلہ درپیش تھا۔2017ء میں بھی لوگ نئی مردم شماری پر انتخابات کیلئے سپریم کورٹ گئے تھے لیکن 2017ء کی مردم شماری کا حتمی نوٹیفکیشن بعد ازاں پی ٹی آئی حکومت میں آیا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ صوبوں کے مابین حلقہ بندیاں کرنے کیلئے آئینی ترمیم درکار ہوگی‘ صوبوں کے اندر حلقہ بندیاں نئی مردم شماری کے تحت ہوں گی‘ اس وقت درپیش مسائل کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے آئین و قانون کی روشنی میں کرنا ہے‘ الیکشن کے معاملات کی حتمی اتھارٹی الیکشن کمیشن ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ صوبوں کی طرف سے مردم شماری کا کام آہستگی سے ہوا‘ صوبوں کی طرف سے بار بار وقت مانگنے کی وجہ سے مردم شماری میں تاخیر ہوئی‘ مردم شماری کیلئے مزید وقت نہ دیتے تو پھر صوبے گلہ کرتے ہمیں موقع نہیں دیا۔ نگراں سیٹ اَپ آئے گا اس کے بعد الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کا اعلان کرے گا۔ نگران حکومت جتنی بھی قابل ہو‘ اس کیساتھ بے یقینی کا تاثر رہے گا لیکن کسی کے ذہن میں غلط فہمی نہیں کہ الیکشن غیر معینہ مدت تک آگے جائیں۔ احسن اقبال وزیراعظم کے بیان کی تشریح کرتے نظر آتے ہیں۔ یعنی مردم شماری منظور ہو جاتی ہے تو جو کرنا ہے الیکشن کمیشن نے کرنا ہے۔ کنور دلشاد سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ آئینی طور پر چاروں وزرائے اعلیٰ فعال ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 224نے انہیں مکمل اختیار دیے ہوئے ہیں۔ اگر مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری منظور ہو جاتی ہے تو نوٹیفکیشن ہو سکتا ہے۔ اگر یہ نوٹیفکیشن ہو جاتا ہے تو الیکشن کمیشن پابند ہے کہ الیکشن کروائے۔ الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کی نشستوں کی تبدیلی کا اختیار نہیں رکھتا۔ مردم شماری ہوتی رہتی ہے‘ اس میں نشستوں کی کمی بیشی ضروری نہیں ہوتی۔ جو قانونی طور پر نشستیں متعین ہیں‘ ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ نگران سیٹ اَپ کو آئین کا تحفظ حاصل ہے۔ نگران حکومت وہ تمام اقدامات کر سکتی ہے جو منتخب حکومت کرتی ہے۔
دوسری جانب کچھ حلقے یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ نگران وزیراعظم کے لیے اسحاق ڈار کا نام اس لیے بھی لیا جا رہا تھا کہ اگر انتخابات کے انعقاد میں تاخیر ہوتی ہے تو وہ سیاسی آدمی ہیں‘ معاملات کو سیاسی طور پر لے کر چلیں گے۔ انتخابات کو غیر ضروری التوا میں نہیں رکھیں گے۔ مسلم لیگ (ن) بھی مطمئن رہتی کہ اپنا بندہ ہے‘ کوئی اونچ نیچ یا گڑبڑ ہوئی تو دیکھ لے گا۔ لیکن اسحاق ڈار کا نام سامنے آتے ہی اتحادیوں کی جانب سے کچھ ایسا سخت ردِعمل آیا کہ ان کا نام جہاں سے آیا وہیں واپس چلا گیا۔ فواد چودھری تحریک انصاف کے بڑے سرگرم وزیر اطلاعات رہے ہیں۔ چند دن پہلے ان کا بھی ایک اہم بیان میڈیا کی زینت بنا۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو مفاہمت کا مشورہ دیا۔ فواد چودھری کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف آپس میں تلخیاں دور کریں۔ ملک کے حالات معمول پر لائیں۔ انتخابات سے قبل میثاقِ جمہوریت کیا جائے۔ تلخیاں کم ہونے تک ملک میں الیکشن کیسے ممکن ہیں۔ انتخابات ہو بھی گئے تو مسائل کیسے حل ہوں گے؟ ہم آپس کی لڑائیوں سے باہر ہی نہیں نکل رہے۔ ملک میں جمہوریت کا ماحول نہیں۔ ان حالات میں الیکشن سے بہتر ہے مجلس شوریٰ بنا لیں۔ فواد چودھری کے بیان میں مفاہمت کا پیغام تو اہمیت رکھتا ہے۔ مجلس شوریٰ والی بات بھی پھینکنے والی نہیں۔ انتخابات وقت پر نہ ہوئے تو نگران سیٹ اَپ کتنی دیر نظامِ حکومت چلائے گا۔ سیاسی جماعتیں کب تک انتخابات کا انتظار کریں گی۔ کیا کوئی نیا سیٹ اَپ بنے گا؟ دیکھتے ہیں مردم شماری کی منظوری ہو جاتی ہے تو سیاسی منظر نامے پر کیا تصویر بنتی ہے۔ جمہوریت اچھی بُری‘ لُولی لنگڑی جیسی بھی ہو‘ اس کے پھلنے پھولنے کیلئے بنیادی تقاضا انتخابات ہی ہوتے ہیں جس میں عوام اپنی رائے سے کسی سیاست دان کو منتخب اور کسی کو مسترد کرتے ہیں۔ سیاسی‘ معاشی اور سکیورٹی معاملات کو کبھی ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ حکومت کرنا عوام کے منتخب نمائندوں کا حق ہے اور انہیں منتخب کرنا عوام کا حق ہے۔بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ''ہنوز الیکشن دور اَست‘‘ اپنی اس بات کے حق میں وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ حال ہی میں پارلیمنٹ میں نگران حکومت کے اختیارات کے حوالے سے پاس کیا جانے والا بل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نگران حکومت کو ملنے والے مالیاتی اختیارات دراصل یہی سوچ کر دیے گئے ہیں کہ نگران سیٹ اَپ لمبا ہونے کی صورت میں عالمی مالیاتی اداروں بشمول آئی ایم ایف اور دوست ممالک کیساتھ ہونے والے معاہدوں کو کرنے یا پھر ان پر عملدرآمد کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہ رہے۔
واقفانِ حال کے مطابق نگران وزیراعظم کے لیے حکمران اتحاد کی طرف سے معروف بزنس مین گوہر اعجاز‘ سابق گورنر سندھ عشرت العباد‘ جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن رمدے اور سینئر سیاستدان محمد میاں سومرو کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔ ان ناموں کے سامنے آنے کے بعد یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے کسی شخصیت کو بھی انتخابات جلدی کروانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved